کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ کن افراد کو ہوتا ہے؟
نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں اس کے اثرات کئی ماہ بعد بھی دریافت ہوئے ہیں اور اس حوالے سے کافی تحقیقی کام ہورہا ہے۔
مگر اب ایک نئی تحقیق میں ان بنیادی عناصر کو شناخت کیا گیا جو ممکنہ طور پر مریضوں میں کورونا وائرس کے طویل المعیاد اثرات کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
لانگ کووڈ کی اصطلاح ان مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کورونا وائرس سے صحتیاب ہوچکے ہوں مگر بدستور مختلف علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات، شدید تھکاوٹ اور دیگر کا شکار ہوں۔
برطانیہ کی کنگز کالج لندن کی نئی تحقیق میں کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہر 20 میں سے ایک فرد کو کم از کم 8 ہفتوں تک مختلف علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق کے دوران کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ کے 4 ہزار 182 صارفین کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور اس کے بعد سے صحت کے مختلف مسائل کے شکار تھے۔
تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ معمر یا موٹاپے کے شکار افراد، خواتین، دمہ سے متاثر لوگ اور ایسے مریض جن میں کووڈ کی متعدد علامات ظاہر ہوئی ہوں، میں لانگ کووڈ کی تشکیل کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے۔
خطرے کا باعث بننے والے عناصر کی کھوج کے دوران تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لانگ کووڈ سے 18 سے 49 سال کی عمر کے 10 فیصد افراد متاثر ہوئے جبکہ 70 سال سے زائد عمر کے لوگوں میں یہ شرح 22 فیصد تھی۔
تحقیق کے مطابق جسمانی وزن بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتا ہے اور جن لوگوں کا وزن کچھ زیادہ ہوتا ہے، ان میں بھی لانگ کووڈ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
مردوں (9.5 فیصد) کے مقابلے میں خواتین میں لانگ کووڈ کی شرح (14.5 فیصد) زیادہ تھی مگر صرف کم عمر والے گروپ میں۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن لوگوں کو کووڈ کی ابتدا میں متعدد علامات کا سامنا ہوا یا وہ دمہ کے شکار تھے، ان میں بھی لانگ کووڈ کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے، تاہم کسی اور بیماری کے حوالے سے کوئی واضح تعلق سامنے نہیں آسکا۔
جہاں تک لانگ کووڈ کی عام علامات کی بات ہے تو تحقیق میں علامات کے 2 بنیادی گروپس کی شناخت کی گئی، ایک گروپ میں نظام تنفس جیسے کھانسی ، سانس لینے میں دشواری، تھکاوٹ اور سردرد عام علامات تھیں۔
دوسرے گروپ میں یہ علامات جسم کے متعدد حصوں پر ارانداز ہوئیں جیسے دماغ، معدے اور دل۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور medRxiv پر جاری ہوئے۔
محققین ان نتائج کو ایک ماڈل کی تیاری کے لیے استعمال کریں جو لوگوں میں لانگ کووڈ کے خطرے کی پیشگوئی ان کی عمر، جنس اور ابتدائی علامات کی تعداد کے مطابق کرسکے گا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق سے مریضوں کی شروع سے مدد کرنے میں مدد ملے گی اور لانگ کووڈ کی روک تھام ہوسکے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 کی پہلی لہر کے دوران حاصل ہونے والے علم کو استعمال کرنا بہت اہم ہے تاکہ دوسری لہر کے طویل المعیاد اثرات کا خطرہ کم کیا جاسکے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے بیشتر مریض تو 11 دن یا اس سے کم وقت میں نارمل ہوجاتے ہیں، مگر ہر 7 میں سے ایک کو کم از کم 4 ہفتوں تک علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
اسی طرح ہر 20 میں سے ایک میں یہ علامات 8 ہفتوں جبکہ ہر 50 میں سے ایک میں 12 ہفتوں سے زائد وقت تک برقرار رہتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ ایک تخمینہ ہے تو ہوسکتا ہے کہ لانگ کووڈ کا دورانیہ اس سے کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔