• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

سی سی پی او لاہور سے تلخ کلامی: ایس پی سی آئی اے کا تبادلہ کردیا گیا

شائع October 16, 2020
عمر شیخ کی سیف سٹی اتھارٹی ہیڈکوارٹرز میں اجلاس کے دوران عاصم افتخار سے لفظی تکرار ہوئی تھی — فائل فوٹو / ڈان نیوز
عمر شیخ کی سیف سٹی اتھارٹی ہیڈکوارٹرز میں اجلاس کے دوران عاصم افتخار سے لفظی تکرار ہوئی تھی — فائل فوٹو / ڈان نیوز

کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور عمر شیخ سے تلخ کلامی کے بعد ایس پی سی آئی اے کا تبادلہ کردیا گیا۔

حکومت پنجاب کے محکمہ پولیس سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق ایڈیشنل ایس پی سی آئی اے لاہور عاصم افتخار کا تبادلہ کرکے ایس پی ہیڈکواٹرز ٹریفک پنجاب تعینات کردیا گیا ہے۔

اسی طرح ایس پی ہیڈکوارٹرز ٹریفک پنجاب طارق عزیز کا تبادلہ کرکے ایس پی لیگل چوہنگ تعینات کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز محکمہ پولیس میں ایک اور تنازع پیدا کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے سیف سٹی اتھارٹی ہیڈکوارٹرز میں اجلاس کے دوران ’لفظی تکرار‘ کے بعد تفتیشی ایجنسی (سی آئی اے) کے ایس پی عاصم افتخار کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے تھے، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے سینئرز کی مداخلت پر گرفتاری کے احکامات کو واپس لے لیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب مبینہ طور پر سی سی پی او اجلاس کے دوران آپے سے باہر ہوگئے اور سول لائنز کے ایس پی کو اپنے ساتھی عاصم افتخار کے خلاف پولیس آرڈر 2002 کی دفعہ 155 (سی) کے تحت مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: سی سی پی او لاہور نے ’لفظی تکرار‘ کے بعد سی آئی اے ایس پی کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے

صورتحال خراب ہونے سے قبل اجلاس میں موجود اعلیٰ پولیس افسران نے مداخلت کی اور دونوں سینئر افسران کے درمیان ثالثی کی۔

تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ عمر شیخ نے سی آئی اے ایس پی کو اجلاس کے مقام سے ہٹ جانے پر مجبور کیا اور کہا کہ لاہور پولیس کو ان کی خدمات کی ضرورت نہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سی سی پی او نے ’ایس پی کو ان کے گریبان سے پکڑا‘ تو دونوں افسران کے دوران ہلکی پھلکی ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

قبل ازیں لاہور کے سی سی پی او نے اجلاس میں موجود اعلیٰ پولیس افسر پر حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے لیے مبینہ طور پر ’نرم گوشہ' رکھنے کا الزام لگایا تھا۔

معلومات رکھنے والے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ صبح 3:30 بجے اجلاس کے اختتام تک صورتحال کشیدہ رہی۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے نے سی سی پی او کی سربراہی میں کام کرنے والے دوسرے ڈویژنل ایس پیز اور افسران کو ان کے ’جارحانہ رویوں‘ کی وجہ سے خوف زدہ کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسران کی اصل تشویش یہ ہے کہ عمر شیخ نے اپنے سینئر پولیس افسران کے ساتھ جونیئر ماتحت افسران کی طرح سلوک کرنا شروع کردیا ہے جن کے خلاف وہ 'غیر ضروری' سزا دینے والے اقدامات اٹھا رہے ہیں اور جب سے عہدہ سنبھالا ہے ان میں سے 10 کے خلاف مقدمہ درج یا ان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے عمر شیخ نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ عاصم افتخار نے ’نظم و ضبط‘ کی خلاف ورزی کی ہے اور انہوں نے پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) انعام غنی کو فوری طور پر سی آئی اے ایس پی کی معطلی کے لیے اپنی سفارشات بھجوا دی ہیں۔

سی سی پی او نے کہا کہ ’جب (عاصم افتخار) سے میری ہدایت پر رابطہ کیا گیا تو اس نے بخار کا بہانہ بنایا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر تحقیقات کا آغاز

انہوں نے کہا کہ ایس پی میری واضح ہدایات کے باوجود اہم اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور جان بوجھ کر اپنا موبائل فون بند کردیا جس کی وجہ سے انہوں نے سخت کارروائی کی۔

انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اجلاس میں موجود ڈی آئی جیز کی مداخلت پر ان (ایس پی) کے خلاف گرفتاری اور مقدمہ درج کرنے کا حکم واپس لے لیا ہے‘ تاہم سی سی پی او نے بتایا کہ عملے اور پولیس وین کو سی آئی اے ایس پی سے واپس لے لیا گیا ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ عمر شیخ نے اپنے ماتحت افسران کے ساتھ مبینہ طور پر بد سلوکی کرکے تنازع کھڑا کیا ہو۔

اس سے قبل تھانہ گوجر پورہ کے ایک سابق اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) نے لاہور کے سی سی پی او پر ایک سرکاری معاملے پر ان سے گالم گلوچ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

سی سی پی او نے ایس ایچ او کو نہ صرف ملازمت سے معطل کردیا تھا بلکہ انہیں گرفتار بھی کیا تھا۔

تاہم بعد ازاں انہیں ایک عدالت نے ضمانت دے دی جس کے بعد انہوں نے سیشن عدالت سے رجوع کیا جس نے آئی جی پی سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے کی ہدایت تھی جس کا فیصلہ زیر التوا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024