ایک تھا چنیسر: کہ جیون دُکھ ہی دُکھ ہے۔۔۔!
تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
آسمان سے فقط پانی نہیں برستا بلکہ سارے موسم آسمان کی وسعتوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔ وہاں جب اُتھل پُتھل ہوگی تب زمین کے موسم بدلیں گے۔ گرمیاں، جاڑے اور شاید بہار بھی، بالکل اسی طرح ہر وجود کے اندر ایک امبر ہوتا ہے۔ جہاں کے سارے موسم ہمارے اندر کی کیفیتوں سے جُڑے ہوتے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنے اس آسمان پر، اپنا بس نہیں چلتا بالکل ایسے جیسے دن و رات پر آپ کا کوئی بس نہیں چلتا۔ اس لیے حالات آپ کے بس میں نہیں ہوتے اور پھر بھی انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ جئے جاتا ہے۔ چاہے حیات پر ساون بھادوں کی جھڑی لگی ہو، چاہے دن تندور کی طرح تپتے ہوں، چاہے بہار کے موسم میں پھول کھلے ہوں یا چاہے نصیبوں پر جاڑے کے دن آئے ہوئے ہوں۔
بس وہ یہ سب سہتا جاتا ہے اور جہاں جسم اور روح دونوں تھک جاتے ہیں تو آنکھیں موند لیتا ہے کہ اس سے زیادہ سانسیں لینا اس کے بس میں جو نہیں ہوتا۔
گاڑی سے باہر جاڑے کا ٹھنڈا دن تھا۔ آسمان پر نیلا رنگ اتنا گہرا تھا کہ شک ہونے لگتا کہ کہیں آنکھیں کچھ زیادہ رنگ تو نہیں دیکھنے لگی ہیں۔ یہاں کا کوسٹ بیلٹ جس کی لمبائی 150 کلومیٹرز سے بھی زیادہ اراضی میں ہے اور چوڑائی 25 سے 30 کلومیٹر میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا منظرنامہ جنوبی سندھ کی زمین سے بالکل الگ ہے۔ ساتھ میں لب و لہجے، پہناوے اور روزانہ کی حیات کی صبح شاموں میں بھی واضح فرق نظر آئے گا۔
کیونکہ معروضی حالات ہی آپ کی طبیعت، زبان، اوڑھنے بچھونے اور پہناوے کی تار و پود کرتے ہیں، تو زندگی کا چال چلن بھی ان حالات کے حساب سے ہوتا ہے۔ یہ دریائے سندھ کے ایک لمبے سفر کا اختتامی علاقہ ہے۔ جہاں ایک زمانے میں دریا آکر اپنے آپ کو سمندر کے حوالے کرتا تھا پھر دریا اور سمندر کے ملنے سے ہی اس ڈیلٹا کی زمین کا وجود ہوا۔ چونکہ گزشتہ کئی برسوں سے پانی کم ہی آتا ہے تو سمندر اپنا غصہ ساحلی پٹی کے ان ہزاروں گاؤں اور لاکھوں کی آبادی پر نکالتا ہے، جو اس کے عشق میں اس کے کناروں پر بستے ہیں۔ اب جب پانی معشوق ٹھہرا تو سارے حقوق کا مالک بھی وہ ہی ہوا۔
وقت کے ساتھ گھروں کی بناوٹ میں تھوڑا سا فرق ضرور آیا ہے، مگر اتنا نہیں کہ پرانے منظرنامے کو بالکل بھی الٹا دے۔ ابھی بھی گھاس پھوس اور مٹی کے گارے کے گھر بنے ہوئے ہیں۔ البتہ ماضی کے مقابلے میں جھیلیں بہت کم ہوگئی ہیں مگر پھر بھی پھوس بڑے مقدار میں مل جاتی ہے۔ ساتھ میں وہ جھنگلی اور پانی میں اگنے والی گھاس (Bulrush) بھی جس کو مقامی زبان میں ’ڈیر‘ کہتے ہیں وہ بنیادی طور پر ایک گول ٹیوب کی طرح بنی ہوئی گھاس ہوتی ہے، جس کے اندر ریشے کسی فوم کی طرح بنے ہوتے ہیں۔
چونکہ ان ریشوں میں پانی کی نمی بہت وقت تک رہتی ہے تو یہ گھاس جھیل یا سمندر سے پکڑی ہوئی مچھلی کو زیادہ دیر تک تازہ رکھنے کے لیے بھی وافر مقدار میں استعمال ہوتی ہے۔ مچھیرے مچھلی کو اس گھاس کے اندر رکھ دیتے ہیں اور یوں مچھلی ایک پورے دن تک تازہ رہتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اس گھاس کی موٹی تہہ کو گھروں کی چھتوں پر جما دیتے ہیں اور سروٹ کی گھاس سے بنی رسیوں سے اس کو باندھ دیتے ہیں۔
گھر کا یہ چھپرا گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں معتدل رہتا ہے۔ جب بارشیں پڑتی ہیں تو پانی کی وجہ سے یہ گھاس پھول کر ایک دوسرے سے مل جاتی ہے جس کی وجہ سے کتنی بھی بارش پڑے چھت سے بارش کا پانی نہیں آتا اور اگر تیز طوفان وغیرہ میں یہ چھت گر بھی جائے تو نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ میں نے اپنی 60 برس کی عمر میں یہ کبھی نہیں سنا کہ اس قسم کے گھروں کے نیچے دب کر کسی کی جان گئی۔ یہ تو ایک سیدھا سا حساب ہے۔ آپ فطرت کے جتنا قریب رہیں گے وہ آپ سے محبت ہی کرے گی۔
جاڑوں کا موسم ان ساحلی علاقوں کے رہنے والوں کے لیے ایک قسم کی پکنک کا موسم ہوتا ہے۔ کیونکہ دھان کی فصل جاڑوں سے پہلے کٹ چکی ہوتی ہے، تو اس کے بعد یہ تقریباً فارغ ہی ہوتے ہیں۔ اب کہیں کہیں گیہوں یا سرسوں کی فصل لوگ بوتے ہیں مگر بہت ہی کم۔ جاڑوں کے ان دنوں میں اس وسیع ساحلی کناروں پر چھوٹے بڑے ایک سو سے زیادہ میلے لگتے ہیں، اور یہ سارے برس کے کام کے بعد یہاں کے رہنے والوں کے لیے تفریح کا موسم ہوتا ہے۔
تھوڑا سوچیں تو فطرت نے کس طرح ان لوگوں سے مل کر ایک ثقافت کو بنا ہے۔ میں نے بڑی گہرائی سے یہاں کا تجزیہ کیا ہے۔ یہاں تمناؤں کی پگڈنڈیاں لمبی اور طویل نہیں ہوتیں۔ یہاں حاصلات کے لیے جھگڑے نہیں ہوتے۔ یہاں قدرتی وسائل سے جو ملتا ہے وہ مل بانٹ کر کھایا جاتا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کچھ برس پہلے میں اس ساحلی پٹی کے ایک گاؤں کی اوطاق کے آنگن میں بیٹھا ہوا تھا۔ سردیاں گزر چکی تھیں، جب سردیاں گزر جائیں تو وہ کونجیں جو شدید ٹھنڈے علاقوں سے یہاں آتی ہیں ان کا واپس جانے کا وقت ہوتا ہے اور یہ جب لوٹتی ہیں تو پانی پینے اور تھکاوٹ دُور کرنے کی خاطر کچھ وقت کے لیے وہاں اترتی ہیں جہاں نزدیک میں میٹھا پانی ہو۔
مقامی لوگوں کا تجربہ ان کو بتاتا ہے کہ اس برس کونجیں کہاں کہاں اتریں گی۔ یہ وہاں ان کا انتظار کرتے ہیں اور ان کا شکار کرتے ہیں۔ یہ 12 سے 16 خاندانوں کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ تو اس دن کونجوں کا شکار کوئی اچھا ثابت نہیں ہوا۔ سب مل ملاکر 2 کونجوں کو ہی مار پائے تھے اور پھر اوطاق پر آئے۔ یہ کُل 7، 8 بندوق والے تھے۔ بہرحال گاؤں میں جتنے گھر تھے، گوشت کے اتنے حصے کئے گئے اور ہنستے کھیلتے بغیر کسی بحث کے ہر کوئی اپنے اپنے گھر چلا گیا۔
یہ میرے لیے یقیناً حیران کن تھا۔ شروع میں مجھے لگا کہ کونج کے اس گوشت پر کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا مگر کچھ نہیں ہوا اور بغیر بات کیے گوشت کو بانٹ دیا گیا۔ یہ مل بانٹ کر کھانے والا وہ عمل ہے جس سے اپنے رشتوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ زمانے کی گرم و سرد حالات میں یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ جب آپ کو لگے کہ آپ کا پڑوسی آپ کے گھر کے فرد کی طرح ہے تو آپ کے ذہن کو لاشعوری طور پر ایک سکون نصیب ہوتا ہے جو آپ کو تناؤ سے بچاتا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔
باتوں باتوں میں ہم شاید کچھ دُور نکل آئے، مگر میں یہاں کے معاشرے سے بڑا متاثر ہوں۔ آج میں جہاں جا رہا تھا وہ بھی ساحلی پٹی کا ایک بستا گاؤں تھا۔ میں وہاں ’چنیسر‘ کے گاؤں جا رہا تھا۔ میں چنیسر سے 1999ء میں آئے ہوئے سائیکلون کے بعد ملا تھا۔ 36 گھنٹے کے سائیکلون نے ساحلی پٹی کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ 150 کلومیٹر کی اس ساحلی پٹی میں ایسا کوئی وجود نہیں تھا جو متاثر نہ ہوا ہو۔ سیکڑوں لوگ مرگئے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں جنگلی حیات جن میں، پرندے اور جانور تھے وہ اپنی جان گنوا بیٹھے۔ لاکھوں درخت جڑوں سے اکھڑ گئے تھے۔ حدِ نظر تک بس پانی ہی پانی تھا۔ میں وہاں سروے کے لیے گیا تھا۔
شام کا وقت تھا گھروں سے باہر ایک لکڑیوں کی بنی پلیا تھی۔ پل کے مغربی کنارے سے راستہ گزرتا تھا۔ ہم وہاں پیلو کے درخت کے شاندار جھاڑیدار درخت کے نیچے پڑے ہوئے بینچ پر بیٹھ گئے۔ میرے اندازے کے مطابق وہ 60 برس کے قریب عمر کا ضرور ہوگا۔ دائیں آنکھ سے نظر نے ایسی بے وفائی کی کہ واپسی کی کوئی امید نہیں تھی۔ بائیں آنکھ سے وہ ضرور دیکھتا تھا، مگر کچھ دھندلا سا۔ داڑھی اور مونچھوں کے بالوں میں ابھی بھی سیاہ بالوں کی تعداد زیادہ تھی۔ سر پر کپڑے کا انگوچھا بندھا ہوا تھا۔ سروے کے سوالات کرتے کرتے پتہ نہیں کیسے میں چنیسر کے ان دنوں تک جا پہنچا، جو اپنے وقت میں ایسے تناور اور پھلدار گھنے درختوں کی طرح ہوتے ہیں جن کی چھاؤں میں بیٹھنا اور ان دنوں کے لمحوں کا ثمر کھانا اچھا اور لذیذ لگتا ہے۔
جوانی میں وہ اپنے بھائی کے ساتھ بدین شہر میں رہتا تھا۔ اس کا بھائی تو ایئرفورس میں نوکری کرتا تھا، البتہ چنیسر، بدین شہر کی ہوٹلوں اور گھروں کے لیے ماشکی کا کام کرتا تھا۔ مگر یہاں ماشکی کہنا شاید مناسب نہ ہو، کیونکہ مشک اٹھانے والے کو ماشکی کہتے ہیں۔ یہاں کولہے پر 5، 6 فٹ کی لکڑی ہوتی ہے اور دونوں سروں پر ایک ایک ڈبہ (گھی کے بڑے ٹن کے ڈبوں کو خالی کرنے کے بعد انہیں صاف کرکے ایک لکڑی کا تکڑا اس میں کِیلوں سے فکس کردیا جاتا ہے، پھر اس لکڑی کے بیچ میں رسی باندھ کر اس ڈنڈی کے کونے پر باندھ دی جاتی تھی۔ 2 ٹِن ایک اس طرف ایک اُس طرف ہوتے اور دونوں میں پانی بھر کر اٹھایا جاتا اور مقرر جگہ پر برتنوں میں انڈیل دیا جاتا۔
سندھ میں لگنے والے بڑے میلوں میں اب بھی پانی اس طرح بھرا جاتا ہے (اس لکڑی اور 2 ٹِنوں کو مقامی زبان میں ’کنواٹھی‘ کہا جاتا ہے)۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ڈبے میں 30 کلو تو پانی یقیناً ہوگا۔ تو دونوں طرف کو اگر ملایا جائے تو 60 کلو پانی کا وزن بنتا ہے۔ وہ فجر کو اٹھتا اور اس کام پر لگ جاتا۔ یہ شاید 60، 62 کا زمانہ ہوگا۔ ان دنوں چھوٹے چھوٹے شہروں میں واٹر سپلائے کا ابھی تصور بھی متعارف نہیں ہوا تھا۔
’پانی نہر سے بھرتے تھے؟‘
میرے سوال پر اسے کوئی تعجب نہیں ہوا۔ بس اس نے سر کو انکار میں ہلایا۔
’کُنووں سے بھرتے تھے۔ کنووں کا پانی صاف، ٹھنڈا اور میٹھا ہوتا تھا۔ اب تو ایک کنواں بھی نہیں ہے، پر ان دنوں بدین میں بہت کنویں تھے۔ اکثر کنووں کے قریب ایک درخت بھی ہوا کرتا تھا۔ ہم پانی بھرنے والے دوپہر کی روٹی اس کی چھاؤں میں ہی کھاتے تھے۔ اگر کنویں پر رش ہوتا تو اس درخت کے نیچے بیٹھ کر بیڑی بھی پھونک لیتے تھے۔ یہ سمجھیں کہ مجھے پانی بھرنے سے عشق تھا۔ مجھے اچھا لگتا تھا۔‘
چنیسر نے ایک ایک لفظ اس طرح ادا کیا کہ، ہر لفظ میں گزرے وقت کی کھنک ابھی تک کھنکتی تھی اور ہر پل کا ذکر گزرے زمانوں کی شیرینی میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ویسے بھی الفاظوں میں بہت کچھ چُھپا ہوتا ہے۔ نفرت، محبت، بیزاری، عشق، دیوانگی۔ اگر بات کرنے والا ان کیفیتوں کو دل سے بیان کرے تو اس کیفیت کے اثرات ہر سننے والے کو محسوس ہوتے ہیں۔
’میری شادی تھی مگر اولاد نہیں تھی۔ میں نے ٹھیک ٹھاک پیسے کمالیے۔ پہلے سوچا کہ ایک بس لوں جو بدین سے میرے گاؤں تک چلے مگر راستے اتنے کچے تھے کہ بہت ساروں نے منع کیا۔ مجھے اولاد کی بڑی تمنا تھی، میں دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس گاؤں سے دوسری شادی کی۔ لڑکی کے باپ نے یہ شرط رکھی کہ بدین چھوڑ کر یہاں آجاؤ اور اولاد کی تمنا مجھے ان ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے کنووں سے دُور یہاں لے آئی۔ میری دوسری شادی اس علاقہ کی سب سے بڑی شادی تھی۔ یہاں آس پاس آج تک اتنی بڑی شادی نہیں ہوئی۔ شادی پورے 4 دن اور رات چلی تھی، دیگوں کے چولھے دن رات جلتے رہے۔ شادی کے بعد میں یہاں ہی رہ گیا۔ کچھ 3، 4 ایکڑ زمین خریدی۔ کچھ بکریاں اور بھیڑیں خریدیں۔ میرے مولا کریم نے ان میں برکت ڈالی۔ ایک، 2 کھیتی باڑی کرنے والے رکھ لیے اور میں سارا دن بھیڑیں چراتا۔ مجھے اچھا لگتا۔ ساتھ میں وقت گزارنے کے لیے بھیڑوں کی اُون سے دھاگا بھی بناتا رہتا۔ وہ بڑے اچھے دن تھے۔‘
سورج ڈوبنے میں ابھی وقت تھا۔ چنیسر کچھ دیر کے لیے اجازت لے کر گھر گیا۔ گاؤں کے کچھ اور لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ کھڑے تھے۔ سب نے جو بھی بات کی، چنیسر کی تعریف ہی کی۔ ’بڑا محنتی بندہ ہے، جانوروں سے بڑی محبت ہے چنیسر کو۔ گھر میں بھیڑ، بکری، بھینس، گائے، گھوڑے، گدھے، مرغیاں سب تھے اس کے گھر میں۔ ہاں 2 کتے اب بھی ہیں بھیڑوں کی حفاظت کے لیے کیونکہ اکثر سیار آکر پھاڑ دیتا ہے بھیڑوں کو۔
رات کو سارے گاؤں پر چاہے سناٹا چھایا ہو، مگر چنیسر کے گھر سے کسی نہ کسی جانور کی آواز آتی رہتی تھی اور مہمانوں کے لیے اس کے دروازے کھلے رہتے ہیں، چاہے اس کو پہچانے یا نہ پہچانے۔ جو وقت ہوگا اس حساب سے کھانا جائے گا۔ سالن کے ساتھ لسی اور مکھن تو ضرور ہوگا اور اس کی بڑی بیوی کے چاول کی روٹی کے پراٹھے تو اس سارے گاؤں میں مشہور ہیں۔ روٹی میں پانچ سات تک تہیں ہوتی ہیں۔ نرم ایسی کہ مکھن منہ میں رکھو تو ایسے گُھل جائے جیسے روٹی آٹے کی نہیں گُڑ کے حلوے کی بنی ہو اور روٹی میں مکھن کی خوشبو ایسی کہ سالن کھانے کو جی نہ چاہے گا، بس روکھی روٹی ہی کھاتے جائیں‘۔
لوگ چنیسر کے گزرے دنوں کی باتیں ایسے کرتے جاتے جیسے میلے سے لوٹنے کے بعد گھروں میں میلے کی باتیں بڑے چاؤ سے کی جاتی ہیں۔ کچہری میں کچھ دیر خاموشی کے پل آئے تو میں نے پوچھا ’آج کل کیا حالات ہیں چنیسر کے؟‘
’اب وہ دن تو نہیں رہے جو پہلے تھے، مگر اب بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں ہے۔ دوسری شادی سے بیٹا اور بیٹی ہوئے۔ اب بیٹی تو پرایا دھن ٹھہری باقی بیٹا بڑی سادی طبیعت کا ہے دنیاداری سے دُور‘، کھڑے ہوئے میں سے کسی نے بتایا۔
’اب بس 15، 20 بھیڑیں اور ایک گائے چنیسر کی ملکیت رہ گئی ہے۔‘
ایک آدھے گھنٹے کے بعد چنیسر لوٹ آیا۔ طوفان اور زمانے کی باتیں ہوتی رہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے نقصان بیان کیے۔ مگر چنیسر نے طوفان کی وجہ سے کسی نقصان کی بات نہیں کی جب کہ مجھے پتہ تھا کہ اس کے بڑے گھر کا ایک حصہ طوفان کی وجہ سے گر گیا تھا۔ کچھ بھیڑیں بھی مرگئی تھیں۔
جب سورج ڈوبنے کو آیا تو میں نے سب گاؤں والوں سے رخصت مانگی۔ چنیسر نے رات کے کھانے کا بڑا کہا مگر میں نے کسی اور وقت کا کہہ کر ٹال دیا۔
2014ء کے ابتدائی مہینوں میں اسٹڈی کے حوالے سے اسی گاؤں کی طرف گیا تھا جہاں چنو کا بھی گھر تھا۔ پتہ لگا کہ عمر اور مایوسیوں نے اپنے رنگ کچھ زیادہ ہی دکھانا شروع کردیے ہیں۔ کمزوری کی وجہ سے باہر تک نہیں آسکتے تھے تو میں ویہڑے کے اندر چلا گیا۔ وقت اور کمزوری نے چنیسر کو جھاڑ کر رکھ دیا ہو۔ جیسے آپ کسی جھڑ بیری کو جھاڑتے ہیں تو سارا میوہ زمین پر آگرتا ہے۔ اسی طرح چنیسر کے بھی شیریں میوے جیسے پل وقت نے جھاڑ دیے تھے۔ باقی زندگی کے دیے ہوئے کانٹے اور زرد ہوتے ہوئے پتے رہ گئے تھے۔ گھر میں چنیسر کی بہو بیٹا اور اس کے ایک دو بچے رہتے تھے۔ میں 10 سے 15 منٹ کھڑا ہی رہا، خیر و عافیت کے بعد جب اجازت چاہی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں اور ہاتھ باندھ کر ’اللہ واھی‘ کہا۔۔
وقت گزرتا رہا، اسی برس کے آخری ماہ میں پتہ چلا کہ چنیسر نے اس دنیا سے آنکھیں مُوند لیں۔ اس کے بعد میں اس طرف گیا بھی اور چنیسر کے خاندان کے متعلق پوچھا کہ تعزیت کرلوں، مگر اس کے بیٹے سے ملاقات نہ ہوسکی اور تعزیت کرنا رہ گئی۔
یہ 2 برس پہلے کے جاڑوں کی بات ہے جب میں وہاں چنیسر کے گاؤں کے نزدیک ایک قدیم سائٹ پر جا رہا تھا۔ سوچا سائٹ کی فوٹوگرافی مکمل کرکے واپسی میں چنیسر کے بیٹے سے ضرور ملاقات کروں گا تو اس دن گاڑی سے باہر جاڑے کا ٹھنڈا دن تھا۔ نہروں اور فصلوں کی پگڈنڈیوں پر سرکنڈوں کے سفیدی کی بہار آئی ہوئی تھی۔ نہر کے کناروں کیکر کے پیلے پھولوں پر بڑا گہرا رنگ آیا ہوا تھا۔ کچھ چڑیائیں تھیں جو کیکر کی ڈالیوں پر اپنے گھونسلے بناتی تھیں۔ کچھ لوگ تھے جو چھوٹی سی جھیل میں جالوں کی مدد سے مچھلی پکڑتے تھے۔ وہاں چھوٹا سا بازار بھی تھا جہاں 15، 20 چھوٹے چھوٹے اسٹال بازار کے ایک طرف اور اتنے ہی دوسرے طرف تھے اس طرح بن گیا بازار اور کہلایا میلہ۔ غبارے، 4، 5 شیرینی کی دکانیں۔ کچھ اسٹالوں پر مختلف رنگوں کی چوڑیاں، چوٹیاں وغیرہ بکتی تھیں۔
میلے کے بعد میں اس تاریخی مقام پر گیا جہاں مجھے فوٹوگرافی کرنی تھی۔ وہاں سے جب فارغ ہوا تو شام کے 4 بج گئے اور جب میں چنیسر کے گاؤں پہنچا تو شام ڈھل چکی تھی۔ جاڑے کی ہوا میں ٹھنڈ کا اضافہ ہوگیا تھا۔ میں لکڑی کے پل پر اسی جگہ کھڑا تھا جہاں سائیکلون 1999ء میں اس سے بات چیت کی تھی۔ اس کی خاموش اور شفیق طبیعت نے مجھے بڑا متاثر کیا تھا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اس قحط الرجال کے زمانے میں وہ سخی بھی تھا۔ کچھ دیر کے بعد سامنے گھروں سے انور نکلا جس کو میں جانتا تھا۔ وہ سماجی کام میں آگے آگے رہتا۔ میں نے جب اسے چنیسر کے لڑکے کو بلانے کے لیے کہا تو جواب آیا ’وہ آج ہی اپنی بیوی اور 3 بچوں سمیت کراچی نکل گیا ہے محنت مزدوری کرنے کے لیے‘۔
’آج؟‘
’ہاں آج صبح کو 10 بجے۔ آپ کل آجاتے تو مل لیتے۔ اللہ جڑیو نام ہے اس کا۔ بچارا مست مولا آدمی ہے۔‘
’تو اب کچھ نہیں بچا چنیسر کا یہاں؟‘، میں نے انور سے پوچھا۔
’نہیں سائیں۔ ہمارے یہاں کہاوت ہے کہ مرنے والے کے بعد اس کی ملکیت بھی اس کے پیچھے چلی جاتی ہے۔ مال مویشی مر کھپ گئے، میٹھے پانی کی کمی اور سمندر کے آگے بڑھ جانے کی وجہ سے زمین کسی کام کی نہیں رہی، بس اونے پونے داموں میں زمین بیچ کر، وہ مزدوری کے لیے کراچی نکل گئے۔ میاں بیوی دونوں وہاں فیکٹریوں میں مزدوری کریں گے تب ہی چولھا جلے گا۔‘
یہ نقل مکانی اس دنیا کا سب سے بڑا درد ہے کہ جن آنگنوں میں آدمی پیدا ہو، جہاں گرمیوں اور سردیوں کے موسم گزارے، جہاں سے اپنے پیاروں کے جنازے اُٹھائے، ان کو خوشی سے چھوڑ کر کون جاتا ہے؟ مگر جب موجود وسائل سکڑنے لگیں، 2 وقت کی خوراک کی تلاش آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر تکھا دے تو مجبوراً آپ کو سخت قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سمندر کنارے بسے ہزاروں لوگوں کے فقط 2 ہی مسئلے ہیں: ایک کسی طریقے سے سمندر کے پانی کی گاؤں تک آمد کی روک تھام اور دوسرا آپ پاشی کے راستے قانونی نہروں میں میٹھے پانی کی رسد اور جتنا پانی جس کا حق ہے اس حق کے تحت اس کی زمین کو اتنا میٹھا پانی ملنا چاہیے۔
اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو حکومت عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ لیکن یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جب یہ ہوگا تو نقل مکانی یقیناً رُک جائے گی اور یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی، پھر کسی چنیسر کا بیٹا اپنا آنگن چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا۔
واپسی میں گاڑی سے باہر جاڑے کی ٹھنڈی چاندنی چٹکتی تھی۔
مگر مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ مطلب اس 70، 80 برس کی حیات کا لُب لباب کیا نکلتا ہے؟
اتنی محنت، جفاکشی، شفقت اور تمناؤں کا اختتام اس طرح کہ گھر کا آنگن تک ویران ہوجائے؟ آخر اتنی تگ و دو کا فائدہ کیا؟
بس پیدا ہوئے، کچھ لیا اور کچھ دیا اور جتنا لیا تو واپس بھی تو اس سے دوگنا کیا۔ آنکھوں نے جتنے خوبصورت منظر دکھائے آخری برسوں میں اتنی دھند کا بھی تو عذاب جھیلنا ہی پڑا نا۔ تو اس کوفت کا کیا؟ وہ ہاتھ جنہوں نے بازوؤں میں طاقت بھر دی آخر میں انہوں نے بے وفائی میں کمی تو نہیں کی۔ ایک نوالے کے لیے پلیٹ سے منہ تک کتنی بار ہاتھ ڈولتا ہے۔ یہ بے بسی اور مجبوری کیا کم ہے؟
کہتے ہیں کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔ چنیسر نے تو بھلا ہی کیا۔ اپنے کام سے عشق کیا، اولاد کی تمنا کے لیے شہر چھوڑا۔ وہ لوگ جن کو نہ کبھی دیکھا تھا نہ پہچان تھی مگر مہمان بن کر آئے تو خوراک ایسے کھلائی جیسے اپنے خون کے رشتہ دار آئے ہوں۔ ہمیشہ سب کو دیا، کسی سے ایک ڈھیلا بھی نہیں لیا۔ جو بھی کام کیا اس سے عشق بھی کیا تو پھر اتنی مثبت زندگی کا انجام ایسا کیوں؟
میں سوچتا جاتا اور پریشان ہوتا جاتا۔ یہ زندگی اتنی پیچیدہ کیوں ہے؟
ایسا کیا ہے جس کی چُوک ہم سے ہوجاتی ہے اور ہمیں پتہ تک نہیں چلتا۔ یا سچائی، سوچ، شفقت اور رحم دلی ہی دکھ کی بیل کو پانی دے کر جوان کرتے ہیں؟ شاید سدھارتھ نے درست ہی کہا تھا ’سروم دُکھم دُکھم‘ کہ جیون دُکھ ہی دُکھ ہے!
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں