عدالت کا نیب کو کرتارپور روڈ کی 'تعمیرات میں بے ضابطگیوں' کی تحقیقات کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو کرتار پور روڈ کی تعمیرات میں مبینہ طور پر بے ضابطگیوں کی تحقیقات 3 ہفتے میں مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم خان نے رامیش سنگھ اروڑا کی کرتار پور روڈ کی عدم تعمیر کے خلاف درخواست پر سماعت کی، سماعت کے موقع پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب لاہور شہزاد سلیم بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: کرتار پور راہداری کے ریکارڈ کی وضاحت کیلئے ایف ڈبلیو او کے ڈائریکٹر جنرل طلب
یہاں یہ بات مد نظر رہے کہ درخواست گزر کے مطابق کرتار پور روڈ کا کچھ حصہ تعمیر کیا گیا ہے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ دیگر حصے پر کام مکمل نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ ڈی جی نیب کو بلایا تھا وہ کہاں ہیں، جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ وہ عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی نیب کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا نیب کے پاس کوئی ایسا میکانزم ہے جس سے پتا چل سکے کہ لاہور سے کرتار پور روڑ کی ڈیزائننگ ٹھیک ہے یا نہیں، جس پر ڈی جی نیب نے جواب دیا کہ ہم اس کام کے لیے ایکسپرٹ کی خدمات لیتے ہیں اورہم متعلقہ لیبارٹریز کی خدمات بھی لیتے ہیں جو ہمیں رپورٹ دیتی ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کرتار پور روڑ بنانے میں گھپلوں پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کرتار پور روڑ ٹھیک طریقے سے نہیں بنایا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ جن لوگوں نے اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ نہیں کیا بتایا جائے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر ایسا کیا؟
یہ بھی پڑھیں: ایکنک نے تعمیر شدہ کرتار پور راہداری منصوبے کی منظوری دے دی
انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی حوالے سے ہماری ذمہ داری بناتی ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو سہولیات دیں، کرتارپور روڑ سے اگر کوئی سیکریٹری سفر کرے تو ڈاکٹر اسے 6 ماہ کا آرام لکھ دے گا۔
چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیئے کہ بیرون ملک سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے جو کرتار پور جاتی ہے جبکہ روڑ کی حالت بہت خراب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے وفاقی حکومت نے سڑک بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے یا کیا اقدامات کرنا چاہتی ہے؟
بعد ازاں عدالت نے کرتار پور روڑ کی تعمیر میں کی جانے والی مبینہ مالی بے ضابطگیاں، اس کے میکنزم اور معیار کے حوالے سے نیب کو تحقیقات 3 ہفتے میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔
جس پر ڈی جی نیب نے کہا کہ ہم 3 ہفتے میں رپورٹ جمع کرا دیں گے۔
کون باجوہ صاحب، کیا ہوگیا انہیں؟ صحافی کے سوالات پر ڈی جی نیب کا رد عمل
علاوہ ازیں ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے لاہور ہائیکورٹ میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیئے۔
صحافیوں نے ان سے مریم نواز کو طلب کیے جانے، جنرل (ر) عاصم باجوہ کے خلاف انکوئری کے آغاز اور علیم خان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے متعلق سوالات کیے۔
جس پر ڈی جی نیب نے کہا کہ مریم نواز کو طلب کرنے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا جبکہ انہوں نے سابق جنرل کے خلاف انکوئری پر کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے کون باجوہ صاحب؟ کیا ہو گیا ان کو؟ ہمارے علم میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔
علیم خان سے متعلق سوال پر شہزاد سلیم نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف جلد ریفرنس دائرکر دیں گے۔
کرتار پور راہداری
کرتارپور پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں شکر گڑھ کے علاقے میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔ جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے تھے۔
کرتارپور میں واقع دربار صاحب گوردوارہ کا بھارتی سرحد سے فاصلہ 3 سے 4 کلومیٹر کا ہی ہے۔
سکھ زائرین بھارت سے دوربین کے ذریعے ڈیرہ بابانک کی زیارت کرتے ہیں جبکہ بابا گرونانک کی سالگرہ منانے کے لیے ہزاروں سکھ زائرین ہر سال بھارت سے پاکستان آتے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی۔
تاہم گزشتہ برس اگست 2018 میں سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی دعوت پر وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔
انہوں نے اس تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملے اور ان سے غیر رسمی گفتگو کی تھی۔
اس حوالے سے سدھو نے بتایا تھا کہ جب ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان گرو نانک صاحب کے 550ویں جنم دن پر کرتارپور راہداری کھولنے سے متعلق سوچ رہا ہے۔
بعد ازاں پاکستان نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں کرتارپور راہداری کو مکمل کرلیا تھا، اور وزیراعظم عمران خان نے 28 نومبر 2018 کو اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا تھا۔
جس کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے میں 24 اکتوبر 2019 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری کا منصوبہ فعال کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط ہوئے اور 18 نکات پر مشتمل معاہدے کے تحت 5 ہزار سکھ یاتری، انفرادی یا گروپ کی شکل میں یاتری پیدل یا سواری کے ذریعے صبح سے شام تک سال بھر ناروال میں کرتارپور آسکیں گے، حکومت پاکستان یاتریوں کی سہولت کے لیے شناختی کارڈ جاری کرے گی اور ہر یاتری سے 20 ڈالر سروس فیس وصول کی جائے گی، تاہم سرکاری تعطیلات اور کسی ہنگامی صورتحال میں یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔ کرتار پور راہداری ویزا فری بارڈر کراسنگ ہوگی۔
اس معاہدے کے بعد 3 نومبر 2019 کو وزیراعظم عمران خان نے خود کرتارپور راہداری کی تصاویر شیئر کی تھیں اور کہا تھا کہ کرتارپور سکھ یاتریوں کے خیر مقدم کیلئے کرتار پور پوری طرح تیار ہے اور انہوں نے نومبر 2019 میں راہداری کا باضابطہ افتتاح کردیا تھا۔