• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

این آر او دینا ہمارے لیے آسان لیکن ملک کیلئے تباہی کا راستہ ہے، عمران خان

شائع October 16, 2020
وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں نیشل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں نیشل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے لیے سارے ڈاکوؤں کو این آر او دینا آسان راستہ ہے جس کی بدولت ہم تین چار سال آرام سے پارلیمنٹ میں گزار سکتے ہیں لیکن یہ ملک کی تباہی کا راستہ ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں این۔اوویٹیو ہیلتھ ٹیکنالوجی کا افتتاح کردیا، جس کے ساتھ ہی نسٹ سائنس پارک میں کارڈیک اسٹنٹ کی تیاری کا آغاز ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلاموفوبیا کے خلاف ہمارا مؤقف غیر متزلزل ہے، وزیر اعظم

یہ ملک میں پہلی سہولت ہے جو امراض قلب کے مریضوں کے لیے معیاری اسٹنٹس تیار کرے گی، اس موقع پر وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور ڈائریکٹر نسٹ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید زمان بھی موجود تھے۔

اسلام آباد میں نیشل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران نے کہا کہ میں اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ دسمبر میں میرے آنے کے بعد سے اب تک نسٹ نے بہت اہم اور بنیادی چیز پیدا کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا اور پاکستان میں سب سے زیادہ لوگ امراض قلب سے مرتے ہیں اور بدقسمتی سے یہ بہت مہنگا علاج ہے تو آپ نے مقامی سطح پر اسٹنٹس تیار کیے ہیں جس میں قیمتوں میں بہت بڑا فرق ہے جس نے ہمارا غیرملکی زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ غریب مریضوں کے علاج کا موقع دیا جو خوش آئند چیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سوچ ہے، تبدیلی پہلے ذہن میں آتی ہے پھر زمین پر آتی ہے، میں نے گزشتہ دو سالوں میں ہمارا مائنڈ سیٹ دیکھا ہے اور ہماری حکومت جس طرح کام کرتی ہے اس میں کسی طرح کا کنیکشن نہیں ہے پاکستان نے جانا کس طرف ہے، حکومت کا کیا کردار ہے، حکومتی اداروں کے آپس میں کیا رابطے ہونے چاہئیں، یہ سب فریکچر ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو قوم اپنا ویژن طے کرتی ہے کہ ہمیں جانا کہاں ہے وہ ویژن ہی دھندلا ہو چکا ہے، وہ واضح نہیں ہے اور جب وہ واضح نہ ہو تو حکومت کے اداروں کو بھی میں بھی یہ وضاحت نہیں رہتی۔

یہ بھی پڑھیں: 'حکومت کسی کی خواہش پر آتی یا جاتی نہیں ہے'

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کبھی بھی کوئی ملک آگے بڑھ ہی نہیں سکتا جس کی درآمدات، برآمدات سے زیادہ ہوں، جب دو سال قبل ہم نے حکومت سنبھالی تو 60 ارب ڈالر کی درآمدات تھیں اور 20 ارب ڈالر برآمدات تھیں اور وہ بھی 25 ارب ڈالر سے ہو کر آئی تھی یعنی پہلے سے کم ہو گئی، ایسے دنیا میں کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ کے ملک سے ڈالر زیادہ بڑی تعداد میں باہر جا رہے ہوں اور ملک میں کم ڈالرز آ رہے ہوں تو ملک کبھی خوشحال نہیں ہو سکتا، ہر تھوڑی دیر بعد ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہو جاتی ہے، ہمارے ذخائر ختم ہو جاتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ جس ملک میں تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر ہو تو اس سے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑے گا، جب ذخائر کم ہوں گے تو روپیہ گرنا شروع ہو جائے گا اور روپیہ گرے گا تو مہنگائی آئے گی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم بتائیں نجی تقریب کیلئے سرکاری املاک کیوں استعمال کیں، جسٹس عیسیٰ

ان کا کہنا تھا کہ چین کی ترقی اس لیے ہوئی کیونکہ چینی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ہمیں اپنی برآمدات کو ترجیح دینی ہے، وہ جیسے جیسے اپنی ایکسورٹ بڑھاتے گئے، ان کی دولت بڑھتی گئی، پوری حکومت کا کام برآمدات بڑھانا تھا تاکہ ملک میں زیادہ ڈالرز لا سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترکی میں جب وزیر اعظم طیب اردوان آئے تو ترکی کا بالکل ہمارے جیسا حال تھا، وہاں بھی انہیں ہر تھوڑی دیر کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا تھا، ان کی جمہوریت میں خلل پڑتا رہتا تھا تو ترکی میں تبدیل لانے والے اردوان نے باقاعدہ منصوبہ بناتے ہوئے اپنی برآمدات بڑھائیں لیکن ہم نے کبھی کسی سے یہ نہیں سنا۔

ان کا کہنا تھا کہ 60 کی دہائی میں پاکستان درست سمت میں گامزن تھا، انڈسٹرلائزیشن کی جانب جا رہا تھا لیکن 70 کی دہائی میں مختلف سوچ آ گئی، نیشنلائزیشن آ گئی، پاکستان پر جمود طاری کردیا اور آج تک پاکستان اس سوچ سے نہیں نکل سکا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بہت اچھا قدم ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے اسٹنٹس بنائیں گے، دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہیں جو خود اسٹنٹس بنا رہے ہیں، جو ملک جوہری ٹیکنالوجی تیار کر سکے اس کے لیے تو بہت سی چیزیں آسان ہونی چاہیے تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی بچوں کی نامکمل نشوونما کا جامع روڈ میپ تیار کرنے کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ سنگاپور ایک چھوٹا ملک ہے جس کی 300 ارب ڈالر کی برآمدات ہیں اور ہمارے 22 کروڑ لوگوں کے ملک کی 25 ارب ڈالر کی برآمدات ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم غلط سمت میں گامزن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ابھی تک وہی سوشلز کی سوچ ہے جس میں منافع کمانے کو جرم تصور کیا جاتا ہے، اگر سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو ملک آگے کیسے بڑھے گا۔

عمران خان نے کہا کہ ہم مائنڈ سیٹ بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملک میں سرمایہ کاری ہو، کاروبار چلے، پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ اوورسیز پاکستانی ہیں، وہ سب سے محب وطن پاکستانی ہے، جب وہ باہر کے معاشرے میں رہتا ہے تو اسے اپنے ملک کی زیادہ قدر ہو جاتی ہے اور اب اسلاموفوبیو کی وجہ سے پاکستان کی اور زیادہ قدر ہے، اگر ہم اپنا ماحول ٹھیک کر لیں تو سب سے زیادہ اوورسیز پاکستانی ملک کو فائدہ پہنچائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم ڈالر نہیں بچائیں گے اور ہمارے پاس اضافی ڈالر نہیں ہوں گے، اس وقت تک ہمیں ہر تیسرے سال آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا کیونکہ ہماری تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن نہیں ہو گا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے معاون خصوصی کی بریت کے خلاف نیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ جدوجہد کرتے ہیں تو آپ کے سامنے دو راستے آتے ہیں، ایک آسان راستہ اور ایک مشکل راستہ ہوتا ہے، وہی آپ کی کامیابی اور ناکامی کا راستہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی چیزیں جنہیں آپ اچھا سمجھتے ہیں وہ بری ہیں اور کئی چیزیں جنہیں آپ برا سمجھتے ہیں وہ آپ کے لیے اچھی ہیں جبکہ ہمارے پاس ہمیشہ آسان راستہ چننے کا اختیار ہوتا ہے کہ کون سارا وقت جدوجہد کرے۔

انہوں نے کہا کہ سارے ڈاکو اکٹھے ہو کر کبھی کچھ کریں گے تو کبھی کچھ، ہمارے پاس بھی آپشن ہے کہ آسان راستہ لے لو، سمجھوتہ کر لو، انہیں معاف کردو، این آر او دے دو، آسان راستہ، زندگی آسان ہو جائے گی، آرام سے ہم بھی پارلیمنٹ میں تقریریں کریں گے اور تین چار سال گزر جائیں گے لیکن یہ تباہی کا راستہ ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ یاد رکھیں کہ جو آپ کی بہتری کا راستہ ہے وہ ہمیشہ آسان راستہ نہیں ہوتا، اس میں بڑے اور مشکل فیصلے کرنے پرتے ہیں اور وہی مشکل فیصلے آپ کو اوپر لے کر جاتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024