بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ بات چیت
بھارت اور چین کے سینئر فوجی کمانڈرز کے درمیان تازہ مذاکرات ہوئے ہیں جس کا مقصد متنازع سرحدی علاقے لداخ میں ایک ماہ سے جاری کشیدگی کو ختم کرنا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق یہ مذاکرات بھارتی علاقے چوشول میں ہوئے تاہم اس کے حوالے سے فوری طور پر مزید کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
یہ بات چیت اس وقت سامنے آئی ہے جب خطے میں سخت سردی کی لہر کا آغاز ہونے والا ہے اور اس موقع پر دونوں ممالک کے ہزاروں فوجی توپ خانے، ٹینکوں اور لڑاکا طیارے اس خطے میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین کی افواج، سفارتی اور سیاسی عہدیداروں کے درمیان متعدد مذاکرات کے ادوار گزر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سرحدی کشیدگی: بھارت اور چین کے فوجی کمانڈرز کی دوبارہ ملاقات
ان میں گزشتہ ماہ ماسکو میں وزرائے خارجہ اور وزیر دفاع کے درمیان بات چیت شامل ہے۔
اگرچہ مؤقف برقرار ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ بات چیت نے سرحد کے ساتھ ہی صورتحال کو پرسکون کردیا ہے کیونکہ اب ایک ماہ سے کوئی نئی فوجی جارحیت کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
10 ستمبر کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد فوجی سطح کے اس سے قبل مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ان کی فوج کو سرحدی تنازع سے دستبردار ہوجانا چاہیے، مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے اور کشیدگی کو کم کرنا چاہیے۔
وزرائے خارجہ نے فوجیوں، توپ خانوں، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں سے دستبرداری کے لیے کوئی ٹائم لائن طے نہیں کی جو مئی میں پہلی مرتبہ کشیدگی کے بعد سے اس خطے میں موجود ہے۔
فوجی ماہرین نے بار بار متنبہ کیا تھا کہ لداخ سے باہر کسی بھی سمت سے غلطی کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
بھارت اور چین، دونوں نے بہت کم معلومات فراہم کیں تاہم دونوں ممالک کے میڈیا نے بڑھتے ہوئے تناؤ کو وسیع کوریج دی ہے جس نے ان کے باہمی تعلقات کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کردیا ہے۔
مئی سے شروع ہونے والی کشیدگی جون میں دہائیوں کی مہلک ترین ہوگئی تھی جہاں پتھراؤ اور ہاتھا پائی سے لڑائی میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ چین کو بھی جانی نقصان ہوا ہے تاہم اس نے کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے چین کے ساتھ مشرقی سرحد میں اپنی فوج کی تعداد بڑھا دی
اس جھڑپ کے بعد دونوں ممالک وادی گلوان اور کم از کم دو دیگر مقامات سے جزوی طور پر دستبردار ہوگئے تھے تاہم کم از کم تین دیگر علاقوں میں اب بھی یہ بحران جاری ہے جس میں پینگونگ جھیل کا علاقہ بھی شامل ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ایشیائی ممالک نے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ پینگونگ میں ایک دوسرے کے علاقوں میں فوجی بھیج رہے ہیں اور 45 برسوں میں پہلی بار انتباہی گولیاں چلارہے ہیں جس سے ایک مکمل پیمانے پر فوجی تنازع کی علامت سامنے آرہی ہے۔
واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اکثر تناؤ کا شکار رہتے ہیں جس کی ایک وجہ ان کی غیر منقسم سرحد ہے۔
دونوں ممالک نے 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی تھی جو لداخ تک پھیل گئی تھی اور ایک معاہدے پر اس جنگ کا اختتام ہوا تھا۔
اس معاہدے میں انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف سرحدی علاقے میں اسلحہ استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔