یہ وہ دریائے سوات ہے ہی نہیں
مدین سے آگے دریا کے کنارے بل کھاتی سڑک پر ہماری گاڑی فراٹے بھرتے ہوئی جا رہی تھی اور نیچے گدلا پانی دریا کے کناروں پر تعمیر شدہ پختہ پشتوں سے سر پٹخ رہا تھا۔
جھیلوں اور آبشاروں کی وادی ’سوات‘ ایک غراتے ہوئے گدلے دریا اور بپھری ہوئی لہروں کی نذر ہو، سنگ دل سے سنگ دل بندہ بھی یہ نہیں چاہے گا۔ آج جب دریائے سوات پر نظر پڑی، گدلا پانی اور سماعت خراش شور، یہ وہ دریا ہے ہی نہیں جس کے کنارے بیٹھ کر سیاح اپنی تھکن اتارنے آیا کرتے ہیں۔ جہاں جوڑے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوجے میں کھو جاتے ہیں۔
آج یہ سرے سے وہ دریا دکھائی ہی نہیں دے رہا جس کے کنارے بچے اور من چلے سیلفیاں لیتے نہیں تھکتے، اور اس کے زمرد جیسے پانی کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرتے ہیں۔ اس کے کنارے بھنگڑے ڈالتے اور اتنڑ (پشتون رقص) کرتے ہیں۔ بعد میں ان سیلفیوں اور تصاویر کو سوشل میڈیا کی زینت بنا کر دنیا جہاں سے داد کے ڈونگرے برسانے کی امید کرتے ہیں۔
مجھے کہنے دیجیے کہ یہ وہ دریا ہے ہی نہیں جو نہ صرف سوات بلکہ دریائے سندھ میں مدغم ہونے تک راستے میں جتنے کھیت ہیں، سب کو کسی حاتم طائی کی طرح اپنے میٹھے پانی سے نوازتا ہے، اور وہاں تک کی تمام زمینیں بدلے میں سونا اگلتی ہیں۔
لیکن آج یہ دریا بپھر گیا ہے۔ آج مجھے اسے دیکھتے ہوئے جھرجھری سی محسوس ہوتی ہے۔ آج اس کی لہریں کناروں سے نکل کر آس پاس کے کھیت کھلیانوں، باغات اور آبادی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لا رہیں۔ آج سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ رہا ہے اور ہم بالکل بے بس و لاچار کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر اس کی بدولت مچنے والی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیں۔
مسلسل تیسرے روز کی موسلادھار بارش نے اس دیالو دریائے سوات کو طیش دلا دیا ہے۔ ندیوں اور نالوں میں ایسی طغیانی اور سیلابی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے کہ 2010ء کی تباہ کن سیلاب کی یاد تازہ ہوگئی۔
ذرا اس دکھ کو ناپنے کے لیے کوئی آلہ تو بتائیے کہ اسی دریا کے کنارے سیکڑوں سالوں سے آباد لوگ آج محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اپنے بھرے پرے گھروں کو چھوڑ کر کسی کی گود میں ننھا ہے، تو کسی کے کاندھوں پر ماں یا والد کی شکل میں بوڑھی ہڈیاں اور اگر رکیں گے، تو بپھری لہروں کی نذر ہوں گے۔
ایسا ہی ایک خاندان اپنے کاندھوں پر اشیائے خور و نوش کے کچھ تھیلے اٹھائے محفوظ مقام کی طرف رواں دواں تھا۔ ہم نے اپنی گاڑی روک لی۔ اس میں 14سالہ سمیع اللہ جس کی گود میں بھیڑ کا بچہ تھا، بارش میں بھیگا ہوا، اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ اس نے معصومانہ انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا گھر (جھونپڑی) دریا کی لہروں کی نذر ہوئی، اس لیے اب ہم اپنے چچا کے گھر جا رہے ہیں، جو اوپر پہاڑوں میں رہتے ہیں‘۔
میرے پاس دکھ ناپنے کا کوئی آلہ نہیں، ورنہ میں اس معصوم کا دکھ ناپتا۔ شدتِ غم سے میں اس کی تصویر اتارنا بھول گیا۔ اگر نہ بھی بھولتا، تو شاید پھر بھی اتار نہ پاتا۔
محکمۂ آبپاشی ضلع سوات کے فلڈ سیل کے مطابق منگل کی صبح خوازہ خیلہ (سوات کی بڑی تحصیلوں میں سے ایک) کے مقام پر دریائے سوات میں پانی کا بہاؤ 35 ہزار 710 کیوسک اور اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا۔ فلڈ سیل کے مطابق دوپہر کو پانی کا بہاؤ 51 ہزار 280 کیوسک اور اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ باقی خود اندازہ لگائیے، ابھی بارش کی پیش گوئی جمعہ کے روز تک ہے۔ تب تک پلوں کے نیچے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا اور کتنی چیزیں خس و خاشاک کی طرح بہہ چکی ہوں گی، واللہ اعلم!
وہ سیاح جو ہر سال مدین، بحرین، کالام اور دوسرے سیاحتی مقامات کا رُخ کرتے ہیں، ان کو انتظامیہ نے سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر پہلے ہی سوات چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے علاوہ قیمتی جانوں کو بچانے کی غرض سے دریا کنارے ہوٹلوں کو بھی بند کردیا گیا ہے۔
ساہیوال سے آئے ہوئے ایک مہمان شہزاد نیازی نے کانوں کے لو کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا کہ ’میں دو بار سوات آیا ہوں لیکن پہلی مرتبہ دریا کو اس طرح غصے سے بھرپور دیکھا ہے‘۔
اب اس تباہی کے تخمینے لگائے جائیں گے، دفتر کے دفتر سیاہ کیے جائیں گے، مگر جو اطلاعات ہیں، ان کے مطابق سوات کے خوبصورت سیاحتی مقام مدین کے علاقہ بیلہ میں 3 پُل سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ اب وہاں غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔ صحت کے مسائل الگ سے کھڑے ہوں گے لیکن دوا دارو پہنچانے کے لیے کوئی رابطہ پل بھی نہیں رہا۔
بحرین کے ایک مقامی صحافی اور نوجوان لکھاری رحیم صابر توروالی کے مطابق ’کالام کی طرف سے آنے والے پانی نے اتنا نقصان نہیں کیا، جتنا درال جھیل سے نکلنے والے پانی نے کیا ہے‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’بحرین کے مقام پر درال اور کالام سے آنے والے پانی کا سنگم ہوتا ہے۔ اسی سنگم پر بحرین کا ایک چھوٹا بازار واقع ہے۔ کئی ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ کے ساتھ یہاں ایک مسجد بھی ہے، جو سیلاب کی نذر ہوچکی۔ دریال درے میں بیشتر گھر غرق ہوچکے ہیں۔ اس طرح درال کی سڑک (جو ایک مقامی این جی او نے تعمیر کی تھی) بہہ چکی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی طور پر لکڑی سے بنائے گئے 7 سے 8 پُل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں‘۔
ہمارے اس غم سے بھرے سفر میں کئی بُری اور دل شکن خبروں میں ایک اچھی خبر تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی کہ مدین ہی کے علاقہ ’جرے‘ میں پانی کے ریلے میں پھنسے 13 افراد کو باحفاظت نکال لیا گیا۔ 13 زندگیاں بچ گئیں۔ اس سے اچھی خبر اور کیا ہوسکتی ہے!
ہم پشتون بھی بعض اوقات بڑی عجیب قسم کی حرکتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایک طرف اگر دریائے سوات کی بپھری لہریں ہیں، تو دوسری طرف ان کا مقابلہ کرنے کچھ عقل سے عاری کھوپڑیاں۔
اس سیلاب سے جہاں کچھ لوگ اپنی زندگیاں بچانے محفوظ علاقہ ڈھونڈ رہے ہیں، وہیں کچھ سرپھرے لہروں میں کود کر لکڑیاں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بُری خبر سننے کو ملنا کوئی انہونی نہیں کہ لکڑیاں پکڑنے کی کوشش میں 2 نوجوان لہروں کی نذر ہوگئے۔ ایک کی لاش مل چکی ہے جب کہ دوسرے کی تلاش جاری ہے۔
28 اگست کو اوّلین پانی کے ریلے میں 9 لاشیں دریا سے نکالی جاچکی ہیں جبکہ 2 افراد تاحال لاپتا ہیں۔
اگر سچ کہوں، تو اس تباہی میں ہم برابر کے شریک ہیں۔ دریا کنارے آبادی کی تو پھر بھی کوئی وجہ بن سکتی ہے، لیکن دریا کی زمین گھیر کر اس پر تعمیرات کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے، مگر ہم ہیں کہ خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ گرمی سب کو یکساں لگتی ہے، مگر جب کوئی شجر کٹ کے گرتا ہے، تو تکلیف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گننے والوں کو ہی ہوتی ہے۔ جب ہم قدرت کے بنائے ہوئے توازن میں بگاڑ کی کوشش کریں گے، تو سزا بھی بھگتیں گے۔ سو جان لیں کہ آج یومِ سزا ہے!
یہ ہے اس سوات کی دردناک کہانی ہے، جس کے حُسن کے قصے اکثر سناتے ہوئے پایا جاتا ہوں۔ آج اس کا نوحہ لکھتے ہوئے بخدا انگلیاں شل سی ہوئی جا رہی ہیں۔
اس موقع پر وہ مشہور ٹپہ (پشتو شاعری کی مشہور صنف) یاد آرہا ہے:
ژوند تہ پہ ورستوورستو گورم
لکہ بائیللے جوارگر چی کور تہ زینہ
ترجمہ: بیتی ہوئی زندگی پر سوچتا ہوں، تو ایسے لگتا ہے جیسے ہارا ہوا جواری بوجھل قدموں کے ساتھ واپسی کا راستہ ناپ رہا ہو!
امجد علی سحاب روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو کو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (12) بند ہیں