وزارت قانون نے 2 انگلیوں کا ٹیسٹ مسترد کردیا
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے جنسی استحصال کے متاثرین کی جانچ کے پرانے طریقہ کار 2 انگلیوں کے ٹیسٹ (ٹی ایف ٹی) کو مسترد کردیا ہے اور تجویز دی ہے کہ اسے ریپ/جنسی استحصال کے کیسز میں کسی میڈیکو لیگل ایگزامینیشن رپورٹ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت قانون و انصاف نے لاہور میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری اشتیاق احمد خان کو ان تجاویز کے بارے میں آگاہ کیا، جس کے بعد اب وہ لاہور ہائیکورٹ کو وفاقی حکومت کے مؤقف سے آگاہ کریں گے۔
واضح رہے کہ عدالت عالیہ ٹی ایف ٹی کو چیلنج کرنے سے متعلق 2 مفاد عامہ کی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے، ان 2 میں سے ایک درخواست مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے دائر کی تھی جبکہ دوسری درخواست خواتین کے حقوق کی کارکنان، ماہرین تعلیم، صحافیوں اور وکلا کی جانب سے ہے، جس میں صدف عزیز، فریدہ شاہید، فریحہ عزیز، فرح ضیا، سارہ زمان، ملیحہ ضیا لاری، ڈاکٹر عائشہ بابر اور زینب حسین شامل ہیں۔
درخواستوں میں ٹی ایف ٹی کو غیرانسانی، بے عزتی کرنا ہے اور خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: 'جنسی استحصال کا شکار افراد کے کنوارے پن کو جانچنے کا ٹیسٹ ختم کردیا جائے گا'
گزشتہ ماہ کیس کی سماعت میں پنجاب اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ نے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں یہ مشاہدہ کیا تھا کہ کنوارے پن کے تعین میں ٹی ایف ٹی کی شہادتی قدر محدود ہے، لہٰذا اسے میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) کے پروٹوکول سے ختم کردینا چاہیے۔
لاہور ہائیکورٹ میں مذکورہ سماعت آئندہ ماہ کےپہلے ہفتے میں دوبارہ ہونے کا امکان ہے لیکن اسی اثنا میں وزارت قانون اس معاملے پر اپنے جواب کے ساتھ سامنے آئی، جسے آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے رکھا جائے گا۔
عدالت کی جانب سے وزارت سے یہ جواب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری ایک بیان کے بعد طلب کیا گیا۔
اپنے بیان میں وزارت قانون نے لکھا کہ ٹی ایف ٹی ایک بے نتیجہ ٹیسٹ ہے، مزید یہ کہ جس طرح یہ کیا جاتا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق تمام صورتحال میں انسانی وقار اور گھر کی رازداری کا احترام کرنا چاہیے اور یہ رازداری کا حق قانون کی کسی بھی دوسری متضاد دفعات پر فوقیت رکھتا ہے۔
وزارت نے یاد دلایا کہ کس طرح 1984 کا قانون شہادت حکم کا آرٹیکل 151 (4) ملزم کو اپنے دفاع میں ریپ متاثرہ کے کردار کو چیلنج کرنے کا اختیار دیتا ہے لیکن 2016 کے ایکٹ نمبر XLIV کے سیکشن 16 کے ذریعے آرٹیکل 151 (4) کو ترک کردیا گیا اور اس سب کارروائی کا یہ منطقی نتیجہ نکلا کہ 2 انگلیوں کا ٹیسٹ جس انداز میں کیا جاتا وہ متاثرہ فرد کے کردار کو چیلینج کرنے مترادف ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اپنے درخواست کے ذریعے درخواست گزاروں نے ایک ڈیکلیریشن طلب کیا تھا کہ ان طریقوں سے خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جس میں زندگی کا حق، رازداری، وقار، جسمانی سالمیت، انصاف تک رسائی، ظالمانہ، غیرانسانی اور ذلت آمیز سلوک سے تحفظ اور امتیازی سلوک سے آزادی شامل ہے۔
درخواست گزاروں نے مزید کہا کہ یہ ٹیسٹ خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے مختلف اقسام کے پھیلاؤ کو نظرانداز کرکے خواتین کے مخصوص اعضا (اناٹومی) سے متعلق خرافات اور غلط فہمیوں کو پروان چڑھاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’یوم خواتین‘: وجود زن پر ظلم کی داستان سنانے والی چند تحاریک
مذکورہ درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ پوری دنیا میں صحت کے دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس کی منسوخی کے مطالبے کے باوجود پاکستان میں یہ ٹیسٹ اب بھی جاری ہے۔
اس میں کہا گیا کہ ٹی ایف ٹی اور ہیمین (hymen) ٹیسٹس کا مسلسل استعمال کسی ثبوت کا باعث نہیں بنا جسے مقدمے سے متعلق سمجھا جائے اور اس کا مقصد صرف اور صرف ان خواتین جو اس طرح کے جرائم سے متاثر ہوئی ہیں ان کے کردار، اخلاقیات، عفت، معاشرتی مؤقف، ماضی کا جنسی فعل اور ساکھ کے نتائج کو اخذ کرنا ہے۔
درخواست میں یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ ہیومن رائٹس واچ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم اور عالمی ادارہ صحت ٹی ایف ٹی کے خاتمے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
مزید یہ کہ عالمی ادارہ صحت نے کنوارے پن کی جانچ کو ’غیرسائنسی، طبی لحاظ سےغیر ضروری اور ناقابل اعتبار‘ قرار دیا ہے۔
درخواست گزاروں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ میڈیکو لیگل ایگزامینیشن سے گزرنے والی تمام خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے اور ریب اور جنسی استحصال کے دعوؤں کی تحقیقات کے سائنسی طریقے اپنائیں۔
یہ خبر 10 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی