• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

توہین مذہب کے ملزم کے مشتبہ قاتل کا مقدمہ جووینائل قانون کے تحت چلانے کا حکم

شائع September 26, 2020
پشاور ہائیکورٹ—فائل فوٹو: اے پی پی
پشاور ہائیکورٹ—فائل فوٹو: اے پی پی

پشاور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں زیر سماعت توہین مذہب کے مقدمے میں مشتبہ قاتل کی عمر کا تعین کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 (نابالغوں کے لیے موجود قانون) کے تحت ملزم کے ٹرائل کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے بھی مشتبہ شخص کی درخواست پر اس کے مقدمہ کو اے ٹی سی تھری سے کسی دوسری عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا۔

مزیدپڑھیں: پشاور جوڈیشل کمپلیکس کے کمرہ عدالت میں توہین مذہب کا ملزم قتل

بینچ نے مشتبہ قاتل کی اے ٹی سی تھری کے میڈیکل بورڈ کے ذریعے اس کی عمر کا تعین کرنے اور مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی دو درخواستوں کو منظور کرلیا۔

ساتھ ہی بینچ نے مقدمہ کو اے ٹی سی تھری سے اے ٹی سی ٹو منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

نوعمر لڑکے نے مبینہ طور پر امریکی شہری اور توہین مذہب و رسالت کے ملزم طاہر احمد نسیم کو 29 جولائی کو جوڈیشل کمپلیکس میں کمرہ عدالت میں مبینہ طور پر قتل کیا تھا۔

واقعہ کی ایف آئی آر کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302، انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت درج کی تھی۔

اس کیس میں ایک عالم وصی اللہ اور وکیل طفیل ضیا کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: انسداد دہشتگردی عدالت نے توہین مذہب کے ملزم کے قتل کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا

مذکورہ عالم نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے نوجوان کو توہین رسالت کے الزام میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے امریکی شہری طاہر احمد نسیم کو قتل کرنے کی ترغیب دی تھی۔

وکیل پر الزام ہے کہ وہ پستول مشتبہ قاتل کے حوالے کرنے سے پہلے جوڈیشل کمپلیکس کے اندر لے کر گیا تھا۔

نظرثانی درخواست میں مشتبہ قاتل نے عدالت سے جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے تحت ٹرائل کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل شبیر حسین اور انعام اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ان کے مؤکل کی اسکول کی دستاویزات سے واضح طور پر ان کی عمر 18 سال سے کم ہے اور اس وجہ سے وہ جووینائل جسٹس ایکٹ 2018 کے مطابق ہے۔

انہوں نے کہا کہ متعلقہ دستاویزات کی موجودگی میں اے ٹی سی تھری کے پاس قانونی اختیارات نہیں تھا کہ وہ طبی معائنہ کے ذریعے ان کے مؤکل کی عمر کے تعین کا حکم دے سکے۔

وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسران نے مشتبہ شخص کی عمر کے بارے میں پوچھا تھا اور اس کی عمر 17 سال بتائی گئی تھی۔

مزیدپڑھیں: پاکستان عدالت میں توہین مذہب کے امریکی ملزم کے قتل کےخلاف کارروائی کرے،امریکا

انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر جب درخواست گزار کو گرفتاری کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو عدالت نے 3 اگست کو ملزم کی عمر 17 سال لکھی تھی۔

وکلا کا کہنا تھا کہ جب مقدمے کی سماعت اے ٹی سی تھری کو تفتیش کے لیے سونپی گئی تو پریزائیڈنگ افسر نے متعلقہ دستاویزات اور قانون کے مینڈیٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے 8 ستمبر کو ملزم کی عمر کا تعین کرنے کے لیے طبی معائنہ کرنے کا حکم دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ کے سیکشن 8 قرار دیتا ہے کہ تفتیشی افسر یا پولیس اسٹیشن کا انچارج کسی ملزم کی عمر اس کے پیدائشی سرٹیفکیٹ، تعلیمی سند یا کسی اور متعلقہ دستاویزات کی بنیاد پر طے کرے گا۔

اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جب کسی ملزم کی عمر کے بارے میں شبہ ہوتا ہے تو ٹرائل کورٹ طبی معائنے کے ذریعے اس کی عمر کا تعین کرسکتی ہے۔

مزیدپڑھیں: توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص پر مقدمہ

دوسری درخواست میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل کے والد نے حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں واضح ہے کہ حراست کی کارروائی کے دوران ابتدائی مرحلے میں اے ٹی سی تھری کے جج نے درخواست گزار کے جرم کے بارے میں بھی اپنے عدالتی ذہن کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اپنے مؤکل کے جرم اور سزا کی مدت کے بارے میں فیصلے سے قبل عزم نے معقول خدشات پیدا کردیے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024