بھارت کا چین پر لداخ کی سرحد پر آپٹیکل فائبر کیبلز بچھانے کا الزام
بھارت کے حکام نے کہا کہ چینی فوجی سرحد پر جاری تنازع کے حل کے لیے دونوں ممالک کے درمیان جاری مذاکرات کے باوجود مغربی ہمالیہ کے قریب آپٹیکل فائبر تاروں کا جال بچھا رہی ہے۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ اس طرح کی کیبلز کی بدولت پرخطر علاقوں میں افواج کو بہترانداز میں مواصلاتی رسائی ہو سکے گی اور حال ہی میں اس طرح کے تاروں کو لداخ کے ہمالیہ کے علاقے میں پینگونگ تسو جھیل کے جنوب میں دکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: سرحدی کشیدگی: چین اور بھارت کا ایک دوسرے پر فائرنگ کا الزام
چین کی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر خبر ایجنسی رائٹرز کو فوری طور پر جواب نہیں دیا جبکہ دفاعی عہدیداروں نے بھی اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
جھیل کے جنوب میں 70 کلومیٹر طویل محاذ پر بھارت اور چین کی افواج ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں اور دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان چند ماہ قبل ہوئی خطرناک جھڑپ کے بعد مسلسل آمنے سامنے کھڑی ہیں اور ان کے عقب میں ٹینکوں اور ہوائی جہازوں سے لیس مزید فوج ہمہ وقت ان کی مدد کے لیے موجود ہے۔
بھارت کے ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی گزشتہ ہفتے ملاقات کے بعد سے دونوں اطراف سے کوئی خاص انخلا ہوا اور نہ ہی کسی قسم کی کمک پہنچائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالات پہلے کی طرح کشیدہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین نے بھارت کے 5 شہریوں کو رہا کردیا، بھارتی فوج
رپورٹ کے مطابق لداخ کے مرکزی شہر لیح کے اوپر ہندوستانی لڑاکا طیارے صبح سے مسلسل اڑان بھر رہے ہیں اور پہاڑوں سے گھری یہ وادی ان کی گھن گرج سے گونج اٹھتی ہے۔
ایک عہدیدار نے جھیل کے جنوبی کنارے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ انہوں نے تیز رفتار مواصلات کے لیے آپٹیکل فائبر کیبل بچھا دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خطرناک رفتار سے جنوبی کنارے پر آپٹیکل فائبر کیبلز بچھا رہے ہیں۔
دوسرے سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے ایک ماہ قبل پینگونگ تسو جھیل کے شمال میں بھی ایسی ہی کیبلوں کا مشاہدہ کیا تھا۔
بھارتی سرکاری عہدیدار نے مزید بتایا کہ پینگونگ تسو کے جنوب میں بلندی میں واقع صحراؤں کی ریت میں سیٹیلائٹ کی تصویروں میں غیرمعمولی لکیریں نظر آنے پر حکام کو اس طرح کی سرگرمی سے آگاہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: بھارت اور چین سرحدی کشیدگی کم کرنے پر متفق
انہوں نے کہا کہ ان لائنوں کا فیصلہ ہندوستانی ماہرین نے کیا تھا اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے اس کی تائید کی گئی تھی کہ یہ خندوقوں میں بچھائی گئی مواصلاتی کیبلیں ہیں، ان میں سے کچھ کیبلز سپینگ گور کے پاس بھی بچھائی گئی ہیں اور یہ پہاڑی چوٹیوں پر وہی جگہ ہے جہاں فوجیوں نے کئی دہائیوں میں پہلی بار ہوائی فائرنگ کی۔
بھارتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر کئی مہینوں سے جاری محاذ آرائی نے بھی چین کی طرف سرحدی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
چین نے ہندوستان سے اپنی متنازع سرحد کے اطراف سڑکیں اور فضائی پٹیاں بنانے کے بارے میں شکایت کی تھی اور بیجنگ کا کہنا تھا کہ اس سے سرحد پر تناؤ بڑھ گیا ہے۔
ایک سابق ہندوستانی فوجی انٹیلی جنس اہلکار نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آپٹیکل فائبر کیبل سیکیورٹی مواصلات کے ساتھ ساتھ تصاویر اور دستاویزات جیسے ڈیٹا بھیجنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چین اور بھارت کا ایک دوسرے پر پھر سرحدی اشتعال انگیزی کا الزام
انہوں نے کہا کہ اگر آپ ریڈیو پر بات کرتے ہیں تو اس کا سراغ مل جاتا ہے جبکہ آپٹیکل فائبر کیبلز پر مواصلات اور رابطے محفوظ ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ بھارتی فوج ابھی بھی ریڈیو مواصلات پر انحصار کرتی ہے مگر اب اس کو خفیہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 3 ہزار 500 کلومیٹر (2 ہزار 175 میل) کی متنازع اور غیرمتعین سرحد کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے اور یہ شمال میں لداخ ریجن سے بھارتی ریاست اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔
گزشتہ قبل ازیں 20 جون کو گالوان وادی میں کشیدگی کے دوران 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹنے پر رضامند ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ماسکو میں ملاقات کے بعد بھارت، چین کا سرحدی کشیدگی میں کمی لانے پر اتفاق
مذاکرات کے کئی دور کے باوجود مختلف مقامات پر فوجیں آمنے سامنے ہیں جس میں انتہائی بلندی کا مقام پیانگونگ تسو جھیل بھی شامل ہے جس کے بارے میں دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں۔
کئی ماہ سے مغربی ہمالیائی حصے میں فوجیں موجود ہیں جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف وزری کا الزام لگاتے ہیں۔