60 ہزار افراد میں 3 ماہ تک کووڈ 19 کے اثرات برقرار رہنے کا انکشاف
برطانیہ میں 60 ہزار ایسے مریضوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جن میں کووڈ 19 کی علامات 3 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہیں۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی اور اس طرح کے مریضوں کو لانگ کووڈ کا شکار قرار دیا۔
محققین کے مطابق کچھ افراد میں علامات کی شدت معتدل تھی مگر دیگر میں سنگین حد تک متاثر ہوئے تھے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ طویل المعیاد علامات سے متاثرہ کچھ افراد کا کہنا تھا کہ وہ پہلے فٹ اور صحت مند تھے مگر اب وہ وہیل چیئر تک محدود ہوگئے ہیں۔
طویل عرصے تک علامات کا شکار رہنے والے افراد نے سانس لینے میں مشکلات اور تھکاوٹ کو رپورٹ کیا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ خریداری یا سیڑھیاں چڑھنا بھی انہیں کئی روز تک بستر پر رہنے پر مجبور کردیتا ہے۔
کنگز کالج لندن کے پروفیسر اسپیکٹر کے مطابق صارفین کا ڈیٹا ایپ سے حاصل کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ 3 لاکھ افراد نے ایک ماہ سے زائد عرصے تک علامات کو رپورٹ کیا اور اسے لانگ کووڈ کا نام دیا گیا ہے۔
ان 3 لاکھ میں سے 60 ہزار کو علامات کا سامنا 3 ماہ سے زائد عرصے تک ہوا جبکہ برطانیہ کے ہیلتھ سیکرٹری میٹ ہینکوک نے رواں ہفتے بتایا تھا کہ کچھ افراد کو بیماری کے 6 ماہ بعد اب بھی علامات کا سامنا ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نوجوان افراد بھی کئی ماہ بعد تاحال علامات کا سامنا کررہے ہیں۔
لانگ کووڈ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ ایسے افراد جن میں کورونا وائرس کی علامات 2 ہفتے کے بعد بھی برقرار رہے۔
محققین نے لانگ کووڈ کے شکار افراد میں نظر آنے والی 16 علامات کو بھی شناخت کیا جن میں تھکاوٹ یا ناتوانی، الٹیاں، ہیضہ، زیادہ جسمانی درجہ حرارت، بالوں کا گرنا، سینے میں تکلیف، واہمے یا فریب نظر، سانس کے مسائل، پیروں کے ناخنوں کی رنگت جامنی ہوجانا، ٹھنڈ لگنا، وقت اور مقام کا احساس ختم ہوجانا، جسم یا پٹھوں میں تکلیف، بے خوابی، دل کی دھڑکن میں تبدیلی، دل کی دھڑکن بہت تیز ہوجانا جیسے یاک منٹ میں سو سے زیادہ بار، دماغی مسائل جیسے یادداشت متاثر اور الجھن۔
یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ دنوں ایک الگ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
آسٹریا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔
تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے، جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔
12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔
انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔
نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔
اس تحقیق کے نتائج یورپین ریسیپٹری سوسائٹی انٹرنیشنل کانگریس میں پیش کیے گئے۔