• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کراچی: پولیس افسر کے قتل کے الزام میں گرفتار 5 ملزمان بری

شائع September 21, 2020
عدالت نے ملزمان کو جرم ثابت نہ ہونے پر بری کردیا— فائل فوٹو: رائٹرز
عدالت نے ملزمان کو جرم ثابت نہ ہونے پر بری کردیا— فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس افسر کے قتل کے الزام میں گرفتار 5 ملزمان کو بری کردیا۔

پولیس افسر نے کراچی آپریشن میں حصہ لیا تھا لیکن پراسیکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

مزید پڑھیں: ٹریفک پولیس اہلکار قتل کیس: عدم ثبوت پر سابق ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی بری

ملزمان اشتیاق عرف پولیس والا، سید ذاکر حسین عرف آغا عدیل، عبید عرف کے ٹو، سید شاکر شاہ اور خواجہ محمد فیصل پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے مفرور ساتھیوں کی مدد سے جولائی 2010 میں بریگیڈ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او انسپکٹر ناصر الحسن کو ان کے محافظ سمیت گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

پیر کو سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 16 کے جج نے اپنا فیصلہ سنایا۔

عدالت نے زور دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا لہٰذا انہیں بری کیا جاتا ہے۔

عدالت نے جیل حکام کو حکم دیا ہے کہ اگر ملزمان کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کردیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں فائرنگ سے 2 پولیس اہلکار جاں بحق، وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا

شبیر عرف دھوبی، تقی بٹ عرف ماموں، آصف عرف چیتا اور دیگر اس مقدمے میں اشتہاری تھے۔

استغاثہ کے مطابق 1990 کی دہائی میں کراچی آپریشن میں متحرک کردار ادا کرنے والے ایس ایچ او بریگیڈ پولیس اسٹیشن انسپکٹر ناصر الحسن کو اس وقت ان کے مسلح محافظ خرم بٹ کے ہمراہ نشانہ بنایا گیا جب وہ ذاتی جیپ میں پولیس اسٹیشن واپس آرہے تھے۔

مارچ 2015 میں رینجرز اہلکاروں نے عزیز آباد میں واقع ایم کیو ایم ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر علی الصبح چھاپہ مار کر عبید کو گرفتار کر لیا تھا جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کر کے انہیں اس مقدمے میں نامز کرلیا تھا۔

ملزم کے وکیل نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے ان کے موکلوں کو بدنیتی کے تحت ایک جھوٹے اور من گھڑت مقدمے میں پھنسایا ہے لہٰذا انہیں بری کیا جائے۔

مزید پڑھیں: 'پولیس اہلکار دن میں ڈیوٹی اور رات میں ڈکیتیاں کرتے ہیں'

دوسری جانب سرکاری پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کے پاس اتنے ثبوت موجود ہیں جو یہ ثابت کر سکیں کہ ملزمان اس جرم میں ملوث ہیں اور ملزمان کو قانون کے تحت سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

ملزمان کے خلاف سرکار کی مدعیت میں قتل عمد کے جرم کے تحت دفعات 302، 324، 353، 392 اور 34 کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024