غیر قانونی اعضا کی پیوند کاری کرنے والا گروہ پکڑا گیا
لاہور: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے چین میں غیر قانونی طور پر اعضا کی پیوند کاری میں مبینہ طور پر ملوث ٹرانس نیشنل گروہ پکڑ لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایجنسی نے اس سے قبل غیر قانونی انسانی اعضا کی پیوند کاری میں ملوث متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا، یہ گرفتاریاں خاص طور پر پنجاب سے سامنے آئی تھیں جہاں خلیج سے اعضا طلب کرنے والے افراد آپریشن کے لیے اکثر آتے تھے۔
پیر کے روز ایک بین الاقوامی گروہ کے لاہور میں انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری میں سرگرم ہونے کی اطلاع ملنے پر ایف آئی اے پنجاب زون ون کے ڈپٹی ڈائریکٹر سردار ماوران خان کی ہدایت پر ایک ٹیم نے پاسپورٹ آفس پر چھاپہ مار کارروائی کی۔
مزید پڑھیں: عمر شریف کی بیٹی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کرنیوالے ریکٹ کا شکار
کارروائی کے دوران ٹیم نے ڈونرز اور ایجنٹز سمیت 7 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا۔
یہ ایجنٹ مبینہ طور پر غریب طبقے کے لوگوں کو اپنا جگر اور گردے بیچنے کے لیے ترغیب دیتے تھے اور پھر چین میں پیوند کاری کی جاتی تھی۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایجنٹس کے چین میں رابطے تھے جہاں وہ چینی ڈاکٹروں کے ذریعے اعضا کی پیوند کاری کروارہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ پہلا موقع ہے جب اس طرح کے گروہ کو بے نقاب کیا گیا ہے جو چین میں انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث تھا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ایک ایجنٹ اعضا فروخت کرنے والے کو لگ بھگ 4 لاکھ روپے دیتا ہے اور سفر کا بندوبست کرتا ہے جبکہ وصول کرنے والے خود ہی (چین) پہنچ جاتا ہے'۔
عہدیدار نے مزید بتایا کہ یہ گروہ ایک بین الاقوامی ریکیٹ کا حصہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: غیر قانونی انسانی اعضا فروخت کرنے والا گینگ گرفتار
ان سے سوال کیا گیا کہ اس گروہ نے کتنے لوگوں کو اعضا کی پیوندکاری کے لیے پڑوسی ملک پہنچایا ہے تو انہوں نے بتایا کہ 'تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس گروہ نے اس مقصد کے لیے تقریباً 30 افراد کو چین منتقل کیا ہے'۔
گرفتار ملزمان کی شناخت عبدالطیف، محمد حنیف، عبدالغفار، حق نواز، عبدالجبار، محمد ذوالفقار اور رفاقت علی کے نام سے ہوئی ہے۔
ان میں سے بیشتر کا تعلق پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے ہے، ملزمان کے خلاف دفعہ 10، 11 پنجاب ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگنز اینڈ ٹشوز (ترمیمی) ایکٹ 2012 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔