• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

اپوزیشن اتحاد 'پی ڈی ایم' کا 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں جلسے کا اعلان

شائع September 29, 2020
پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا—فوٹو:ڈان نیوز
پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا—فوٹو:ڈان نیوز

حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے تنظیمی ڈھانچے کو مکمل کرنے کے لیے اسٹیئرنگ کمیٹی کی منظوری دی اور پہلا جلسہ 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں کرنے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اجلاس میں ملک میں جمہوریت کے لیے سکڑتی گنجائش اور آج جس طرح جمہوریت صلب کی جاتی ہے اس کی شدید مذمت کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں آئینی تسلسل اور پارلیمنٹ پر قدغنوں کی مذمت کی گئی، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، معیشت کی تباہی سمیت عوام کی پریشانی جیسے مسائل پر بحث کی گئی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ 'پی ڈی ایم ملک میں جمہوریت کی بحالی، عوام کی تکالیف دور کرنے کے مقصد پر بنی ہے اور اسی پر تبادلہ خیال ہوا'۔

انہوں نے کہا کہ 'پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کی منظوری دی گئی جو تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کردار ادا کرے گی اور اس کا پہلا اجلاس بھی ہوا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تنظیمی ڈھانچہ جماعتوں کے قائدین کو بھیجا جائے گا اور تحریک کو اسی ہفتے مکمل کر کے عوام کے سامنے پیش کردیا جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'طے ہوا ہے کہ 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا پہلا تاریخی جلسہ ہوگا، جس کے بعد پورے پاکستان میں تحریک کا آغاز ہوجائے گا اور تحریک بڑھتی جائے گی اور پاکستان کو اس غیر جمہوری عمل سے نجات دلا کر کامیاب ہوگی'۔

تحریک پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام جماعتیں ان فیصلوں پر متفق ہیں اور یہ تحریک، پاکستان کی تاریخ میں صرف سنہرا قدم ہی نہیں بلکہ ایک حقیقی سیاسی تبدیلی یہاں سے رونما ہوگی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسٹیئرنگ کمیٹی میں ہر جماعت کے 2 ارکان ہوں گے جس سے آگاہ کیا جائے گا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کے دارالحکومت میں پی ڈی ایم کے مرکزی جلسے ہوں گے، اس کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی چھوٹے جلسے ہوسکتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ 5 اکتوبر کو اسٹیئرنگ کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوگا جس میں اگلا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن کا گلگت بلتستان کے انتخابات پر بات چیت میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا پہلا نکتہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی گرفتاری پر تشویش اور افسوس تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے جمہوری ادارے کمزور ہوں گے اور پاکستان کے عوام کے غم و ٖغصہ میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر ہوگیا تھا تو اس طرح گرفتاری کا کوئی جواز نہیں تھا۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ وفاقی وزرا ٹی وی پر آکر ایک ہی بات کی رٹ لگاتے ہیں کہ ہم نے اتنے گرفتار کر لیے اور پیش گوئیاں کرتے ہیں کہ کون کون گرفتار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ نیب کی آزادانہ حیثیت متنازع ہوجاتی ہے، حکومت اور نیب کے گٹھ جوڑ کی عام آدمی کو بھی سمجھ آنا شروع ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب میں احتساب تو ہورہا ہوگا لیکن اگر کسی کی تضحیک یا بے عزتی مقصود ہے تو کوئی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اسٹیئرنگ کمیٹی نے 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں عظیم الشان جلسے کا فیصلہ کیا جو پاکستان کی سیاست میں تاریخ رقم کرے گا اور جلسوں کی ایک سیریز تمام صوبوں میں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ عوام اس وقت بہت مشکل میں ہیں، عوام کا جینا دو بھر ہوگیا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس وقت لاقانونیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح مختلف معاملات، معیشت، خارجہ پالیسی کو چلایا جا رہا ہے وہ پاکستان کے لیے تکلیف دہ ہے اور استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ ذمہ دار اپوزیشن ہوتے ہوئے تمام جماعتیں متفق ہیں کہ پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ان کے دکھ سکھ کے ساتھی بنیں گے اور آج جو مہنگائی میں اضافہ ہوا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنشن لینے والے اس قابل بھی نہیں رہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں، ایسے معاملات پر اپوزیشن گھروں میں نہیں بیٹھ سکتی۔

مزید پڑھیں:منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف 13 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ایک جمہوری نظام کا حصہ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ جمہوری انداز میں عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور آگے بڑھیں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اسٹیئرنگ کمیٹی کی صدارت مشترکہ طور پر ہوگی اور پہلے مہینے مسلم لیگ (ن) کے پاس ہوگی اور احسن اقبال کنوینر ہوں گے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی گرفتاری کی مکمل طور پر مذمت کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک کا باقاعدہ آغاز 11 اکتوبر کو ہوگا اور اس سلیکٹڈ اور نااہل حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ 2 سال سے بھی زیادہ عرصہ ہوا لیکن موجودہ حکومت نے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کرپٹ حکومت ہے اور اس کی کرپشن کی کہانی پوری دنیا میں پھیل گئی ہے لیکن نیب صرف اپوزیشن کی پگڑی اچھالنے کے لیے انہیں گرفتار کر رہی ہے۔

سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ہم اس غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوں گے اور اس طرح کی ناجائز کوششوں اور دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

یاد رہے کہ 20 ستمبر کو اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے اعلان بھی کیا گیا تھا۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پڑھ کر سنایا اور حکومت کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین پر یقین رکھنے والی اپوزیشن کی جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت کی اور تحریک کو 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' کا نام دیا گیا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں علاج کے غرص سے لندن میں موجود مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا تھا اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی ویڈیو لنک پر خطاب کیا تھا۔

بعدازاں کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔

اپوزیشن اتحاد نے ایکشن پلان کے ساتھ ساتھ 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کردیے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024