کورونا: ٹرمپ کی صحت سے متعلق متضاد خبریں، اگلے 48 گھنٹے اہم قرار
امریکی صدر کے معالجین نے کورونا وائرس سے متاثرہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طبیعت میں بہتری کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ٹرمپ کی طبیعت سے آگاہی رکھنے والے ذرائع نے کہا کہ ان کی بنیادی تشخیصی عناصر (وائٹل سائنز) کی علاماتیں تشویشناک ہیں اور اگلے 48 گھنٹے اہم ہیں۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی صدر میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد انہیں والٹر ریڈ ملٹری میڈیکل سینٹر میں منتقل کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر اور ان کی بیوی کورونا وائرس کا شکار
اس ضمن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے معالج شان کونلی نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طبیعت میں بہتری ہے اور چہل قدمی بھی کررہے ہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ 24 گھنٹے سے بخار نہیں ہوا جبکہ ان کی کھانسی، نزلہ اور تھکاوٹ میں بہتری آ رہی ہے۔
معالج نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اضافی آکسیجن نہیں دی جاری اور وہ ’تیزی سے صحتیاب ہورہے ہیں‘۔
شان کونلی نے بتایا کہ ’ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دل، گردے اور جگر کی فعالیت کا بھی جائزہ لیا ہے جو سب کچھ معمول کے مطابق ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر کی صحت سے واقفیت کرنے والے ذرائع نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طبیعت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ’گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران امریکی صدر کی رپورٹس مایوس کن تھیں اور اگلے 48 گھنٹے ان کی صحت سے متعلق غیرمعمولی اہم ہوں گے‘۔
مزیدپڑھیں: کورونا کی تصدیق کے بعد امریکی صدر ملٹری ہسپتال منتقل
انہوں نے بتایا کہ ’ہم ابھی تک واضح نہیں کہ وہ مکمل بازیابی کی طرف ہیں‘۔
تاہم وائٹ ہاؤس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تشخیص پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
جب ٹرمپ کے معالج شان کونلی سے پوچھا گیا کہ آیا ٹرمپ کو بیمار ہونے کے بعد سے کسی وقت اضافی آکسیجن دی گئی تو انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے کے بجائے محض اس امر کی تصدیق کی کہ امریکی صدر کو ہسپتال میں اضافی آکسیجن نہیں دی گئی۔
تاہم اس سے امکان ظاہر ہوتا ہے کہ والٹر ریڈ ہسپتال میں داخل ہونے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں آکسیجن دی گئی اور ایسی ہی کچھ خبریں امریکی میڈیا پر بھی نشر ہوئیں لیکن ’اے ایف پی‘ متعلقہ خبروں کی تصدیق نہیں کراسکا۔
ٹرمپ معالج نے ان کے ہسپتال سے رخصت ہونے کی تاریخ نہیں بتائی۔
واضح رہے کہ 2 اکتوبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تھے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر امریکی صدر نے کورونا وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قرنطینہ میں جا رہے ہیں۔
بعدازاں ڈونلڈ ٹرمپ میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد انہیں علاج کے لیے ملٹری ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
برطانوی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے اعلان کے لگ بھگ 17 گھنٹے بعد انہیں وائٹ ہاؤس سے باہر نکلتے ہوئےدیکھا جہاں ایک ہیلی کاپٹر امریکی صدر کو ریاست میری لینڈ کے علاقے بیتھسڈا میں واقع والٹر ہیڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر لے جانے کا منتظر تھا۔
کورونا وائرس سے اب تک امریکا میں 2 لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور وائرس کے خلاف امریکی عوام کے بڑھتے ہوئے تحفظات انتخابی عمل میں ان کی ناکامی کا شکار بن سکتے ہیں۔
ٹرمپ کو کئی مرتبہ خبردار کیا گیا کہ وہ بھی کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن انہوں نے اس بات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ کئی مرتبہ اس کا مذاق بھی اڑا چکے تھے۔
جب ابتدا میں وائرس امریکا پہنچا تو ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ جس طرح آیا ہے ویسے ہی غائب ہو جائے گا جبکہ وہ کئی مرتبہ عوامی مقامات پر ماسک نہ پہننے پر بھی تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔
مزیدپڑھیں: سال 2019ء دنیا کیلئے مشکل سال ثابت ہوا، اور مستقبل بھی اچھا نہیں
ملک میں دوبارہ سے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود ٹرمپ نے اپنے گورنرز کو کہا تھا کہ وہ بڑھتی ہوئی اموات پر توجہ دینے کے بجائے دوبارہ کاروبار کھول کر معیشت کی بحالی کے لیے کوشش کریں۔
وائرس کی ابتدا سے ہی ماہرین وائٹ ہاؤس میں بداحتیاط رویے پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن اس معاملے پر بھی ٹرمپ نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے ماہرین کی رائے کو مسترد کردیا تھا۔
امریکی صدر نہ صرف آنے والوں سے ہاتھ ملاتے تھے بلکہ انہوں نے وائرس کا ٹیسٹ کرانے میں بھی ہچکچاہٹ ظاہر کی تھی اور سماجی فاصلے کے اصول کی بھی خلاف ورزی کرتے نظر آئے۔
امریکی صدر پہلے عالمی رہنما نہیں جو وائرس کا شکار ہوئے ہیں بلکہ ان سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی کورونا کا شکار ہو کر کئی ہفتے ہسپتال میں گزار چکے ہیں جبکہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل بھی ڈاکٹرز کی ہدایت پر قرنطینہ میں رہ چکی ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور ان کی اہلیہ بھی وائرس کا شکار ہو گئے تھے اور انہوں نے مملکت کے امور گھر سے انجام دیے تھے۔