دنیا کو ’ہلادینے‘ والی ’می ٹو‘ مہم
سوشل میڈیا اور خصوصی طور پر ٹوئٹر کا زیادہ استعمال کرنے والے یا پھر دنیا میں بدلتے رجحانات پر نظر رکھنے والے زیادہ تر افراد کسی نہ کسی طرح ’می ٹو‘ کے لفظ یا مہم سے واقف ضرور ہیں۔
تاہم زیادہ تر لوگ ’می ٹو‘ مہم سے متعلق اصل حقیقت نہیں جانتے اور عام افراد کا خیال ہے کہ بس ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرکے اس میں ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ لگانے سے وہ بھی دنیا میں ہونے والی تبدیلی کا حصہ بن جائیں گے۔
’می ٹو‘ مہم یا ہیش ٹیگ کو دنیا میں مقبول ہوئے تین سال ہوگئے اور اب تقریبا دنیا کے تمام ممالک کے سوشل میڈیا صارفین یہ بات جانتے ہیں کہ جب بھی ان کے ساتھ یا ان کے کسی جاننے والے یا پھر ملک میں کسی بھی خاتون یا مرد کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہو تو ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ کا استعمال کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرسکتا ہے۔
اور گزشتہ تین سال میں پاکستان سے لے کر سعودی عرب اور امریکا سے لے کر جرمنی و فرانس جیسے ممالک میں ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ کا ٹرینڈ متعدد بار سامنے آیا اور اسی ٹرینڈ کے سامنے آتے ہی ہر بار لوگوں نے استحصال اور جنسی ہراسانی کی نئی داستانیں سنیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’می ٹو‘: جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کی مہم نے دنیا کو ہلا دیا
زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ ’می ٹو‘ مہم کے شروع ہوتے ہی دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے اور اب ہر کوئی اور خصوصی طور پر ہر خاتون یا لڑکی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو دل کھول کر بیان کر رہی ہے۔
اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ گزشتہ تین سال میں دنیا کے تقریبا تمام ممالک کی کھیل سے لے کر شوبز اور سیاست سے لے کر حکومتی شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے والی خواتین نے اپنے استحصال کی کہانی بیان کی۔
لیکن اب اگر تین سال بعد ان کی کہانیوں اور ’می ٹو‘ کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ دنیا کہاں کھڑی ہے اور گزشتہ تین سال میں خواتین کے استحصال یا ہراسانی میں کیا فرق پڑا ہے تو اعداد و شمار دیکھ کر حیرانی ہی ہوگی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اکتوبر 2017 میں ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ مشہور ہونے کے بعد جنوری 2018 میں بنائے جانے والے ادارے ٹائمز اپ فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ گزشتہ تین سال میں جنسی ہراسانی کی شکایات کرنے والی خواتین کے مسائل میں اضافہ ہوگیا۔
ٹائمز اپ فاؤنڈیشن کے ریسرچ ادارے نیشنل ویمن لا سینٹر (این ایم ایل سی) کی جانب سے ’می ٹو‘ مہم کے تین سال مکمل ہونے پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ مہم کے بعد خواتین کی جانب سے جنسی ہراسانی کے واقعات کو سامنے لانے میں اضافہ ہوا تاہم شکایات کرنے والی خواتین کے لیے پہلے سے زیادہ مشکلات پیدا ہوگئیں۔
رپورٹ میں جنوری 2018 سے اپریل 2020 تک رپورٹ ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ شکایت کرنے والی ہر 10 میں سے 7 خواتین کو انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جن خواتین نے جنسی ہراسانی یا ریپ کی شکایات کی تھیں، ان میں سے زیادہ تر خواتین کو شکایات کے بعد ملازمتوں سے نکال دیا گیا یا پھر انہیں نظر انداز کرکے انتہائی سختی سے کام لیا گیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ شکایات کرنے والی 56 فیصد خواتین نے اپنی شکایات میں واضح طور پر ان افراد کے نام بتائے، جنہوں نے انہیں ہراساں کیا تھا، تاہم ایسا کرنے کے بعد خواتین کی مشکلات بڑھ گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’می ٹو‘ مہم اور ٹائمز اپ کے بنائے جانے کے بعد ہی اگرچہ کام کی جگہوں پر ہراسانی کا شکار بننے والی خواتین میں شکایات کرنے کا شعور بیدار ہوا تاہم ساتھ ہی ایسا کرنے میں خواتین کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: 'ہو شربا انکشافات' سامنے لانے والی مہم کے دو سال مکمل ہونے پر کیا ہوا؟
جنسی ہراسانی کی شکایات کرنے والی خواتین میں سے 19 فیصد نے بتایا کہ ان کی شکایات کے باوجود انہیں ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جب کہ زیادہ تر خواتین نے کہا کہ الٹا انہیں ہی ہراساں کیا گیا اور ان کی مشکلات بڑھادی گئیں۔
جنسی ہراسانی کی شکایات کرنے والی ہر 10 میں سے 7 خواتین کے مطابق جہاں انہیں نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا، وہیں انہیں نظر انداز کرکے ان کی تنخواہیں کم کردی گئیں جب کہ ان کے لیے ایسا ماحول بھی پیدا کیا گیا کہ وہ دوبارہ کہیں نوکری کرنے کے قابل ہی نہ رہیں۔
مذکورہ رپورٹ صرف امریکا کی خواتین پر مبنی تھی، کیوں کہ ٹائمز اپ زیادہ تر امریکا میں ہی جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانے والی خواتین کے لیے کام کرتی ہے۔
ٹائمز اپ فاؤنڈیشن کیا ہے؟
ٹائمز اپ فاؤنڈیشن کی بنیاد جنوری 2018 میں معروف سماجی کارکن لیزا بارڈر نے رکھی تھی، یہ ادارہ شوبز شخصیات، امریکی حکومت کے فنڈ اور دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے دیے گئے عطیات پر بنایا گیا تھا۔
ٹائمز اپ کا مقصد جنسی استحصال اور ہراسانی کا نشانہ بننے والی خواتین کو قانونی و سماجی ریلیف اور مدد فراہم کرنا ہے۔
یہ ادارہ ابتدائی طور پر شوبز و میڈیا انڈسٹری میں استحصال کا نشانہ بننے والے افراد کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا تاہم بعد ازاں اس ادارے نے صحت، ٹیکنالوجی اور انڈسٹری سمیت تقریبا ہر شعبے کے افراد کی مدد کا منصوبہ شروع کیا۔
یہ ادارہ استحصال کا نشانہ بننے والے افراد کو قانونی مدد فراہم کرنے سمیت انہیں تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ ان کی مالی مدد بھی کرتا ہے۔
اس ادارے کی سربراہ لیزا بارڈر نے فروری 2019 میں استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد ادارے کی ذمہ داری دوسری خاتون کے حوالے کی گئی تھی۔
ٹائمز اپ فاؤنڈیشن نے اپنے متعدد ذیلی ریسرچ ادارے یا تنظیمیں بنا رکھی ہیں جو استحصال کا شکار بننے والے افراد اور خصوصی طور پر خواتین کو مدد فراہم کرتی ہیں۔
می ٹو مہم کیا ہے؟
ٹوئٹر پر سب سے پہلے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ 16 اکتوبر 2017 کو استعمال کیا گیا تھا اور اس دن امریکا و یورپ سمیت دنیا بھر کی معروف خواتین سمیت عام خواتین نے اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے خود کو ہراساں کیے جانے کے واقعات سنائے تھے۔
ٹوئٹر پر سب سے پہلے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ اداکارہ ایلسا میلانو نے کیا تھا، انہوں نے ہیش ٹیگ استعمال کرنے کے بجائے دنیا بھر کی خواتین کو اپیل کی تھی کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو ٹوئٹر پر شیئر کرکے می ٹو کا ہیش ٹیگ استعمال کریں۔
مذکورہ ٹرینڈ کے ٹاپ پر رہنے کے کچھ ہی دن بعد امریکی سیاہ فام سماجی کارکن 47 سالہ ترانا برک نے ’می ٹو موومنٹ‘ نامی ادارہ قائم کیا تھا جو جنسی استحصال اور ہراسانی کا نشانہ بننے والی خواتین کو مدد فراہم کرنے کا پہلا آزاد ادارہ مانا جاتا ہے۔
گزشتہ روز ’می ٹو‘ مہم کے تین سال مکمل ہونے کے بعد ترانا برک نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) سے بات کرتے ہوئے دنیا کو ہلادینے والی مہم اور اس کے دنیا پر پڑنے والے اثرات پر بات کی۔
ترانا برک نے تسلیم کیا کہ اب مذکورہ مہم کا مقصد عدم مساوات میں تبدیل ہوچکا ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں سیاہ و سفید اور مرد و خاتون کی تفریق حد سے بڑھ چکی ہے۔
ترانا برک نے بتایا کہ اگرچہ انہوں نے اکتوبر 2017 میں ’می ٹو موومنٹ‘ کا ادارہ بنایا، تاہم وہ 2006 سے ’می ٹو‘ مہم چلاتی آ رہی تھیں۔
ترانا برک کے مطابق انہوں نے 2006 میں جنسی استحصال کا نشانہ بننے والی سیاہ فام خواتین کے حقوق کے لیے ’می ٹو‘ کے نام سے مہم چلائی تھی، جس کا مقصد سیاہ فام خواتین کو ان کے حقوق دلانا تھا۔
ترانا برک کے مطابق انہوں نے مذکورہ مہم اس لیے چلائی، کیوں کہ وہ بھی بچپن میں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے جنسی استحصال اور ریپ کا نشانہ بن چکی تھی۔
انہوں نے ’می ٹو موومنٹ‘ کے تین سال مکمل ہونے پر بتایا کہ اگرچہ اب دنیا بھر میں اور خصوصی طور پر امریکا میں خواتین کی جانب سے اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کی شکایت کرنا عام بن چکا ہے تاہم دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ تین سال میں خواتین کے استحصال میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ترانا برک نے بتایا کہ ’می ٹو موومنٹ‘ کو کورونا وائرس کی وبا نے بھی نقصان پہچایا اور اس دوران خواتین کے جنسی استحصال اور ہراسانی کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور انہیں اپنے ہی ساتھی مردوں نے نشانہ بنایا۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ تین سال گزرنے کے بعد دنیا میں بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی لیکن اب خواتین ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کا استعمال کرکے اپنی کہانیاں سامنے لا رہی ہیں۔
می ٹو مہم کا آغاز اکتوبر 2017 میں ہی کیوں ہوا؟
اکتوبر 2017 کے پہلے ہی ہفتے میں معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور نیویارکر میگزین نے متعدد اداکاراؤں کے انٹرویوز کیے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں معروف ہولی وڈ فلم پروڈیوسر 68 سالہ ہاروی وائنسٹن نے کئی سال تک جنسی ہراسانی، استحصال اور ریپ کا نشانہ بنایا۔
نیویارکر میگزین میں ہاروی وائنسٹن کے خلاف 10 اکتوبر کو تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی تھی اور اسی ہی ہفتے نیویارک ٹائمز نے بھی ہاروی وائنسٹن کے خلاف الزامات لگانے والی ادکاراؤں کے انٹرویوز شائع کیے تھے۔
ابتدائی طور پر ہاروی وائنسٹن کے خلاف ’انجلینا جولی، ایشلے جڈ، جیسیکا بارتھ، کیتھرین کنڈیل، گوینتھ پالٹرو، ہیدر گراہم، روسانا آرکوئٹے، امبرا بٹیلانا، زوئے بروک، ایما دی کانس، کارا دیلوگنے، لوشیا ایونز، رومولا گرائے، ایلزبتھ ویسٹوڈ، جوڈتھ گودریچے، ڈان ڈیننگ، جیسیکا ہائنز، روز میکگوان، ٹومی این رابرٹس، لیا سینڈوئکس، لورین سوین اور مرا سرینو‘ جیسی مقبول اداکاراؤں، ماڈل، خواتین صحافیوں، کارکنان اور عام خواتین نےالزامات لگائے تھے۔
مذکورہ رپورٹس پڑھنے کے بعد ہی امریکی ہولی وڈ اداکارہ الیسا میلانو نے 16اکتوبر کو ٹوئٹ کرکے دنیا بھر کی خواتین کو دعوت دی کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو سامنے لائیں اور ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ می ٹو کا استعمال کریں۔
الیسا میلانو کی ٹوئٹ دنیا بھر میں وائرل ہوگئی اور اسی دن ٹوئٹر پر می ٹو دنیا بھر میں ٹاپ ٹرینڈ رہا، جس کے بعد ترانا برک نے می ٹو موومنٹ نامی ادارہ بھی تشکیل دیا۔
یہ بھی پڑھیں:: ہولی وڈ پروڈیوسر پر اداکاراؤں کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام
بعد ازاں ہاروی وائنسٹن کے خلاف دیگر خواتین بھی سامنے آئیں اور ان پر مجموعی طور پر 100 سے زائد خواتین نے کئی سال جنسی استحصال، ہراسانی، بلیک میلنگ، جنسی تشدد، سیکس اور ریپ کے الزامات لگائے، جس کے بعد ان کے خلاف نیویارک اور لندن میں تحقیقات بھی شروع ہوئیں۔
بعد ازاں ہاروی وائنسٹن پر امریکا کی مختلف عدالتوں میں کیسز بھی دائر کیے گئے جن کی سماعتیں تاحال جاری ہیں اور انہیں رواں برس مارچ میں خواتین کے ریپ اور جنسی جرائم کے الزامات ثابت ہونے پر 23 سال تک جیل بھیج دیا گیا تھا اور اب وہ جیل میں ہیں جب کہ ان کے خلاف دیگر کیسز کی سماعتیں ہونا ابھی باقی ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں