• KHI: Maghrib 7:25pm Isha 8:54pm
  • LHR: Maghrib 7:12pm Isha 8:50pm
  • ISB: Maghrib 7:22pm Isha 9:06pm
  • KHI: Maghrib 7:25pm Isha 8:54pm
  • LHR: Maghrib 7:12pm Isha 8:50pm
  • ISB: Maghrib 7:22pm Isha 9:06pm

!میں عربی نہیں ہوں

شائع August 5, 2013

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

سنہ 1973 میں، میرے دادا اور دادی اپنا پہلا حج کرنے مکّہ گۓ- ان کے ساتھ میری دادی کی دو بہنیں اور ان کے خاوند بھی تھے-

جدّہ پنہچنے پر انہوں نے ایک ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل کے لئے روانہ ہو گۓ- ٹیکسی کا ڈرائیور ایک سوڈانی تھا- جب میرے دادا دادی اور دادی کی بہنیں ٹیکسی میں بیٹھ گۓ تو ٹیکسی ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئی، اسی دوران ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی ٹیکسی کے جاپانی کیسٹ پلیئر میں عربی گانوں کی کیسٹ لگائی-

میرے دادا نے جو آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے تھے، یہ نوٹس کیا کہ ڈرائیور بار بار عقبی شیشے میں دیکھتا ہے اور جب بھی وہ ایسا کرتا ہے اس کی ایک ابرو اوپر اٹھ جاتی ہے-

میرے دادا کو تجسس ہوا اور انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ آخر پیچھے بیٹھی خواتین میں ایسی کیا بات ہے جو ٹیکسی ڈرائیور کو محظوظ کر رہی ہے-

انہوں نے دیکھا کہ میری دادی کی ذرا آنکھ لگ گئی تھی، ان کی بہن بھی آنکھیں بند کیے آرام کر رہی تھیں، لکن ان کا سر عربی موسیقی کی لے پر ہلکے ہلکے دائیں سے بائیں ہل رہا تھا، اور وہ روحانی وجد میں سبحان الله، سبحان الله کہے جا رہی تھیں-

دادا جان کو اتنی عربی آتی تھی کہ وہ یہ جان سکیں کہ جس گیت پر دادی کی بہن جھوم رہی تھیں اور الله کی حمد و ثنا کر رہی تھیں وہ در اصل ایک مصری عاشق کی فریاد تھی جو وہ اپنی ماضی کی جھوٹی محبتوں کے لئے کر رہا تھا-

ڈرائیور کا چور نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے آیا کہ وہ پنجابی جانتا ہے یا نہیں، میرے دادا نے دادی کی بہن سے پوچھا "مجھے اندازہ نہیں تھا آپ کو موسیقی سے اتنا لگاؤ ہے"-

الله کی تعریف کی جارہی ہے، کیا یہ قابل تعریف نہیں؟ انہوں نے جواب دیا-

باتوں سے میری دادی بھی جاگ گئیں اور انہوں نے پوچھا کیا حیرت انگیز ہے؟ ان کی ہمشیرہ نے پیچھے سٹیریو سپیکر کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا :یہ کتنا روحانی اور پر سکون ہے"-

میرے دادا کے منہ سے اچانک، لیکن جھینپی ہوئی دبی دبی ہنسی نکل گئی- 'بہن' دادا نے کہا، یہ گلوکار کوئی مقدس آیت نہیں پڑھ رہا بلکہ اپنے رومانوی ماضی کے بارے میں گیت گا رہا ہے-

میری دادی بھی ساتھ میں ہنسنے لگیں، ان کی بہن کی روحانی مسکراہٹ فور اً الجھی ہوئی ہکا بکا شکل میں بدل گئی: "کیا؟"

میرے دادا نے سمجھایا، "بہن، عرب ہر جگہ مقدس آیتیں نہیں پڑھتے پھرتے، آپ کو کیا لگتا ہے وہ جب پھل خریدنے بازار جاتے ہوں گے یا ٹوتھ پیسٹ خریدنا چاہتے ہوں گے تو قرانی آیات پڑھتے ہونگے؟"

مجھے یقین ہے کہ دادی کی بہن یہ نقطہ سمجھ گئی ہوں گی، عرب میں تمام چیزیں مقدس نہیں ہوتیں-

حالاں کہ میں اس وقت کافی چھوٹا تھا لیکن مجھےاچھی طرح یاد ہے، دادا یہ واقعہ مزے لے لے کر سناتے تھے- حالانکہ میرے دادا کافی قدامت پسند اور مذہبی انسان تھے، انہوں نے دو حج بھی ادا کیے، لیکن کبھی داڑھی نہیں رکھی، اور نہ ہی وہ عربوں کے زیادہ مداح تھے ( خصوصاً شاہی قسم کے )-

انہیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ شمالی پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے، جو 1947 سے پہلے انڈیا کا حصّہ تھا-

1980 کے اوائل میں جب سعودی پیسے اور اثر و رسوخ نے پاکستانی ثقافت اور سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنی شروع کی تو بہت سے ایسے خاندان (خصوصاً پنجابی) تھے جنہوں نے اپنی تاریخ دوبارہ لکھنی شروع کر دی-

مثلاً وہ خاندان یا برادریاں جوجنوب ایشیائی علاقوں میں وجود میں آئ تھیں، یہ دعویٰ کرنے لگے کہ ان کے آباؤ اجداد درحقیقت عرب سے آۓ تھے-

کچھ ایسا ہی واقعہ پراچہ برادری میں بھی ہوا- 1982 میں میرے دادا کے بہت سے کزنز میں سے کسی ایک نے، ایک کتاب تصنیف کی- اس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پراچہ برادری کا تعلق یمن سے تھا اور رسول الله کے زمانے میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا-

تاہم حقیقت یہ تھی کہ پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح پراچہ بھی یا تو ہندو تھے یا پھر بدھ مت کے ماننے والے جنہوں نے گیارہویں اور پندھرویں صدی کے بیچ صوفی درویشوں کے ہاتھوں اسلام قبول کیا-

جب کزن نے میرے دادا کو وہ کتاب تحفتاً پیش کی تو دادا نے یہ دعویٰ لغو قرار دیا اور انہیں بتایا کہ اس کتاب سے سعودی ریال تو حاصل کے جا سکتے ہیں لیکن اسکی کوئی تاریخی حیثیت نہیں-

لیکن تاریخی درستگی اور ساکھ، پاکستان جیسے غیر محفوظ ملک کے ساتھ نہیں چل سکتی، جہاں کی ریاست اور لوگوں کو، ساٹھ سال گزر جانے کے باوجود، ابھی بھی یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ ان کی قومی اور ثقافتی شناخت ہے کیا-

انیسویں صدی میں مغل سلطنت کے مکمل زوال سے لے کر 1960 کی دہائی کے آخر تک پاکستانی (1947کے بعد) اپنے آپ کو علاقے کی دیگر مذہبی کمیونٹیز سے الگ کرنے کی کوشش کرتے رہے، اس کے لئے انہوں نے فارسی ثقافتی پہلوؤں کا سہارا لیا، خصوصاً مغل دور حکومت میں، انڈیا کے مسلمان دربار شاہی میں رائج رہے-

تاہم، سنہ 1971 کے مشرقی پاکستان سانحہ کے بعد، ریاست نے قدامت پسند مورخوں اور علماء کی مدد سے پاکستانی تاریخ کو اس کے ہندو اور فارسی ماضی سے الگ کرنے کی ایک شعوری کوشش کی، اور اس تاریخ کا عرب کے ساتھ ایک فرضی اور سطحی رشتہ جوڑنے کے لئے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا-

اس منصوبے میں 1980 کے بعد بہت زیادہ تیزی آگئی- تیل کی دولت سے مالامال بادشاہت سے ملنے والے پیٹرو ڈالر اور اپنے عرب آقاؤں سے ان ممالک میں پاکستانیوں کے بڑھتے ہوے مراسم نے پاکستان کی تاریخی شناخت کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا-

دوسرے لفظوں میں، بجاۓ اس کے کہ تاریخی طور پر درست، علاقے کے مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی پس منظر میں گہرائی تک پھیلی ہوئی قومی شناخت کے لئے دانشوارانہ وسائل میں سرمایہ کاری کی جاتی، ایک ردعمل کے طور پر ' ثقافتی سامراج' کی ایک قسم کو ہٹا کر دوسری کو گود لے لیا گیا-

مثال کے طور پر، پاکستانی سوسائٹی میں سے 'ہندو اور مغربی ثقافتی اثرات' کو ہٹانے کی کوشش کی گئی اور عربی ثقافتی برتری کو اپنایا گیا جو شرط اول کے طور پر عربی پیٹرو ڈالر کے ساتھ آئ تھی-

بات یہ ہے کہ، مختلف نسلی اور مذہبی ثقافتوں کے عمدہ پہلوؤں کو لے کر جس پر ہماری تاریخ مشتمل ہے اور ایک زیادہ یقین بخش اور بنیادی قوم پرستی اور ثقافتی تشخص کی تشکیل کے لئے ان کو ترتیب دینے کی بجاۓ، ہم نے اپنے مختلف اور کثیر وجودی ماضی کو مسترد کر دیا اور اس کے بجاۓ ایسے لوگوں کی ثقافت اپنا لی جو، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ، اب بھی پاکستانیوں جیسے غیرعربوں کو دوسرے درجے کا مسلمان سمجھتے ہیں-


 ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

علی احمد Aug 05, 2013 04:23pm
ہم عربی تو نہیں مگر ہندو بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے پچھلے پچاس برس میں عربی اور فارسی کے الفاظ نکال نکال کر سنسکرت کےالفاظ داخل کیے ہیں۔ آج بھی عام آدمی تو اور ہندی بولتا ہے مگر بھارتی میڈیا ایک دیو مالائی زبان بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے لاشعوری اور شعوری دونوں طور پر اپنی اردو میں پرانے الفاظ کو انگریزی الفاظ سے تبدیل کر دیا ہے۔ اردو میں انگریزی کی ملاوٹ بہت بڑھ چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں عربی بیچاری کہاں جائے گی۔ وہ زبان جو برصغیر کی تقسیم کے وقت ہندی کہلائی جاتی تھی اب بدل چکی ہے اور اس میں سنسکرت کی ملاوٹ تقریباً تیس فی صد الفاظ کی حد تک ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں آپ پرانی ہندی کتب اور آج کی کتب سے نمونے لے کر تجزیہ کر سکتے ہیں۔ یہ وہی تاریخ ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ یورپی اقوام نے ترقی کرتے ہوئے سائنس اور دوسرے مضامین بالخصوص فلکیات اورطب سے عربی الفاظ نکال نکال کر اپنی مذہبی زبان لاطینی کے الفاظ داخل کیے۔ اوپر کی بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ نیا نہیں بلکہ فطری تبدیلی ہے۔
میں عربی نہیں ہوں ! - پاکستان کی آواز Aug 05, 2013 09:18pm
[…] میں عربی نہیں ہوں ! shafresha vbmenu_register("postmenu_581176", true); 06-08-13, 02:19 AM سنہ 1973 میں، میرے دادا اور دادی اپنا پہلا حج کرنے مکّہ گۓ- ان کے ساتھ میری دادی کی دو بہنیں اور ان کے خاوند بھی تھے- جدّہ پنہچنے پر انہوں نے ایک ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل کے لئے روانہ ہو گۓ- ٹیکسی کا ڈرائیور ایک سوڈانی تھا- جب میرے دادا دادی اور دادی کی بہنیں ٹیکسی میں بیٹھ گۓ تو ٹیکسی ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئی، اسی دوران ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی ٹیکسی کے جاپانی کیسٹ پلیئر میں عربی گانوں کی کیسٹ لگائی- میرے دادا نے جو آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے تھے، یہ نوٹس کیا کہ ڈرائیور بار بار عقبی شیشے میں دیکھتا ہے اور جب بھی وہ ایسا کرتا ہے اس کی ایک ابرو اوپر اٹھ جاتی ہے- میرے دادا کو تجسس ہوا اور انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ آخر پیچھے بیٹھی خواتین میں ایسی کیا بات ہے جو ٹیکسی ڈرائیور کو محظوظ کر رہی ہے- انہوں نے دیکھا کہ میری دادی کی ذرا آنکھ لگ گئی تھی، ان کی بہن بھی آنکھیں بند کیے آرام کر رہی تھیں، لکن ان کا سر عربی موسیقی کی لے پر ہلکے ہلکے دائیں سے بائیں ہل رہا تھا، اور وہ روحانی وجد میں سبحان الله، سبحان الله کہے جا رہی تھیں- دادا جان کو اتنی عربی آتی تھی کہ وہ یہ جان سکیں کہ جس گیت پر دادی کی بہن جھوم رہی تھیں اور الله کی حمد و ثنا کر رہی تھیں وہ در اصل ایک مصری عاشق کی فریاد تھی جو وہ اپنی ماضی کی جھوٹی محبتوں کے لئے کر رہا تھا- ڈرائیور کا چور نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے آیا کہ وہ پنجابی جانتا ہے یا نہیں، میرے دادا نے دادی کی بہن سے پوچھا “مجھے اندازہ نہیں تھا آپ کو موسیقی سے اتنا لگاؤ ہے”- الله کی تعریف کی جارہی ہے، کیا یہ قابل تعریف نہیں؟ انہوں نے جواب دیا- باتوں سے میری دادی بھی جاگ گئیں اور انہوں نے پوچھا کیا حیرت انگیز ہے؟ ان کی ہمشیرہ نے پیچھے سٹیریو سپیکر کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا :یہ کتنا روحانی اور پر سکون ہے”- میرے دادا کے منہ سے اچانک، لیکن جھینپی ہوئی دبی دبی ہنسی نکل گئی- ‘بہن’ دادا نے کہا، یہ گلوکار کوئی مقدس آیت نہیں پڑھ رہا بلکہ اپنے رومانوی ماضی کے بارے میں گیت گا رہا ہے- میری دادی بھی ساتھ میں ہنسنے لگیں، ان کی بہن کی روحانی مسکراہٹ فور اً الجھی ہوئی ہکا بکا شکل میں بدل گئی: “کیا؟” میرے دادا نے سمجھایا، “بہن، عرب ہر جگہ مقدس آیتیں نہیں پڑھتے پھرتے، آپ کو کیا لگتا ہے وہ جب پھل خریدنے بازار جاتے ہوں گے یا ٹوتھ پیسٹ خریدنا چاہتے ہوں گے تو قرانی آیات پڑھتے ہونگے؟” مجھے یقین ہے کہ دادی کی بہن یہ نقطہ سمجھ گئی ہوں گی، عرب میں تمام چیزیں مقدس نہیں ہوتیں- حالاں کہ میں اس وقت کافی چھوٹا تھا لیکن مجھےاچھی طرح یاد ہے، دادا یہ واقعہ مزے لے لے کر سناتے تھے- حالانکہ میرے دادا کافی قدامت پسند اور مذہبی انسان تھے، انہوں نے دو حج بھی ادا کیے، لیکن کبھی داڑھی نہیں رکھی، اور نہ ہی وہ عربوں کے زیادہ مداح تھے ( خصوصاً شاہی قسم کے )- انہیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ شمالی پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے، جو 1947 سے پہلے انڈیا کا حصّہ تھا- 1980 کے اوائل میں جب سعودی پیسے اور اثر و رسوخ نے پاکستانی ثقافت اور سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنی شروع کی تو بہت سے ایسے خاندان (خصوصاً پنجابی) تھے جنہوں نے اپنی تاریخ دوبارہ لکھنی شروع کر دی- مثلاً وہ خاندان یا برادریاں جوجنوب ایشیائی علاقوں میں وجود میں آئ تھیں، یہ دعویٰ کرنے لگے کہ ان کے آباؤ اجداد درحقیقت عرب سے آۓ تھے- کچھ ایسا ہی واقعہ پراچہ برادری میں بھی ہوا- 1982 میں میرے دادا کے بہت سے کزنز میں سے کسی ایک نے، ایک کتاب تصنیف کی- اس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پراچہ برادری کا تعلق یمن سے تھا اور رسول الله کے زمانے میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا- تاہم حقیقت یہ تھی کہ پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح پراچہ بھی یا تو ہندو تھے یا پھر بدھ مت کے ماننے والے جنہوں نے گیارہویں اور پندھرویں صدی کے بیچ صوفی درویشوں کے ہاتھوں اسلام قبول کیا- جب کزن نے میرے دادا کو وہ کتاب تحفتاً پیش کی تو دادا نے یہ دعویٰ لغو قرار دیا اور انہیں بتایا کہ اس کتاب سے سعودی ریال تو حاصل کے جا سکتے ہیں لیکن اسکی کوئی تاریخی حیثیت نہیں- لیکن تاریخی درستگی اور ساکھ، پاکستان جیسے غیر محفوظ ملک کے ساتھ نہیں چل سکتی، جہاں کی ریاست اور لوگوں کو، ساٹھ سال گزر جانے کے باوجود، ابھی بھی یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ ان کی قومی اور ثقافتی شناخت ہے کیا- انیسویں صدی میں مغل سلطنت کے مکمل زوال سے لے کر 1960 کی دہائی کے آخر تک پاکستانی (1947کے بعد) اپنے آپ کو علاقے کی دیگر مذہبی کمیونٹیز سے الگ کرنے کی کوشش کرتے رہے، اس کے لئے انہوں نے فارسی ثقافتی پہلوؤں کا سہارا لیا، خصوصاً مغل دور حکومت میں، انڈیا کے مسلمان دربار شاہی میں رائج رہے- تاہم، سنہ 1971 کے مشرقی پاکستان سانحہ کے بعد، ریاست نے قدامت پسند مورخوں اور علماء کی مدد سے پاکستانی تاریخ کو اس کے ہندو اور فارسی ماضی سے الگ کرنے کی ایک شعوری کوشش کی، اور اس تاریخ کا عرب کے ساتھ ایک فرضی اور سطحی رشتہ جوڑنے کے لئے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا- اس منصوبے میں 1980 کے بعد بہت زیادہ تیزی آگئی- تیل کی دولت سے مالامال بادشاہت سے ملنے والے پیٹرو ڈالر اور اپنے عرب آقاؤں سے ان ممالک میں پاکستانیوں کے بڑھتے ہوے مراسم نے پاکستان کی تاریخی شناخت کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا- دوسرے لفظوں میں، بجاۓ اس کے کہ تاریخی طور پر درست، علاقے کے مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی پس منظر میں گہرائی تک پھیلی ہوئی قومی شناخت کے لئے دانشوارانہ وسائل میں سرمایہ کاری کی جاتی، ایک ردعمل کے طور پر ‘ ثقافتی سامراج’ کی ایک قسم کو ہٹا کر دوسری کو گود لے لیا گیا- مثال کے طور پر، پاکستانی سوسائٹی میں سے ‘ہندو اور مغربی ثقافتی اثرات’ کو ہٹانے کی کوشش کی گئی اور عربی ثقافتی برتری کو اپنایا گیا جو شرط اول کے طور پر عربی پیٹرو ڈالر کے ساتھ آئ تھی- بات یہ ہے کہ، مختلف نسلی اور مذہبی ثقافتوں کے عمدہ پہلوؤں کو لے کر جس پر ہماری تاریخ مشتمل ہے اور ایک زیادہ یقین بخش اور بنیادی قوم پرستی اور ثقافتی تشخص کی تشکیل کے لئے ان کو ترتیب دینے کی بجاۓ، ہم نے اپنے مختلف اور کثیر وجودی ماضی کو مسترد کر دیا اور اس کے بجاۓ ایسے لوگوں کی ثقافت اپنا لی جو، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ، اب بھی پاکستانیوں جیسے غیرعربوں کو دوسرے درجے کا مسلمان سمجھتے ہیں- ڈان […]
Gharib Aug 05, 2013 09:59pm
Yeh ek bada masla hai Islam ke dunya ki us mulkon main jo Arabi qomi lesaan nahin hai. Hum ko Arabi nahin aata aur Quran-e pak ke mubaraka aayat ko hamre lye tashreh karnewalon ko bhee Arabi nahin aata. To is main hum sub Qurani aayat ki aslee matlab ko samajh nahin paate. Allah (SWT) ne hum ko aqal isi lye diya hai ke hum apne aap ko Quran ka aslee matlab sikhayein aur Islam ka sahee tareeqa sa pairvi karein.
میں عربی نہیں ہوں! -Siasi Tv Aug 06, 2013 10:59am
[…] http://urdu.dawn.com/2013/08/05/my-n…n-arab-nfp-aq/ […]
رضوان احمد شاہ Aug 07, 2013 05:16am
پامحترم : بر صغیر کے مسلمان انڈین اسلامک کلچر کا حصہ ہیں۔ یہ اسلام کا ہی طرح امتیاز ہے کہ اس نے زندگی گزارنے کے لیے رہنما اصول دئیے۔ اور اسلام نے کسی علاقے کی ثقافت کو نہیں چھیڑا۔ اب کسی کو پٹرو ڈالرز پر اعترا‌ض ہے تو اس میں کس کا قصور ؟ ورنہ ہر شخص جانتا ہے کہ عام انسان کی زندگی پر کسقدر پٹرو ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں ؟ پاکستان کی اکانومی تو بھارت کے مہا بھارت جنگی جنون کی وجہ سے کرائیسز کی شکار ہے نہ کہ عرب ثقافت نے اسے کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ بلکہ اگر آج پاکستانی عرب ثقافت کو اس کی روح کے ساتھ اپنا لیں تو ان کے بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔اس لئے کہ وی آئی پی کلچر اور وڈیرہ شاہی عرب نہیں بلکہ انڈین کلچر کی پیدا کردہ ہے اور برٹش دور میں اسے فروغ حاصل ہوا۔ دراصل اسی دور کے پروردہ احساس کمتری کے شکار لوگ اسلامی ثقافت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
رضوان احمد شاہ Aug 07, 2013 08:17pm
جناب تنقید برائے تنقید سے پہلے کم از کم اپنا ریکارڈ درست کر لیجئے۔ Paracha (Urdu: پراچہ) is a family name in Afghanistan, Pakistan, Bangladesh and India. Paracha's (known by the individual prefixes of the seven groups among the tribe) are wealthy Muslim traders of NWFP (North West Frontier Province) and northwestern Punjab of Pakistan. This term came from Parcha meaning cloth, one of the principle item of their trade. This wealthy class is found in large number at Lahore (Mochi Darwaza) Sargodha, Makhad, Attock, Kohat, Mangowal, Shahpur, Khushab, Quetta ,Peshawar and Nowshera. They used to trade as far as Central Asia, chiefly in Cloth, Silk, Indigo and Tea. The Paracha tribe, which is one of the largest in Pakistan and today scattered all over the country and even in India, is said to have become a large clan in Makhad in the 10th Century BC. The tribe which today mostly speak Pothohari dialect of Punjabi, migrated from northern Yemen in the time of Prophet Muhammad (in 7th Century AD) and travelled to Iran where they were called Ferashas or people who were direct descendants of one Ali Yamani, a cloth trader who used to prepare the ground for Prophet Muhammad to prey upon. Ferash in Persian means ground. From Persia many from this clan traveled to Afghanistan and then towards India and what today is Pakistan. Most of them settled in Makhad in about 12th Century AD. In India and Pakistan they became to known as Parachas. Its is believed the clan settled in what is presently northern Pakistan under the rule of the mughal emperor Akbar. Today, the Parachas are scattered all over the world in various professions which is mainly business and trading. This above seems to be the origin of the Parachas, however there are other versions as well, some believe Parachas to be of Shahi Turkish descent. http://www.freewebs.com/shark92/parachahistory.htm اور http://en.wikipedia.org/wiki/Pirachahttp://en.wikipedia.org/wiki/Pirachahttp://en.wikipedia.org/wiki/Piracha باقی عراق کی سرزمین ام الاقوام کہلاتی ہے اس لئے کہ یہ بابل کا ہی مقام تھا جہاں سے روئے زمین پر مختلف اقوام اٹھیں اور پھیل گئیں۔ برصغیر کی اکثر اقوام اس سرزمین پر حملہ آور بن کر آئیں۔ بھارت کے باشندے تو ہن اور دراوڈNATIVE تھے۔ آج بھی کالے رنگ پھڈے ناک گھنگھریالے بالوں سے انہیں شناخت کیا جا سکتا ہے۔ براہ کرم زرا انتھروپولوجی کا مطالعہ کریں اور اپنے لہجے کی کڑواہٹ کو کم کرنےکرنے کی کوشش کریں۔ یہ آپکا قلم جو کہ کافی کارآمد ہے اسے تخریب کے بجائے تعمیر کے لئے استعمال کریں تو اچھا ہو گا۔ شکریہ

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2024
کارٹون : 27 جون 2024