• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

بلوچستان یونیورسٹی کا ویڈیو اسکینڈل، اہم معاملے کا نقطہ آغاز

قصورواروں کے خلاف کارروائی سے قطع نظر، ویڈیو اسکینڈل سے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔
شائع September 12, 2020 اپ ڈیٹ September 15, 2020

کوئٹہ: گزشتہ سال 16 اکتوبر کو کورٹ روڈ پر واقع دو منزلہ عمارت کی پہلی منزل پر کانفرنس روم میں جامعہ بلوچستان (یو او بی) کے پروفیسرز اور لیکچرارز موجود تھے جو صحافیوں کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے، یہ صورت حال یونیورسٹی میں حیرت انگیز جنسی ہراساں کے اسکینڈل سامنے آنے کے فوراً بعد ہی سامنے آئی تھی کہ اس ادارے میں خواتین طالب علموں کی 'قابل اعتراض' ویڈیوز کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔

محکمہ جاتی انکوائری جس کا بلوچستان ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا، اپنے اختتام پر پہنچ چکی ہے۔

ذرائع کے مطابق جولائی میں ہونے والے 88 ویں سنڈیکیٹ اجلاس کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے دو مشتبہ افراد، سابق چیف سیکیورٹی آفیسر محمد نعیم اور سیکیورٹی گارڈ سیف بلوچ کو ملازمت سے فارغ کرنے اور سابق رجسٹرار طارق جوگیزئی اور ٹرانسپورٹ آفیسر شریف شاہوانی کی تنخواہوں میں دو سال تک اضافے کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ویڈیو اسکینڈل ہی پر کہانی ختم نہیں ہوتی بلکہ طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ متعدد انٹرویو کیمپس میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے ایک کلچر کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں غیر مہذب تبصرے اور پیچھا کرنے سے لے کر حملہ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔

واضح طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، چند ہفتوں میں کیمپس میں کلاسز کے دوبارہ آغاز کا امکان ہے، بلوچستان حکومت اس سے قبل خواتین طلبہ کی حفاظت کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے۔

16 اکتوبر کو پریس کانفرنس میں بلوچستان یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (بی یو اے ایس اے) کے ممبران نے ویڈیو اسکینڈل سے خود کو دور کرتے ہوئے دعوٰی کیا تھا کہ اساتذہ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

کوئٹہ میں قائم یونیورسٹی آف بلوچستان کا داخلی دروازہ – فوٹو: مظہر چانڈیو
کوئٹہ میں قائم یونیورسٹی آف بلوچستان کا داخلی دروازہ – فوٹو: مظہر چانڈیو

ایک پروفیسر نے صحافیوں کو یقین دلایا تھا کہ یہ یونیورسٹی ان کے گھر کی طرح ہے اور طلبہ ان کے بچوں کی طرح ہیں۔ جب جویریہ٭ نے پریس کانفرنس کے بارے میں خبریں پڑھیں تو اسے سخت غصہ آیا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'خاک بچے!'، 'کیا بچوں کو والدین کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے؟'۔

یونیورسٹی آف بلوچستان (یو او بی) کے پروفیسرز میں سے ایک جویریہ کے والد کے دوست ہیں، اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب سے زیادہ چونکا دینے والا تھا، اسے اس کے بارے میں بات کرنے کی ہمت لانے میں کئی منٹ لگے۔

اس کا کہنا تھا کہ 'ایک دن میں اس پروفیسر کے ہمراہ اپنے ڈپارٹمنٹ سے نیچے جارہی تھی'، اس کے بعد وہ رکتی ہے، پھر کہتی ہے 'اچانک جب آس پاس کوئی نہیں تھا اس نے اپنا کندھا میرے کندھے پر رکھا اور زبردستی مجھے چومنے کی کوشش کی'۔

وہ اسے دور کرنے میں کامیاب رہی لیکن جو کچھ ہوا اس پر پریشان ہو کر اس کے سامنے رونے لگی، اس پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ ایسے ہی چلا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہو۔

اپنی رازدار بہن کو بتانے کے علاوہ جویریہ نے اس واقعے کو اپنے تک ہی محدود رکھا اور اس استاد سے دور رہی جبکہ اس کے داخلے کی رسید اس شخص کے پاس ہی موجود ہے۔

وائس چانسلرز کے دفتر سے ڈپارٹمنٹ کے سربراہاں کو فیکلٹی ممبران کے خلاف کارروائی کے لیے بھیجا گیا خط
وائس چانسلرز کے دفتر سے ڈپارٹمنٹ کے سربراہاں کو فیکلٹی ممبران کے خلاف کارروائی کے لیے بھیجا گیا خط

ویڈیو اسکینڈل کے بعد اساتذہ، طلبہ اور سیاسی کارکن سڑکوں پر نکل آئے تاہم اس یونیورسٹی کے طالب علموں کے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ہراسانی کے خلاف صف اول کے فیکلٹی ممبران سمیت کچھ مظاہرین نے خود طالب علموں کو جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔

ایک دن جب وہ ایک امتحان میں بیٹھی تھی ، تو اس کا ایک پروفیسر اس کے پاس آیا اور اس کی ران پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ 'میرے پیپر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟' اور خبردار کیا کہ اس کے مارکس اس کے ہاتھ میں ہیں۔

اس کے بعد اس نے جویریہ کی خوبصورتی کی 'تعریف' کی اور مزید کہا کہ وہ اس خوبصورتی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔

متعدد طلبہ کا کہنا ہے کہ آفس کا عملہ طلبہ کو نشانہ بنانے میں برابری کا قصوروار ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے نو عمر خواتین کے کردار پر الزام لگایا۔

جویریہ کے ڈپارٹمنٹ کے ایک کلرک نے اسے کہا کہ اگر وہ اس پر کوئی 'احسان' کرے تو وہ اسے پرچہ لیک کرسکتا ہے۔

جویریہ نے ڈان کو بتایا ایک دن اس کے دفتر میں اس نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور اس سے سم کارڈ قبول کرنے کا کہا، پھر اس نے کمرے کو لاک کرنے کی کوشش کی، خوش قسمتی سے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔

اس کا کہنا تھا کہ 'آفس کے ایک اور کلرک نے مجھے یونیورسٹی میں اپنی منگیتر کے ساتھ دیکھ کر میرے سامنے مجھے بدکردار لڑکی کہا'۔

جویریہ کی شکل شیعہ ہزارہ برادری سے ملتی ہے تاہم حقیقت میں ان کا تعلق اس برادری سے نہیں، بدقسمتی سے ہزارہ لڑکیاں یونیورسٹی آف بلوچستان میں ہراسانی کا زیادہ نشانہ بنتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق ایک ایسی اقلیت سے ہوتا ہے جنہیں وہاں بہت تنگ کیا جاتا ہے۔

اگر بات مختصر کی جائے تو انہیں ہزارہ مردوں کا 'تحفظ' حاصل نہیں، ان میں سے بہت کم سریاب روڈ پر قائم یونیورسٹی جاتی ہیں جو فرقہ وارانہ قتل و غارت کے لیے مشہور سڑک ہے۔

ایک طالب علم یاسمین* کئی دیگر نوجوان خواتین کے ساتھ پروفیسر کے دفتر میں بیٹھی ہوئی اپنی تعلیم پر گفتگو کو یاد کرتی ہیں۔

یاسمین کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران طلبہ کی بے سکونی کے لیے وہ یہ ریمارکس دیتے رہے کہ وہ کتنی خوبصورتی سے گھرے ہوے ہیں اور کہنے لگے کہ یہ ان کی زندگی کا خوشگوار لمحہ بن گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے ایک ہزارہ لڑکی سے کہا کہ آپ انار کی طرح سرخ نظر آتی ہیں لہذا مجھے آپ کے لیے انار کا جوس آرڈر کرنے دیں' ان کے مطابق پروفیسر یہاں تک کہ ہزارہ لڑکی کی گود میں بیٹھ گئے، 'انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اس سے کیسے بھاگ سکتے ہیں، یہاں تک کہ اس نے اسے ہمارے سامنے بوسا بھی دیا۔

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی کی ایک اور طالبہ نے ڈان کو یو او بی کے ایک سینئر پروفیسر کے بارے میں بتایا جو اسے روزانہ کی بنیاد پر اپنی تصاویر واٹس ایپ کرتے رہتے ہیں اور 'پھر انہوں نے قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر بھیجنا شروع کردیں' اس کے بعد اس لڑکی نے اپنا نمبر مستقل طور پر بند کردیا۔

اس کے بعد پروفیسر خان* ہیں جو پرفیوم بوتل اپنے ڈیسک کی دراز میں رکھتے ہیں اور وہ اسے ایسی طالبات کو پیش کرتے ہیں جنہیں اپنی پڑھائی کے بارے میں کچھ پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے، بیچلر کی طالبہ معصومہ* اور رابعہ* کے مطابق انہوں نے اصرار کیا کہ طلبہ اس کے قریب بیٹھیں۔

ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ وہ پرفیوم لگانے والی لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں، 'پھر وہ گندی نظروں سے سر سے پیر تک ہماری طرف گھورتے ہیں'۔

1/2
1/2

خود پروفیسر کی بھانجی معصومہ نے ڈان کو ایک نرم لیکن صاف آواز میں بتایا کہ پروفیسر خان نے انہیں کیسے ہراساں کیا، جو لڑکیوں کے ہاسٹل میں جاتے ہوئے اس کا پیچھا کررہے تھے اور موبائل نمبر کے لیے آوازیں دے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'ایک دن میں نے انہیں اپنے انکل کے بارے میں بتایا جو یونیورسٹی میں پروفیسر تھے بعد ازاں اِس ہراسانی کا خاتمہ ہوا'۔

اس کے بعد پروفیسر خان نے اپنی دوست رابعہ کا پیچھا کرنا شروع کیا جو پردہ کرتی تھی۔

2/2 ایم فل کی طالب علموں کی جانب سے وائس چانسلر کو ریسرچ کو آرڈینیٹر کے 'تذلیل' پر مبنی رویے کی شکایت کے لیے لکھا گیا خط
2/2 ایم فل کی طالب علموں کی جانب سے وائس چانسلر کو ریسرچ کو آرڈینیٹر کے 'تذلیل' پر مبنی رویے کی شکایت کے لیے لکھا گیا خط

ایک دن انہوں نے سوال کیا 'تم مجھے اپنا چہرہ کیوں نہیں دکھاتی ہو؟ میں سمجھتا ہوں کہ آپ محتاط لڑکی ہیں اور مجھ سے دوستی نہیں کرسکتیں آپ مجھے کسی دوسری لڑکی کا نمبر کیوں نہیں دے دیتیں؟'

معصومہ نے سوال کیا کہ 'آپ اپنے استاد سے دوستی کیسے کرسکتے ہیں؟ اور یہ بات یہیں نہیں رکتی وہ اس سے زیادہ مطالبہ کرتے ہیں'۔

چند طالبات نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈویژن میں جنسی ہراسانی کی شکایات درج کیں، ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھیجے گئے خطوط میں سے ایک میں دو یو او بی عہدیداروں کے نام بتائے گئے جن پر طالب علم نے الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی 'نامناسب تصویروں' سے اسے بلیک میل کررہے ہیں جسے ان کی رضامندی کے بغیر لیا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ذہنی اذیت کی وجہ سے انہیں خودکشی کے خیالات آتے ہیں۔

دسمبر 2016 میں یو او بی کی ایک ایم فل کی طالبہ نیلم مومل نے اپنی تین ساتھیوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے اپنے ایم فل پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر لیاقت ثانی پر ناپسندیدہ حرکت کا الزام لگایا تھا۔

ڈان کے ساتھ گفتگو میں نیلم مامل نے ان پر الزام عائد کیا کہ انہیں جان بوجھ کر کم نمبر دیے گئے کیونکہ انہوں نے کسی بھی قسم کا ’احسان‘ کرنے سے انکار کردیا تھا۔

نیلم نے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال کو ایک تحریری شکایت پیش کی تھی اور ورک پلیس پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف ایکٹ 2010 میں ہر جنسی ہراساں کے الزام کی 3 رکنی کمیٹی کی جانب سے تحقیقات کے حق ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی، ڈان کے پاس اس کی شکایت کی ایک کاپی بھی دستیاب ہے۔

'کتا مار'

ایف آئی اے نے 2 دسمبر کو مذکورہ اسکینڈل سے متعلق اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

اگرچہ انہوں نے بی ایچ سی کی طرف سے ایسا کرنے کے حکم کے بعد چار ماہ قبل اس کیس کی تحقیقات کرنے کا دعویٰ کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایک بھی متاثرہ ان تک نہیں پہنچا۔

مسلسل اصرار کے بعد ایک اہلکار نے انکشاف کیا کہ 'قابل اعتراض ویڈیوز بہت کم لوگوں نے دیکھی، خدا کا شکر ہے کہ وہ لیک نہیں ہوئیں، اگر ایسا ہوتا تو قصورواروں میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا جاتا'۔

ایک اہلکار کے مطابق 'ہم نے رپورٹ پیش کی اور جج نے اس اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کے لیے اسے یونیورسٹی کے حوالے کردیا، اب یہ ان پر منحصر ہے'۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ بی ایچ سی کے حکم پر محکمہ جاتی انکوائری کے جواب میں جولائی میں یو او بی کے 88 ویں سنڈیکیٹ اجلاس میں شریک افراد نے دو سیکیورٹی اہلکاروں کو برطرف کرنے اور دو دیگر ملزمان کی دو سال تک پروموشن روکنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی سفارش کی کہ بلوچستان کے گورنر اور یونیورسٹی کے چانسلر سابق وائس چانسلر جاوید اقبال کے خلاف عدالتی تحقیقات کا آغاز کریں جن کی موجودگی میں ویڈیو اسکینڈل ہوا اور انہیں ایوارڈز واپس لیے جائیں۔

دوسری جانب یو او بی حکام کا دعوی ہے کہ سنڈیکیٹ کو جاوید اقبال کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں ہے۔

اگرچہ یہ معلومات بی بی سی اردو پر شائع کی گئی ہیں ، یو او بی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے ڈان کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر سے کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے کووڈ 19 کے دوران اب بطور وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا ہے، ویڈیو اسکینڈل جیسے واقعات کو دوبارہ پیش آنے سے روکنے کے لیے جو بھی اقدامات کرنے کی ضرورت تھی وہ میرے پیش رو کے دور حکومت میں کیے گئے ہیں'۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کی موجودگی کے علاوہ کیمپس میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے تھے۔

نگرانی کے کمرے کا سیکیورٹی انچارج سیف بلوچ تھا اور تفتیشی ایجنسی کے مطابق سیف بلوچ نے اپنے عہدے کو ناجائز اور خاص طور پر لڑکیوں کو بلیک میل کرنے اور ہراساں کرنے کے لیے غلط استعمال کیا جنہیں اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ ’قابل اعتراض‘ سرگرمیوں میں مصروف کیمرے نے ریکارڈ کیا تھا۔

ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ سیف بلوچ کے موبائل سے ویڈیوز برآمد کی جو ہارڈ ڈسک اوریو ایس بی فلیش ڈرائیو پر تھیں جو اس نے اپنی بہن کے گھر چھپا رکھی تھی۔

یو او بی کنٹرول روم میں سیف بلوچ اپنی میز پر مختلف بندوقوں کے ساتھ موجود ہے— فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر
یو او بی کنٹرول روم میں سیف بلوچ اپنی میز پر مختلف بندوقوں کے ساتھ موجود ہے— فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

اپنے بھائی ثنا اللہ اور ایک اور ساتھی کے ساتھ سیف بلوچ کے پاس بھی یونیورسٹی کی ایک کینٹین چلانے کا معاہدہ تھا اور وہ اکثر وہاں دیکھا جاتا تھا۔

یاسمین بلوچ کا ڈپارٹمنٹ کینٹین کے قریب تھا اور وہ اکثر اپنے ہم جماعت کے ساتھ وہاں جاتی تھیں۔

ایک دن اس نے سیف بلوچ کو ڈانٹا جب وہ اسے گھور رہا تھا۔

اس کے تقریباً 3 ہفتوں تک جب بھی یاسمین یونیورسٹی بس سے اترتی اور اپنے ڈپارٹمنٹ تک پہنچتی تو سیف بلوچ سفید کرولا کار چلا اور جب سردیوں کی تعطیلات آئیں تو یاسمین نے سکون کا سانس لیا۔

یہ واضح تھا کہ سیف کو یقین ہے کہ ان پر کوئی قواعد لاگو نہیں ہوتے ہیں۔

مین آرٹس فیکلٹی کے سامنے ایک کھلا صحن ہے جس میں یونیورسٹی کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہاں کوئی بھی اپنی گاڑیاں نہیں کھڑا کرتا لیکن سیف کو کوئی منع نہیں کرسکتا۔

کچھ اسٹوڈنٹ سیف کو بالی ووڈ کی فلم کا ہیرو کہتے ہیں جو سیاہ چشمہ اور کمانڈو جیکٹ پہنے آوارگی سے گھوم رہا ہو۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر میں وہ سیکیورٹی سرویلنس روم میں بیٹھا ہے اور اس کی میز پر کئی ہتھیار بکھرے ہوئے ہیں جس میں ایک کے 47، پستول اور 223 اور اسنائپر رائفلیں شامل ہیں۔

سیف بلوچ کی کنٹرول روم میں بطور انچارج کی حیثیت سے تقرری کا نوٹی فکیشن کا عکس
سیف بلوچ کی کنٹرول روم میں بطور انچارج کی حیثیت سے تقرری کا نوٹی فکیشن کا عکس

شعبہ حیوانیات کے طالب علم زوہیب نےسیف کے بارے میں بتایا کہ سیف ایسا شخص تھا جو صرف اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ لڑکے اور لڑکیاں صرف غیر اخلاقی حرکتیں کرنےکے لیے بلوچستان یونیورسٹی آتے ہیں۔

زوہیب نے بتایا کہ ایک دن وہ اپنی ہم جماعت کے ہمراہ اسائنمنٹ پر گفتگو کر رہا تھا جب سیف 125 موٹرسائیکل پر آیا اس کے ہاتھ میں واکی ٹاکی تھی اور اس نے ہم پر افیئر ہونے کا الزام لگایا۔

میں نے سیف سے کہا کہ وہ میری ہم جماعت ہے اور میری بہن کی طرح ہے جس پر سیف نے میری ہم جماعت کو چائے کی دعوت بھی دی لیکن وہ چلی گئی اور بعد میں سیف نے مجھ پر طنز کیا کہ 'یہ کس قسم کی لڑکی کو تم اپنی بہن بنا لیتے ہو'۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ کئی سال قبل سیف کو یو او بی میں بطور ’کتے شوٹر‘ کے طور پر رکھا گیا تھا یہ ملازمت بظاہر 2005 میں کسی نوٹی فکیشن کے بغیر پیدا کی گئی تھی۔

انچارج سیکیورٹی سرویلنس روم کی حیثیت سے سیف بلوچ کے دوبارہ تقرر کے بارے میں 27 جولائی 2018 کا نوٹی فکیشن کا عکس
انچارج سیکیورٹی سرویلنس روم کی حیثیت سے سیف بلوچ کے دوبارہ تقرر کے بارے میں 27 جولائی 2018 کا نوٹی فکیشن کا عکس

دوسری جانب یونیورسٹی کے دورے سے یہ پتا چلتا ہے کہ یونیورسٹی کے میدانوں میں ابھی بھی بہت سارے آوارہ کتے گھوم رہے ہیں۔

طلبہ اب سیف کو متنازع عرفیت یعنی 'کتا مار' کے نام سے پکارتے ہیں۔

ڈان نے سیف کے ایک بھانجے کو تلاش کیا۔ وہ اپنے ماموں کو ایک غریب گھرانے سے ایک سادہ اور ان پڑھ آدمی کے طور پر بیان کرتا ہے۔ جب سیف کے والد کی وفات ہوئی تو ان کی والدہ نے 8 بچوں کے ساتھ دوسری شادی کرلی۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی برس کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار کے ساتھ سیف کی دوستی نے انہیں یو او بی میں اپنا کیریئر بنانے میں مدد کی۔

ایک طالب علم کے مطابق 'سیف اس کے اتنے قریب تھا کہ مختلف پروگراموں کے موقع پر جب اعلی سطح پر سیکیورٹی تعینات کی جاتی تھی وہ حکام کی پچھلی جیب میں فون جیمر ڈال دیتا تھا اور اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔

ڈان کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق 2005 میں کتے کے شوٹر کے طور پر ملازمت کے فورا بعد ہی وہ چوکیدار (بی پی ایس 1) کے طور پر مقرر ہوا اور 27 جون 2008 کو سیکیورٹی گارڈ (بی پی ایس -05) میں ترقی دی گئی۔

آخری تقرری کو یو او بی کے ایک پرانے ملازم محمد ناصر نے بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ سیف کو غیر قانونی طور پر ترقی دی گئی تھی۔

ملازم محمد ناصر نے بتایا کہ ایک مرتبہ سیف نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے مقدمہ واپس نہیں لیا تو جان سے مار ڈالے گا۔

سماعت کے دوران او بی سی کے طالب علموں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا پہلا اشارہ سامنے آیا اور یہ وہ وقت تھا جب بی ایچ سی نے ایف آئی اے کو اس معاملے کی تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیا۔

اس کے باوجود سیف عہدے میں ترقی پاتا رہا اور ایک مرتبہ بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک سینئر جج نے قدرے الجھن میں سیف سے پوچھا کہ 'کیا معاملہ ہے کہ یہ سیف!

20 جنوری 2015 کو وائس چانسلر نے سیف کو ٹرانسپورٹ سیکشن میں ٹیکنیشن (بی پی ایس 13 ) کے طور پر مقرر کیا جس میں یونیورسٹی کی سیکیورٹی کی نگرانی کے اضافی چارج بھی شامل تھا جبکہ عدالت نے سیف کو بی پی ایس 4 میں تخفیف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

6 نومبر 2016 کو یو او بی کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی نے انہیں 'انچارج سیکیورٹی سرویلنس روم' بی پی ایس 13 کی ایک نئی پوسٹ پر مقرر کردیا۔

اگرچہ بی ایچ سی ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت نے 31 جنوری 2018 کو سیف کی تقرری سے متعلق تمام نوٹی فکیشن منسوخ کردیا تھا لیکن وائس چانسلر نے انہیں ایک مرتبہ پھر 27 جولائی کو سرویلنس روم کے کمرے کا انچارج لگا دیا۔

مختلف نوٹیفکیشن کے مطابق سیف کو ایک سال کے لیے مذکورہ پوسٹ کے لیے تعینات کیا گیا۔

بی ایچ سی کے ذرائع نے کہا کہ 'یہ بالکل اس طرح تھا جیسے بلی کو کرائم کی نگرانی کے لیے کہا جائے'۔

ایف آئی اے کی تفتیش کے دوران ایک اور انکشاف ہوا کہ جس میں مبینہ طور پر سیف تین دیگر افراد کی قیادت کررہا تھا جو طلبہ کو بلیک میل کررہے ہیں۔ ان تینوں افراد میں 'یحییٰ ، نعیم اور شریف' شامل تھے (بعد میں یحییٰ کا نام مشتبہ افراد کی فہرست سے خارج کردیا گیا) یونیورسٹی کے رجسٹرار طارق جوگزئی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ براہ راست ملوث نہ ہونے کے باوجود مذکورہ پیشرفت کے بارے میں جانتے تھے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق سیف نے خود یونیورسٹی میں سیکیورٹی سسٹم قائم کیا تھا جس میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی شامل تھے۔

ایف آئی اے کی انکوائری کے بعد سیف کو سیکیورٹی گارڈ کے عہدے سے برطرف اور معطل کردیا گیا تھا۔

کئی ماہ کے دوران بہت سی ناکام کوششوں کے بعد ڈان نے آخر کار سیف کو مختصر گفتگو کے لیے آمادہ کرلیا۔

پُرسکون اور پر اعتمادانداز میں سیف نے کہا کہ 'میں اپنی بےگناہی کو ثابت کرنے کے لیے جلتے ہوئے کوئلوں پر چل سکتا ہوں'۔ پیلے بھوری رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس سیف کی ڈاڑھی اور مونچھیں ہلکی تھیں۔

وہ مسکرایا اور کہا کہ 'سوشل میڈیا پر جو کچھ کہا جاتا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، لوگوں نے جو چاہا کہا اور یہ سب میرے خلاف تھے۔

انہوں نے ویڈیو اسکینڈل میں کسی بھی کردار کی سختی سے تردید کی۔

چھانگا مانگا کا راز

پنجابی لوک داستانوں کے مطابق چھانگا اور مانگا دو بھائی تھے، دونوں چور تھے اور حکام سے بچنے کے لیے ، ایک گھنے جنگل میں چھپ جاتے تھے جو اب پنجاب میں چھانگا مانگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہی نام یہ یونیورسٹی کے توانائی کے شعبے کے سامنے نو تعمیر شدہ درختوں، پودوں اور موٹی جھاڑیوں کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو بھی یہ نام دیا گیا ہے (کیمپس کے اسی طرح کے دیگر سبز علاقوں کو بھی چھانگا مانگا کہا جاتا ہے)۔

نومبر کے وسط میں ایک سرد اور ابر آلود دن، چار لڑکیاں اس سرسبز جگہ پر سیمنٹ کے فرش پر گرے ہوئے پتوں کو پیروں سے کچل رہی تھیں۔

یہ ایک پرسکون منظر تھا، اس اسکینڈل سے بہت دور جو یہاں ہوا تھا اور عوام کے سامنے بھی آیا تھا۔

یہاں نوجون جوڑے اکثر چھانگا مانگا کی پرائیویسی میں اپنا وقت ساتھ گزارا کرتے تھے، شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس علاقے میں سیکیورٹی کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں، درختوں کو کاٹ کر جن سے آس پاس کے علاقے کا صحیح منظر عکس بند ہوسکے۔

چند نجی کیمرے بھی یہاں ویڈیو اسکینڈل کے ملزمان نے مبینہ طور پر نصب کر رکھے تھے۔

یونیورسٹی کے ذرائع کے مطابق اس جگہ اور کیمپس میں جوڑوں کو خفیہ طور پر عکس بند کرنے کے لیے کل 37 ویڈیو کیمرے موجود تھے۔

ان کا دعوٰی ہے کہ نوجوان خواتین کو یو او بی انتظامیہ کے بعض عہدیداروں نے طلب کیا اور مرد ہم جماعت کے ساتھ ان کی ’قابل اعتراض‘ سرگرمیوں کی ویڈیوز دکھائی گئیں اور ان ویڈیوز کو عوامی نہ بنانے یا ان کو ان کے اہل خانہ کو نہ بھیجنے کے بدلے ان سے پیسے یا جنسی مفادات کے لیے بلیک میل کیا گیا۔

بلوچستان ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایف آئی اے نے 200 یونیورسٹی عہدیداروں سے پوچھ گچھ کی۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے 12 ویڈیوز کا سراغ لگایا، ایف آئی اے کے کچھ ذرائع نے یہ تعداد 19 بتائی جو طالبات کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

ایک فیکلٹی ممبر نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے کی انکوائری کے آغاز کے بعد ایک صبح اس نے مبینہ مجرموں کو ایک طالب علم سے اس کا اسٹوڈنٹ کارڈ لیتے ہوئے دیکھا۔

یہ شخص اسے ایک ویڈیو پر بلیک میل کررہا تھا جس میں اسے اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ بس پوائنٹ کے قریب دکھایا گیا تھا تاہم ایک ٹیچر کی مداخلت نے اس آدمی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔

پاکستان اسٹڈیز کے ایم فل کے طالب علموں نے ایڈمنسٹریشن بلاک کے سامنے والے باغ میں جہاں باقاعدہ طور پر سیکیورٹی سرویلنس روم واقع ہے، گروپ اسٹڈی سیشن کیا کرتے تھے۔

ان میں سے ایک نے بتایا کہ 'ایک دن جب ہم وہاں تھے ایک لڑکی انتظامیہ کے بلاک سے باہر آئی، وہ رو رہی تھی اور کچھ دیر روتی رہی، ہم نے اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ کیا ہوا ہے'۔

ایف آئی اے حکام کی طرح جنہوں نے میڈیا پر اس معاملے کو غیر ضروری 'بڑھانے چڑھانے' کا الزام لگایا تھا، ڈاکٹر جاوید اقبال سے چارج لینے والے سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد انور پانیزئی بھی اس کوریج سے ناخوش تھے اور انہوں فروری میں ڈان سے بات کرتے وقت اپنی رائے کو واضح کیا تھا۔

میڈیا کے ’غیر ذمہ دارانہ‘ طرز عمل پر پانچ منٹ کے لیکچر کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ انسٹی ٹیوٹ ملوث افراد میں سے کسی کو بھی نہیں بخشے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انتظامیہ کے چار عہدے داروں (نعیم، یحییٰ، سیف اور شریف) کو پہلے ہی معطل کردیا گیا ہے اور انہیں شوکاز نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں تاہم ایس او پیز کے تحت ہم سابق وائس چانسلر پروفیسر جاوید اقبال کو شوکاز نوٹس جاری نہیں کرسکتے ہیں، صرف بلوچستان کے گورنر ہی ایسا کرسکتے ہیں'۔

انور پانیزئی نے مزید کہا کہ کیمپس میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی یو او بی کمیٹی بھی عدالت کے حکم کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے، 'مجھے توقع ہے کہ تحقیقات اپریل کے آخر تک مکمل ہوجائیں گی، جہاں تک ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی بات ہے، اس پر ایف آئی اے اور بلوچستان ہائی کورٹ نے تجویز اور فیصلہ کرنا ہے۔

اسی دن کے آخر میں ڈان کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں سابق وائس چانسلر پروفیسر جاوید اقبال نے تصدیق کرنے کے علاوہ کہ انہیں کوئی شوکاز نوٹس موصول نہیں ہوا تھا، اعتراف بھی نہیں کیا اور کہا کہ کوئی بھی سوال ہو وہ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھیج دیں۔

دریں اثنا یونیورسٹی کے نئے رجسٹرار کا مؤقف ہے کہ عدالت کے احکامات کے مطابق 26 غیرضروری کیمرا ہٹا دیئے گئے ہیں اور جہاں باقی کیمرے موجود ہیں طلبا کو ان کی موجودگی سے آگاہ کرنے کے لیے نوٹسز لگائے گئے ہیں۔

قصورواروں کے خلاف کارروائی سے قطع نظر، ویڈیو اسکینڈل سے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔

حقوق نسواں کی رضاکار قمر النساء کے مطابق 'یہ بلوچستان کے تناظر میں ایک خاص طور پر بدقسمت واقعہ ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے اعدادوشمار پہلے ہی کم ہیں، ایسی خبریں آرہی ہیں کہ طلبا یونیورسٹی چھوڑ رہی ہیں یا ان کے والدین نے انہیں اعلی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا ہے'۔

سوشل ورک ڈپارٹمنٹ میں پڑھنے والے دو رشتہ داروں کو ان کے اہل خانہ نے مجبور کیا کہ وہ اپنی تعلیم چھوڑ دیں، ان سے ملاقات کی کوششیں ناکام ہوگئیں کیونکہ وہ میڈیا سے بات کرنے سے گریزاں ہیں، اس اسکینڈل کی خبر ملنے پر ضلع نوشکی کے ایک اور طالب علم کے والدین نے اسے یو او بی میں تعلیم جاری رکھنے سے منع کردیا۔

تاہم سابق قائم مقام وائس چانسلر انور پانیزئی اس سے زیادہ پر امید ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر کوئی بلوچستان میں کسی لڑکی پر تیزاب پھینک دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری لڑکیاں دوبارہ اس جگہ نہیں جائیں گی، لوگ اس بازار میں جانے سے باز نہیں آتے جہاں ایک بار بم دھماکا ہوا تھا، اسی طرح یونیورسٹی کا معاملہ لڑکیوں کو یو او بی میں داخلہ لینے سے نہیں روکے گا اور ہم نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے پوری کوشش کی ہے'۔

بلوچستان میں آبادی بکھری ہوئی ہے اور بعض جگہوں پر ایک گاؤں کے 15 میل کے دائرے میں لڑکیوں کا ایک بھی اسکول نہیں ہوتا ہے جبکہ لڑکیوں کے لیے اعلی تعلیمی ادارے اس سے بھی زیادہ کم ہیں اور پورے صوبے میں صرف ایک ہی خواتین کی یونیورسٹی ہے، کوئٹہ کی سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی، یہاں لڑکوں کے برعکس لڑکیوں کے لیے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت حاصل کرنا بھی مشکل ہے، ایسا کرنے سے پہلے انہیں اکثر خاندانی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فیکلٹی ممبر پروفیسر ڈاکٹر زینت ثناء بلوچ نے خود یونیورسٹی آف بلوچستان میں تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے جینڈر ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ڈپارٹمنٹ کے چیئرپرسن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔

چند سال قبل انہوں نے اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایک شخص پر مشتمل انسداد ہراساں سیل قائم کیا تھا، لڑکیاں وہاں شکایات درج کرسکتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ نجی حیثیت میں وہ شکایات سے نمٹنے کے لیے پوری کوشش کریں گی، کسی بھی مبینہ ہراساں کرنے والے کے خلاف کبھی بھی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

ان کے مطابق بلوچ لڑکیاں سادہ ہوتی ہیں جن میں سے بہت سی صوبے کے اندرونی حصے سے آتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان لڑکیوں کو اپنے ہی بلوچ بھائیوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے جو ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں'۔

ہراساں مخالف قانون کے تحت جنسی طور پر ہراساں ہونے کی شکایات کو دیکھنے کے لیے ہر ورک پلیس (کام کے مقام) یا تعلیمی ادارے میں کم از کم ایک خاتون سمیت تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے، یو او بی نے اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد گزشتہ سال 16 اکتوبر کو ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس میں دو خواتین سمیت پانچ ممبران شامل ہیں۔

اس کی چیئرپرسن صوبیہ رمضان نے ڈان کو بتایا کہ انہیں دو شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں طلبا کے مرد ساتھیوں پر سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر شیئر کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمات ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کو بھیج دیے گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوئی اور کیس اب تک درج نہیں کیا گیا ، اس کے باوجود اس کے بعد کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ 'یہ قبائلی معاشرہ ہے لہذا خواتین سمجھتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات کی اطلاع دینے سے ان کی بے عزتی ہوجائے گی حالانکہ یہ نظام خفیہ ہے اور متاثرین ای میل کے ذریعے بھی ہم تک پہنچ سکتے ہیں جس کا پتا ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے، اگر کوئی کیس ہمارے پاس آتا ہے تو ہم ابتدائی تفتیش کریں گے اور (متنازع شواہد کی صورت میں) اپنی باتیں بلوچستان ہائی کورٹ اور محتسب کو بھیجیں گے تاہم اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا'۔

اس سے قبل 16 دسمبر 2016 کو یو او بی میں ہراساں مخالف ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاہم بعدازاں اسے نامعلوم وجوہات کی بنا پر تحلیل کردیا گیا، اس کمیٹی میں کوئی شکایت درج نہیں کی گئی تھی۔

حال ہی میں ایک صبح بی ایس میں داخلے کے دوران دو لڑکیاں اپنی والدہ کے ساتھ یو او بی میں داخل ہونے کے لیے سریاب روڈ عبور کررہی تھیں کہ ایک کالے شیشے والی گاڑی میں سوار تین لڑکوں نے ان کے پاس آکر گاڑی آہستہ کی سیٹی بجانے لگے۔

خواتین نے ان کو نظرانداز کرتے ہوئے یونیورسٹی میں داخل ہوگئیں جس سے اس رپورٹ کے مصنف کو یہ انور پانیزئی کے الزامات یاد آئے کہ دھماکا اور تیزاب کا حملہ بھی عوام اور لڑکیوں کو اسی جگہ دوبارہ جانے سے نہیں روک سکتا۔

تاہم یہ ایک سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا یہ طالب علم محفوظ ہوں گے جب یہ یونیورسٹی آف بلوچستان اپنی کلاسز کا آغاز کریں گے۔

اس واقعے سے نامہ نگار کو انور پانیزئی کی بات یاد آگئی کہ دھماکوں اور تیزاب کے حملوں سے لوگوں اور طالب علموں کو دوبارہ اسی جگہ جانے سے نہیں روک پاتے ہیں، لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا یہ طالب علم جب اپنی کلاسیں شروع کریں گے تو وہ یو او بی میں محفوظ ہوں گے؟


چند ناموں اور تفصیلات کو رازداری کی وجہ سے تبدیل کردیا گیا ہے۔

السٹریشن: ریم خورشید، انیمیشن: سید آصف علی