اپوزیشن نے پی آئی ڈی اے آرڈیننس کو ختم کرنے کیلئے سینیٹ میں قرارداد جمع کرادی
اسلام آباد: وفاق کے دو جزیروں کو تجارت اور سرمایہ کاری کے مرکزوں اور بین الاقوامی سیاحتی مقامات کی حیثیت سے ترقی دینے کے اقدام کو روکنے کی کوشش میں اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ سیکریٹریٹ میں ایک قرارداد پیش کی جس میں متنازع پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) آرڈیننس 2020 کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گورنر سندھ عمران اسمعٰیل کو پیپلز پارٹی کی زیر قیادت سندھ حکومت سے معاملات حل کرنے کی ہدایت دی جانے کے چار روز بعد سینیٹ سیکریٹریٹ میں قواعد و ضوابط اور ضابطہ اخلاق کے رول 145 (2) کے تحت 5 اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 10 ممبران کے دستخط شدہ قرارداد جمع کرائی گئی۔
پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو کی جانب سے قرار داد کو آگے بڑھایا گیا جس میں ان کی جماعت کے دیگر رہنما شیری رحمٰن، ڈاکٹر سکندر میندھرو، مولا بخش چانڈیو، کیشو بائی اور گیان چند کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، نیشنل پارٹی کے میر کبیر شاہی اور جماعت اسلامی کے مشتاق احمد نے دستخط کیے۔
مزید پڑھیں: زیادہ اہم کیا؟ جزیروں پر تعمیرات یا قدرت کی جانب سے دیے گئے انعامات؟
104 رکنی سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اپوزیشن نے حال ہی میں ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ اہم قانون سازیوں پر حکومت کو شکست دے چکی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے مشترکہ اجلاس کے ذریعے ان قوانین کو منظور کرایا تھا۔
اس کے علاوہ اپوزیشن اپنی اکثریت کی وجہ سے سینیٹ میں اسی طرح کی قراردادوں کے ذریعے پہلے بھی چند آرڈیننس کو مسترد کرچکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر اپوزیشن قرارداد پر ووٹنگ کے روز اپنے ممبران کی موجودگی کو یقینی بنائے گی تو وہ حکومت کو آسانی سے شکست دے سکتی ہے اور اس آرڈیننس کو مسترد کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 31 اگست کو پی آئی ڈی اے آرڈیننس کی منظوری دی تھی جس کے تحت وفاقی حکومت کراچی کے ساحل کے ساتھ ہی دو جزیروں، بنڈل اور بڈو کا کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
آرڈیننس کے اجرا پر سندھ حکومت نے سخت تنقید کی تھی اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ سال بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے غیر قانونی الحاق کے اقدام کو اس اقدام سے مساوی قرار دیا تھا۔
بنڈل جزیرہ منصوبہ
دوسری جانب اسلام آباد میں وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا تھا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیر برائے بحری امور علی زیدی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے گورنر سندھ نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ جزیرے صوبے کا حصہ رہیں گے اور کہا تھا کہ سندھ حکومت میں کچھ الجھنیں ہیں۔
عمران اسمٰعیل نے کہا کہ اس منصوبے سے حاصل ہونے والی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ سندھ کو جائے گا اور اس منصوبے میں وفاقی حکومت کا واحد مفاد تقریبا 50 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوگی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں: 'بنڈل آئی لینڈ کو اسلام آباد نہیں لے جارہے، فائدہ سندھ حکومت کو ہوگا'
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے علاوہ بنڈل جزیرے کے منصوبے سے 1.5 لاکھ کے قریب ملازمتیں پیدا ہوں گی اور توقع کی جارہی ہے کہ سالانہ 4 سے 5 لاکھ سیاح اس علاقے کا دورہ کریں گے۔
بظاہر گورنر کی مخالفت کرتے ہوئے علی زیدی نے کہا کہ 1973 میں قائم کردہ کورڈینیٹس کے تحت بنڈل جزیرے پورٹ قاسم اتھارٹی کے تحت تھے اور وہاں بیس کے قیام کے لیے لیز کو پورٹ قاسم نے پاکستان نیوی کو دے دیا تھا اور یہ ایک وفاقی اراضی ہے۔
اس سے قبل علی زیدی نے 6 جولائی 2020 کو سندھ حکومت کا ایک خط سوشل میڈیا پر شائع کیا تھا جس میں سندھ حکومت نے بنڈل جزیرے کو وفاقی حکومت لیے ’دستیاب‘ کردیا تھا۔
خیال رہے کہ سندھ حکومت وفاقی حکومت سے آرڈیننس کو ’فوری طور پر‘ واپس لینے کے لیے کہہ رہی ہے اور دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ جزیرے صرف اور صرف صوبے کی حکومت اور عوام کے ہیں۔