اگرچہ انسان اپنی زندگی کو بہتر اور پرسکون بنانے کے لیے ہی اس دنیا میں نئے تجربات اور تخلیق کی صلاحیتوں کو استعمال کرتا رہتا ہے، تاہم ساتھ ہی ایسی کوششیں اس دنیا کو انسانیت کے لیے خطرناک بھی بنا رہی ہیں۔
اس کی تازہ مثال ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی جانب سے زولاجیکل سوسائٹی آف لندن اور دیگر 40 سماجی تنظیموں اور اداروں کے تعاون سے تیارہ کردہ تازہ تحقیقی رپورٹ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تحقیقی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ڈبلیو ڈبلیو ایف اور زولاجیکل سوسائٹی آف لندن کی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ انسانوں کی جانب سے حد سے زیادہ خوراک اور وسائل کے استعمال کے باعث گزشتہ نصف صدی میں 68 فیصد جنگلی حیات کی آبادی کم ہوگئی۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ انسانوں کی جانب سے حد سے زیادہ خوراک کے استعمال سے جہاں آنے والے وقت میں خوراک کی قلت جیسے بحران کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے، وہیں دو تہائی سے زیادہ مچھلیاں، پرندے اور جانور بھی کم ہوگئے۔
'دی لونگ پلانیٹ انڈیکس' نامی رپورٹ میں تنظیموں نے دنیا بھر میں 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات کا جائزہ لیا، جس سے پتا چلا کہ ہر طرح کی جنگی حیات میں سالانہ 4 فیصد کمی ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1970 سے لے کر 2016 تک انسانوں کی جانب سے وسائل کے حد سے زیادہ استعمال کے باعث کئی طرح کے جانوروں، پرندوں اور پانی میں رہنے والی مخلوق کی تعداد کم ہوگئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ انسانوں کی جانب سے جنگلات کی کٹائی اور زرعی زمین کو بڑھانے کی لالچ کی وجہ سے بھی پانی اور جنگلات میں رہنے والی مخلوق کم ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں واضح طور پر انسانی طرز زندگی کو جنگلی و سمندری مخلوق سمیت قدرت کے لیے بھی خطرہ قرار دیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اگر انسانوں کا رویہ اسی طرح برقرار رہا تو دنیا میں خوراک کی قلت سمیت کئی طرح کی آفتیں اور وبائیں آ سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے ماحول کی بقا کے ضامن جنگلی حیات خطرے میں
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جانور اب تک دنیا میں پھیلنے والی بڑی وباؤں کا سبب رہے ہیں، جن میں حالیہ کورونا کی وبا بھی شامل ہے جب کہ ماضی میں ایبولا اور سارس جیسی وبائیں بھی جانوروں، پرندوں یا پانی کی مخلوق سے انسان میں منتقل ہوئیں۔
مذکورہ رپورٹ ادارے کا تیرہواں ایڈیشن ہے اور ادارہ ہر سال متعدد تحقیقی و تعلیمی اداروں سمیت قدرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ رپورٹ مرتب کرتا ہے۔
رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 2014 تک انسانوں کی طرز زندگی سے 58 فیصد جنگلی حیات ختم ہوچکی تھی، جس میں اب مزید اضافہ ہوچکا ہے اور 2016 تک ختم ہونے والی جنگلی حیات 68 فیصد تک جا پہنچی تھی۔
ختم ہونے والی جنگلی حیات پر 1970 سے تحقیق کی جا رہی ہے، اس سے قبل کا ڈیٹا موجود نہیں ہے، تاہم 1970 سے لے کر 2016 تک سالانہ انسانی رویوں کے باعث 4 فیصد تک جنگلی حیات کم ہوتی رہیں۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ انسانی طرز زندگی سے سب سے زیادہ خطرہ پانی میں رہنے والی مخلوق کو ہے اور پانی میں رہنے والے ہر تین میں سے ایک جاندار کو بقا کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔
رپورٹ میں اداروں نے خبردار کیا کہ اگر انسانوں کا رویہ ایسے ہی برقرار رہا تو تیزی سے جانور، پرندے اور پانی میں رہنے والی مخلوق ختم ہوجائے گی اور ساتھ ہی دنیا میں خوراک کی قلت اور وبائیں پھیلیں گی۔
رپورٹ میں کیریبین اور امریکی خطے کو جنگلی حیات کے خاتمے کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ خطہ قرار دیا گیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں