کراچی: انتظار قتل کیس میں ’اہم گواہ‘ کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں 'منصوبہ بندی' کے تحت نوعمر انتظار احمد کے قتل سے متعلق کیس میں استغاثہ کی اہم گواہ مدیحہ کیانی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
واضح رہے کہ 19 سالہ انتظار احمد ملائیشیا میں زیر تعلیم تھا اور چھٹیوں پر پاکستان واپس آیا تھا۔
مزید پڑھیں: 'انتظار احمد کا قتل پولیس کی ناکامی کی وجہ سے ہوا'
13 جنوری 2018 کو وہ مدیحہ کیانی کے ہمراہ اپنی کار میں تھا جب سادہ لباس میں ملبوس پولیس نے انتظار احمد کو رکنے کا اشارہ کیا۔
پولیس اہلکاروں نے نہ رکنے پر اس کا پیچھا کیا اور ڈی ایچ اے میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ مدیحہ کیانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
اس قتل کے چند ماہ بعد مدیحہ کیانی نے ایک ویڈیو بیان میں، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے اپیل کی تھی کہ وہ اسے سیکیورٹی فراہم کریں۔
انہوں نے انتظار احمد کے قتل کے بارے میں انکشاف کیا تھا کہ اسے ’منصوبہ بندی کے تحت قتل تھا‘۔
مدیحہ کیانی نے مزید کہا تھا ’چونکہ میں واقعے کی واحد عینی شاہد ہوں اور مونچھوں والا شخص قاتل ہے اس لیے میں اپنی زندگی کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہوں‘۔
یہ بھی پڑھیں: انتظار احمد کا قتل منصوبہ بندی سے ہوا، مدیحہ کیانی
اس وقت کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) طارق محمود، انسپکٹر اظہر احسن اور طارق رحیم، ہیڈ کانسٹیبل شاہد اور کانسٹیبل غلام عباس، فواد خان، محمد دانیال اور بلال رشید سمیت اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے 8 اہلکاروں پر ابتدائی طور پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔
مقدمے کی سماعت اہم گواہ اور دیگر افراد کی شہادتیں ریکارڈ کرنے کے لیے کراچی کی سینٹرل جیل میں چل رہی ہے۔
تاہم مدیحہ کیانی ملزمان کے خلاف گواہی دینے میں ناکام رہی۔
پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ خاتون گواہ بار بار نوٹسز جاری کرنے کے باوجود عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے نہیں آرہی ہیں۔
عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ مدیحہ کیانی کا بیان شواہد کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ وہ مقتول لڑکے کے ساتھ گاڑی میں موجود تھیں۔
مدیحہ کیانی کی عدم موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے جج نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے اور تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت (8 اکتوبر) کو ان کے روبرو گواہ کی موجودگی کو یقینی بنائے۔
انتظار قتل میں کب کیا ہوا؟
یاد رہے کہ ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں 13 جنوری 2018 کی شب کو اے سی ایل سی اہلکاروں کی جانب سے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا، جس کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی، جس سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیفنس میں نوجوان کا قتل: اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکار گرفتار
ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشت گری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا، تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبلز اور 2 افسران بھی شامل تھے۔
15 جنوری کو ان ملزمان کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انتظار قتل کیس: مفرور ملزم کی درخواست ضمانت منظور
بعد ازاں انتظار احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں معلوم ہوا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت صرف ایک گولی لگنے سے ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے انتظار پر 17 سے زائد گولیاں چلائیں جبکہ مقتول انتظار کو سیدھے کان کے پیچھے ایک گولی لگی جو اس کے سر سے آر پار ہوگئی تھی جس کے بعد وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔
علاوہ ازیں مقتول کی ابتدائی فرانزک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس کے مطابق انتظار پر 2 پستول سے 18 گولیاں فائر کی گئی تھیں۔