کورونا کے ہسپتال میں زیرعلاج 80 فیصد سے زائد مریضوں کو اعصابی علامات کا سامنا
نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 80 فیصد سے زیادہ افراد کو اعصابی نظام کی علامات بشمول سر اور مسلز میں درد، الجھن اور سر چکرانے کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
طبی جریدے اینالز آف کلینیکل اینڈ ٹرانزلیشنل نیورولوجی میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج ایک تہائی مریضوں کو encephalopathy نامی دماغی عارضے کا سامنا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دماغی افعال یا ساخت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔
اس بیماری کو اضافی پیچیدگیوں اور موت کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس دماغی بیماری کا سامنا ایسے مریضوں کو ہوا جو زیادہ عمر (65 سال اوسطاً) اور مرد تھے اور علامات کے ظاہر ہوتے ہی ہسپتال میں داخل ہوگئے تھے۔
نارتھ ویسٹرن میڈیسین کی اس تحقیق میں 509 مریضوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تھا جو ہسپتال میں 5 مارچ سے 6 اپریل کے درمیان ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 42.2 فیصد مریضوں کو اعصابی علامات کا سامنا بیماری کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا جبکہ 62.7 فیصد نے ان علامات کو ہسپتال میں داخلے کے وقت رپورٹ کیا اور 82.3 فیصد کو اس کا تجربہ پوری بیماری کے دوران کسی وقت ہوا۔
تحقیق کے مطابق ایسے افراد جن میں کووڈ 19 کی شدت بہت زیادہ تھی اور جو نوجوان تھے، ان میں کسی قسم کی اعصابی علامات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ سب سے عام علامات مسلز میں تکلیف، سردرد، سر چکرانے اور encephalopathy دریافت ہوئیں، جن کے باعث متعدد اقسام مسائل پیدا ہوئے، جیسے عارضی طور پر توجہ مرکوز کرنے، غنودگی اور دماغ کو مستقل نقصان پہنچنا۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد اگرچہ 71.1 فیصد مریضوں کی حالت ٹھیک تھی مگر جن کو encephalophathy کا سامنا ہوا تھا، ان کے افعال متاثر ہوئے۔
کورونا وائرس کی وبا کے آغاز میں مانا جارہا تھا کہ کووڈ 19 نظام تنفس کی بیماری ہے مگر اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ یہ وائرس جسم کے متعدد اعضا کو متاثر کرتا ہے۔ جس میں دماغ اور اعصابی نظام بھی شامل ہے۔
جون میں امریکا میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 پورے اعصابی نظام کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کی اعصابی علامات دیگر عام نشانیوں سے بھی پہلے نظر آسکتی ہیں۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 کی ابتدائی علامات اعصابی علامات کی شکل میں نظر آتی ہیں اور یہ بخار یا نظام تنفس کی دیگر علامات جیسے کھانسی سے بھی پہلے نمودار ہوسکتی ہیں۔
تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج کووڈ 19 کے لگ بھگ 50 فیصد مریضوں میں اعصابی علامات بشمول سرچکرانے، سردرد، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سونگھنے اور چکھنے سے محرومی، seizures، فالج، کمزوری اور پٹھوں میں درد قابل ذکر ہیں۔
جولائی میں امریکا کی سنسناتی یونیورسٹی کالج آف میڈیسین کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مایوسی کا احساس یا ذہنی بے چینی جیسی علامات بھی کووڈ 19 کے مریضوں میں نظر آسکتی ہیں کیونکہ یہ وائرس مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔
یہ 2 نفسیاتی علامات نوول کورونا وائرس کی عام علامات سانس لینے میں مشکلات، کھانسی یا بخار کے مقابلے میں سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی سے زیادہ قریب ہیں۔
تحقیق میں سوئٹزرلینڈ کے 114 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سونگھنے یا چکھنے سے محرومی، ناک کی بندش، بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات جیسی علامات کی شدت بہت زیادہ تھی۔
اگست میں لندن کالج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 43 میں سے 10 مریضوں کے دماغی افعال عارضی طور پر غیرفعال ہوگئے جبکہ 12 کو دماغی ورم، 8 کو فالج اور 8 کو اعصابی نقصان کا سامنا ہوا۔
ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کئی بار دماغی خلیات پر قبضہ کرکے انہیں اپنی نقول بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر حصوں میں کرتا ہے۔
امریکا کی یالے یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل اکیوکو آئیواسکی نے بتایا کہ ہم متحرک انداز سے مریضوں کے ٹشوز کا جائزہ لے کر یہ دریافت کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ یہ وائرس کس طرح دماغ پر اثرانداز ہوتا ہے اور کونسی علامات سامنے آسکتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ماہرین کو یہ جاننا چاہیے کہ یہ وائرس کس طرح دماغ میں داخل ہوتا ہے اور کس طرح اسے دماغ سے باہر رکھا جاسکتا ہے۔
تحقیق کے لیے کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 3 مریضوں کے دماغی ٹشوز کا جائزہ لیا گیا اور محققین نے اس کے تجربات چوہوں پر بھی کیے جن کو کووڈ 19 سے متاثر کیا گیا۔
اسی طرح انہوں نے لیبارٹری میں دماغی ٹشوز کی نقل پر مبنی خلیات بھی تیار کیے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں کورونا وائرس کے دماغی انفیکشن کی جانچ پڑتال کے لیے 3 ماڈلز کو استعمال کیا گیا۔
لیبارٹری میں تیار کیے گئے خلیات میں دریافت کیا گیا کہ وائرس کس طرح ایس ٹو ریسیپٹر کے ذریعے نیورونز میں داخل ہوتا ہے۔
اس کے بعد محققین نے الیکٹرون مائیکرو اسکوپ کو استعمال کیا گیا جس کی بیمز سے ٹشوز کے ان ذرات کو جگمگایا گیا جو وائرس سے متاثر تھے۔
انہوں نے دیکھا کہ کورونا وائرس کے ذرات خلیات کے اندر قبضہ جما رہا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ یہ وائرس ان نیورونز کو اپنی نئی نقول بنانے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ وائرس سے ان قریبی نیورونز میں بھی قریبی میٹابولک تبدیلیاں آئیں جو وائرس سے متاثر نہیں تھے۔
یہ قریبی خلیات بڑی تعداد میں مررہے تھے اور اس سے عندیہ ملا کہ متاثرہ خلیات صحت مند خلیات سے آکسیجن کو چوری کررتے ہیں تاکہ نئے وائرس تیار کرسکیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ اس سے ملتا جلتا عمل متاثرہ افراد کے اندر بھی ہوتا ہے یا نہیں، تاہم ایسے چند شواہد موجود ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں۔
ہلاک مریضوں کے ٹشوز میں تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس سے متاثر خلیات کے قریب موجود دماغی جھلی پر جھریاں پڑ چکی تھی جو کہ چھوٹے فالج کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس قریبی خلیات سے آکسیجن چرا لیتا ہے جیسا لیبارٹری کے خلیات میں انہوں نے دریافت کیا تھا۔
خاص طور پر متاثرہ دماغی ٹشوز میں مدافعتی خلیات کی اس طرح بھرمار نہیں تھی جیسی توقع کی جارہی تھی۔
زیکا وائرس یا ریبیس وائرس جب دماغ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو بڑی تعداد میں مدافعتی خلیات ان کا تعاقب کرتے ہیں، مگر کورونا وائرس کھ اس طرح حملہ کرتا ہے کہ جسمانی دفاع کو دھوکا دے دیتا ہے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں کہ یہ خلاف معمول مدافعتی ردعمل کس طرح بیماری پر اثرانداز ہوتا ہے، مگر اس سے دماغ سے وائرس کی صفائی بہت مشکل ہوسکتی ہے۔