• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

لاہور: نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

سابق وزیراعظم نواز شریف—فائل فوٹو: اے پی
سابق وزیراعظم نواز شریف—فائل فوٹو: اے پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مجرمانہ سازش، بغاوت اور لوگوں کو اکسانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ ایف آئی آر میں مریم نواز سمیت دیگر لیگی قائدین کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے ( ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

خیال رہے کہ 20 ستمبر 2020 کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے طویل عرصے بعد اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں حکومت اور اداروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری جدوجہد وزیراعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ 2018 کے انتخابات کے ذریعے انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔

اس کے بعد وہ کئی دفعہ اپنی تقاریر میں حکومت، فوج اور پاکستان کے دیگر اداروں پر سخت تنقید کرتے آرہے ہیں۔

مذکورہ مقدمے میں مؤقف اپنایا گیا کہ 'مجرم نواز شریف پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے سزا یافتہ ہے اور ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں جان بچانے اور علاج معالجے کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی اور حکومت وقت نے مخالفت نہیں کی'۔

مزید پڑھیں: فوج کے خلاف 'ہرزہ سرائی': کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج

ایف آئی آر کے متن کے مطابق تاہم اب سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں۔

مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے۔

تھانے میں درج مقدمے کے متن میں مؤقف اپنایا گیا کہ نواز شریف کی تقاریر کا بنیادی مقصد پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنا اور پاکستان کو روگ اسٹیٹ قرار دینا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق نواز شریف کے آل پارٹیز کانفرنس، مسلم لیگ کی سینٹرل ورکرز کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے خطبات میں شریک رہنماؤں راجا ظفر الحق، سردار ایاز صادق، شاہد خاقان عباسی، خرم دستگیر، جنرل (ر) عبدالقیوم، سلیم ضیا، اقبال ظفر جھگڑا، صلاح الدین ترمذی، مریم نواز شریف، احسن اقبال، شیخ آفتاب احمد، پرویز رشید، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، بیگم نجمہ حمید، بیگم ذکیہ شاہ نواز، طارق رزاق چوہدری نے تقاریر کی تائید کی۔

مزید یہ کہ ایف آئی آر کے مطابق سردار یعقوب نثار، نوابزدہ چنگیز مری، مفتاح اسمٰعیل، طارق فزاق چوہدری، محمد زبیر، عبدالقادر بلوچ، فاطمہ خواجہ، مرتضیٰ جاوید عباسی، مہتاب عباسی، جاوید لطیف، مریم اورنگزیب، عطا للہ تارڑ، چوہدری برجیس طاہر، چوہدری محمد جعفر اقبال، عظمیٰ بخاری، شائستہ پرویز ملک، سائرہ افضل تارڑ، بیگم عشرت اشرف، وحید عالم، راحیلہ درانی، دانیال عزیز سمیت ویڈیو لنک پر شریک رہنماؤں راجا فاروق حیدر، خواجہ سعد رفیق، امیر مقام عرفان صدیقی و دیگر نے نواز شریف کی تقاریر کو سن کر اس کی تائید کی۔

مختلف دفعات کے تحت درج مقدمے کے مطابق نواز شریف نیب قوانین کے تحت ایک سزا یافتہ مجرم ہے اور نواز شریف کا مقصد میڈیا پر براہ راست پاکستان کے مقتدر اداروں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر کرنا اور عوام بالخصوص اپنے پارٹی اراکین کو اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانا ہے جبکہ وہ لندن سے بیٹھ کر میڈیا کے ذریعے عوام کو کھلے عام بغاوت کی ترغیب دے رہا ہے تاکہ عوام ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کریں تاکہ ملک میں آگ و خون کا کھیل کھیلا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: آل پارٹیز کانفرنس: جدوجہد عمران خان کے نہیں انہیں لانے والوں کیخلاف ہے، نواز شریف

مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق نواز شریف کی اس طرح کی تقاریر کا مقصد بھارتی افواج کا کشمیر پر قبضے کی کارروائیوں اور مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے توجہ ہٹانا ہے، مزید یہ کہ اس سے بالواسطہ طور پر پاکستان کے ساتھ دشمنی کرتے ہوئے اپنے دوست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فائدہ پہنچایا جاسکے اور عالمی برادری میں پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کو بدنام کیا جاسکے۔

شہری کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا گیا کہ نواز شریف بیرون ملک بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان اور ریاستی اداروں کو بدنام کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے قوانین کیس سزا یافتہ مجرم کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی ضمانت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیا کے ذریعے عوام کو حکومت اور فوج کے خلاف بغاوت پر اکسائے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مریم نواز شریف و دیگر مندرجہ بالا مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا نواز شریف کی تقاریر کی تائید کرنا قانون کی گرفت میں آتا ہے، لہٰذا نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے خلاف تعزیرات پاکستان اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) کی دفعات کے تحت کارروائی کی جائے۔

نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کیلئے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کے لیے دائر درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

عدالت عالیہ میں شہری عامر عزیز کی دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی تقاریر ٹی وی پر دکھانے سے روکا جائے۔

مذکورہ درخواست میں سابق وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف، چیئرمین پیمرا اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست کے مطابق نواز شریف نے حالیہ تقاریر میں ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی، ان کی تقاریر کے باعث ملکی اداروں کا وقار مجروح ہوا، نواز شریف عدالت سے سزایافتہ مجرم ہیں میڈیا پر تقریر نہیں کرسکتے۔

انہوں نے درخواست میں کہا کہ عدالت نفرت آمیز تقریر پر نواز شریف پر پابندی عائد کرے، عدالت پیمرا کو پابند کرے کہ نواز شریف کی تقریر آئندہ ٹی وی چینل پر نشر نہ ہو۔

حکومت اپوزیشن کو دبانے کیلئے سرکاری مشینری استعمال کر رہی ہے، رہنما مسلم لیگ

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر اقبال نے مقدمہ درج کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دانوں کے خلاف غداری کے مقدمات کی پرانی روش حکمرانوں کی نااہلی کو نہیں چھپا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ غداری کے مقدمے میں 3 ریٹائرڈ جنرلز کے نام کو شامل کرنا بھی قابل افسوس ہے، حکومت مہنگائی بیروزگاری، غربت، بدامنی کی صورتحال پر قابو پانے کے بجائے اپوزیشن کے جمہوری عمل کو دبانے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کر رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نواز شریف کی قیادت میں جمہوری قوتیں ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا کہ مقدمہ درج کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ 'سلیکٹڈ' حکومت 'گھبرا' رہی ہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان بیانات پر وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ‘نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے، یہی الطاف حسین نے کیا، میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ان کے پیچھے 100 فیصد بھارت ہے اور وہ ان کی پوری مدد کر رہا ہے، پاکستان کی فوج کمزور کرنے پر دلچسپی ہمارے دشمنوں کی ہے’۔


اضافی رپورٹنگ: رانا بلال

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024