کورونا وائرس خاموشی سے لوگوں کے درمیان کیسے پھیلتا ہے؟
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار سائنسدانوں کی توقعات سے بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وبا کے آغاز سے ہی اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے متعدد جوابات سامنے آئے ہیں مگر ایک پہلو کو سب سے اہم قرار دیا گیا یعنی کورونا وائرس کے ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، مگر وہ اسے آگے صحت مند افراد میں منتقل کردیتے ہیں۔
اب ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے مثبت ٹیسٹ والے ہر 10 میں سے 8 مریضوں میں اس بیماری کی علامات ٹیسٹ کے وقت ظاہر نہیں ہوتیں۔
برطانیہ کی لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 86 فیصد مریضوں میں کھانسی، بخار، سونگھنے یا چکھنے کی حس جیسی علامات سامنے نہیں آئیں، جبکہ 77 فیصد مریض تو ایسے تھے جن میں کسی بھی قسم کی علامات نظر نہیں آئیں۔
تحقیق میں برطانیہ کے آفس فار نیشنل اسٹیٹکس (او این ایس) کے انفیکشن سروے کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جس کے تحت ہزاروں افراد کی ٹیسٹنگ ہر ہفتے کی جاتی ہے، چاہے علامات ظاہر ہوں یا نہ ہوں۔
تحقیق کے دوران اپریل سے جون کے دوران ٹیسٹنگ کے عمل سے گزرنے والے 36 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا۔
ان میں سے اوسطاً روزانہ 115 یا 0.32 فیصد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی، جن میں سے 23.5 فیصد میں علامات جبکہ 76.4 علامات نہیں تھیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ کچھ افراد میں کووڈ 19 کی علامات ٹیسٹ سے کچھ دن قبل یا بعد میں نظر آتی ہیں مگر اعدادوشمار سے عندیہ ملتا ہے کہ زیادہ بڑی تعداد ایسے اافراد کی ہوتی ہے جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ خاموشی سے اس وائرس کو آگے منتقل کرتے ہیں اور انہیں اس کا علم بھی نہیں ہوتا، تو ہمارے خیال میں یہ ایک مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ درحقیقت باہر ایسے افراد کی بہت زیادہ تعداد ہوسکتی ہے جو اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور خود کو الگ تھلگ نہیں کرتے، کیونکہ انہیں اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔
محققین کے مطابق یونیورسٹی کے طالبعلموں کو ایک ایسا گروپ تصور کرنا چاہیے جن کے ٹیسٹ ہر کچھ عرصے بعد ہونے اہیے۔
تحقیق میں ٹیسٹنگ کی حکمت عملی میں تبدیلی پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ علامات اس بیماری کی شناخت کا ناقص ذریعہ ہے۔
تحقیق میں کہا گیا کہ وائرس کو خاموشی سے پھیلنے سے روکنے کے لیے اور مستقبل میں اس کی مزید لہروں کی روک تھام کے لیے ٹیسٹ پروگرامز میں لوگوں کے زیادہ بڑے گروپس کی ٹیسٹنگ معمول بنانا چاہیے اور ہر ایک کو اس کا حصہ بنایا جائے۔
اس سے قبل اگست میں جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اس وائرس کو اتنا زیادہ آگے پھیلا سکتے ہیں جتنا علامات والے مریض۔
ب تک بغیر علامات والے مریضوں کی جانب سے کورونا وائرس کو آگے پھیلانے کے حوالے سے شواہد مشاہداتی تھے۔
مگر جنوبی کوریا میں ہونے والی اس تحقیق میں زیادہ ٹھوس ثبوت پیش کیے گئے کہ بغیر علامات والے مریضوں کی ناک، حلق اور پھیپھڑوں میں اتنا ہی وائرل لوڈ ہوتا ہے جتنا علامات والے مریضوں میں اور دونوں میں اس کادورانیہ بھی لگ بھگ ایک جتنا ہی ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں مریضوں میں جینیاتی مواد کی جانچ پڑتال کی گئی اور محققین کی جانب سے وائرس کی منتقلی کی چین یا زندہ وائرسز کی نشوونما کو نہیں دیکھا گیا۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ بغیر علامات والے مریض غیر دانستہ طور پر وائرس کو پھیلادیتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران محققین نے 6 سے 26 مارچ کے دوران بغیر علامات والے 193 مریضوں اور 110 علامات والے مریضوں کے لیے گئے نمونوں کا تجزیہ کیا۔
ابتدائی طور پر 89 میں سے 30 فیصد کبھی بیمار نہیں ہوئے جبکہ 21 فیصد میں علامات نظر آئیں۔
تحقیق میں شامل بیشتر افراد نوجوان تھے اور اوسط عمر 25 سال تھی۔
تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ 30 فیصد متاثرہ افراد میں کبھی بھی علامات پیدا نہیں ہوتیں جو کہ دیگر تحقیقی رپورٹس کے نتائج سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔
جنوبی کورین تحقیق میں شامل افراد کو وائرس کی تشخیص کے ساتھ ہی الگ کردیاگیا تھا اور دیگر کو بیمار نہیں کرسکے تھے۔
ڈاکٹروں اور نرسوں نے ان کے درجہ حرارت اور دیگر علامات پرنظر رکھی جبکہ بلغم کا تجزیہ کیا جس سے پھیپھڑوں، ناک اور حلق میں وائرس کی موجودگی کا عندیہ ملا۔
محققین کا کہنا تھا کہ دونوں گروپس میں وائرس کی مقدار بیماری کے مکمل دورانیے کے دوران ملتی جلتی تھی، بس بغیر علامات والے افراد 17 ویں دن وائرس سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے جبکہ علامات والے گروپ میں یہ اوسط 19 سے 20 دن تھی۔
دونوں میں یہ دورانیہ بیشتر ممالک میں قرنطینہ کے لیے طے کیے گئے دورانیے سے طویل تھا۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں بھی یہ عندیہ دیا جاچکا ہے کہ متاثرہ افراد سے وائرس کے جھڑنے کا دورانیہ بمشکل ایک ہفتہ ہوتا ہے۔