پشاور ہائیکورٹ کا اسلامیہ کالج میں نئی تعمیرات پر حکم امتناع
پشاور ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے تاریخی اسلامیہ کالج میں جاری تعمیرات کو روک دیا اور اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کہ کیا تعمیراتی کام عمارت کی تاریخی حیثیت کو متاثر کررہا ہے صوبائی چیف سیکریٹری کو کیمپس کا دورہ کرنے کی ہدایت کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قیصر راشد خان اور جسٹس اعجاز انور خان پر مشتمل بینچ نے چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کو 14 روز میں اس معاملے سے متعلق رپورٹ پپیش کرنے کا حکم دیا۔
ایک روز قبل بینچ نے کفیل احمد کی جانب سے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے احاطے میں موجود اسلامیہ کالجیٹ اسکول کے پرنسپل کی سرکاری رہائش گاہ گرانے کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پر چیف سیکریٹری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بدھ کے روز سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:خیبر پختونخوا کے کالجوں میں تعلیمی معیار زوال پذیر
سماعت کے دوران عدالت نے اس درخواست کو ایک شہری نورالحق کی جانب سے کالج میں تعمیرات کے خلاف گزشتہ برس دائر درخواست کے ساتھ ملانے کا حکم دیا۔
چنانچہ حالیہ کیس کی سماعت میں نورالحق کے وکیل بھی پیش ہوئے اور کہا کہ انہوں نے متعدد عمارتوں کی تعمیر سے تاریخی اہمیت کے حامل اسلامیہ کالج پر مرتب ہونے والے اثرات کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلامیہ کالج ایک صدی قبل تعمیر کیا گیا تھا اور موجودہ انتظامیہ بے پناہ تعمیرات کر کے اسے اس کی اہمیت سے محروم کررہی ہے۔
بینچ کا کہنا تھا کہ عدالت کسی کو بھی کسی قیمت پر کالج کی تاریخی اہمیت سے کھیلنے نہیں دے گی۔
مزید پڑھیں: بدعنوانی کا الزام:اسلامیہ یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر گرفتار
چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اسلامیہ کالج کے سامنے کے حصے میں کسی تعمیرات کی اجازت نہیں دے گی جو تاریخی عمارت کو اوجھل کردے گا۔
انہوں نے بتایا کہ صرف ہاکی گراؤنڈ میں مصنوعی گھاس بچھائی گئی تھی۔
چیف سیکریٹری کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر عدالت کے خدشات سے مکمل آگاہ ہیں کیوں کہ اسلامیہ کالج ایک تاریخی ادارہ ہے جس میں بڑی تعداد نے تعلیم حاصل کی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل شمیل احمد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کالج میں صرف 6 شعبہ جات ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ جامعہ بن چکا ہے جس میں 28 شعبہ جات ہیں جبکہ طلبہ کی تعداد بھی بڑھ گئی۔
یہ بھی دیکھیں: اسلامیہ کالج خالی کرانے پر طلباء مشتعل، پولیس پر پتھراؤ
جس پر عدالت نے کہا کہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیز میں بھی طلبہ کی تعداد بڑھی ہے لیکن ان کی تاریخی عمارت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ یونیورسٹی میں مختلف عمارتوں کی تاریخی اہمیت متاثر نہ ہو۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ انتظامیہ نئی عمارت کھڑی کرنے کے لیے کچھ پرانی تعیمرات کو مسمار کررہی ہے۔ دوسرے درخواست گزار کے وکیل عباس سنگین نے کہا کہ اسلامیہ کالج میں نئی عمارتوں کے لیے تیار کردہ ماسٹر پلان غیر قانونی اور یونیسکو پروٹوکول کے علاوہ کے پی انٹیکوئیٹی ایکٹ 2016 کی خلاف ورزی ہے۔