منی لانڈرنگ ریفرنس میں سلیمان شہباز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
لاہور کی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قابل ضمانت جبکہ صاحبزادے سلیمان شہباز اور داماد ہارون یوسف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس پر سماعت کی۔
سماعت کے موقع پر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ ریفرنس میں جیل سے لا کرعدالت پیش کیا گیا، ان کے علاوہ نثار احمد، قاسم قیوم، مسرور انور، راشد کرامت سمیت دیگر گرفتار ملزمان کو بھی جیل سے عدالت لایا گیا۔
مزید پڑھیں:شہباز شریف، اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کیلئے منظور
شہباز شریف بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے میرے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے، ایک دھیلے کی ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ٹی ٹی) میرے اکاؤنٹ میں منتقل نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ نیب والے الٹے ہو گئے لیکن ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکے، نیب والے 66 دن حراست میں رکھ کر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکے۔
شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ 1997 سے عوام کی خدمت کی اس میں ایک دھیلے کی ٹی اے ڈی اے نہیں لی، عوام کی خدمت میں اپنی تنخواہ بھی عطیہ کی۔
جج جوادالحسن نے کہا کہ قانون میں ملزم کے بہت سے حقوق ہوتے ہیں، آپ کا پوراموقف سنا جائے گا، اگر استغاثہ کے پاس ثبوت نہ ہوئے تو آپ کے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کے کئی ارب روپے بچائے۔
نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر عاصم ممتاز نے کہا کہ نیب حکام تمام مقدمات قومی فریضہ سمجھ کردائر کرتے ہیں، جس پر جج نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کے وانٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔
عاصم ممتاز نے جواب دیا کہ نصرت شہباز کے پاس کوئی وراثتی جائیداد نہیں تھی لیکن ان کے خاوند شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد جائیدا میں اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف اور اہلخانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کا ریفرنس دائر
نیب کے تفتیشی افسرکا کہنا تھا کہ نصرت شہباز پاکستان میں موجود نہیں ہے، جج نے پوچھا کہ شہباز شریف کی بیٹی جویریہ علی پر کیا الزام ہے اور کیا انہیں شامل تفتیش کیا گیا۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ جویریہ علی کو سوالات بھیجے گئے تھے مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، ملزم علی احمد کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم علی احمد کو مخلتف جگہوں پر تلاش کیا گیا مگر ملزم تک رسائی نہیں ہوئی جبکہ ایک اور ملزم سید محمد طاہر نقوی گرفتاری سے بچنے کے لیے بیرون ملک فرار ہوئے ہیں۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نصرت شہباز اور رابعہ عمران کے بارے میں اطلاع ہے کہ دونوں بیرون ملک فرار ہیں۔
عدالت کو تفتیشی افسر نے بتایا کہ نصرت شہباز، رابعہ عمران اور جویریہ علی کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں مگر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف، سلیمان شہباز، حمزہ شہباز، رابعہ شہباز، نصرت شہباز، نثاراحمد، شاہد رفیق، یاسر مشتاق، محمد مشتاق، آفتاب محمود، محمد عثمان، طاہر نقوی، قاسم قیوم، فاضل داد عباسی اور علی احمد کو نامزد کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف سمیت دیگر کے خلاف چار ملزمان وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں، جن میں شاہد رفیق، یاسر مشتاق، محمد مشتاق اور آفتاب محمود شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں 23 جولائی تک توسیع
احتساب عدالت نے شہباز شریف، ملزم علی احمد اور سید محمد طاہر نقوی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جبکہ شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز اور داماد ہارون یوسف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
عدالت نے ڈی جی نیب کو ملزمان کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا اور آئندہ سماعت پر نصرت شہباز اور شہباز شریف کی دونوں بیٹیوں کو بھی طلب کیا۔
عدالت نے شہباز شریف، ان کے اہل خانہ اور دیگر کے خلاف دائر منی لانڈرنگ ریفرنس پر سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ 21 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کرلیا تھا۔
حمزہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جبکہ سلیمان کو لندن سے واپسی میں ناکامی پر مفرور قرار دیا گیا ہے اور شہباز شریف نے عبوری ضمانت حاصل کررکھی ہے۔
یاد رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو 17 جون تک شہباز شریف کو گرفتار کرنے سے روک دیا
ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کنبے کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔
اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ کے تحت منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔
اس معاملے میں شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے منظور کردہ ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں، ان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت پیر کو ہونا تھی تاہم متعلقہ بینچ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس کی سماعت نہ ہو سکی۔