• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

سوچتا ہوں کہ 600 وکٹیں لینا بڑا کارنامہ ہے یا مسلسل 17 سال کھیلنا؟

شائع August 26, 2020
17 سال تک فٹ رہنا اور کھیلتے رہنا آپ سے اور آپ کے خاندان سے کتنی قربانیاں مانگتا ہے اس کا میں اور آپ صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں—فوٹو: رائٹرز
17 سال تک فٹ رہنا اور کھیلتے رہنا آپ سے اور آپ کے خاندان سے کتنی قربانیاں مانگتا ہے اس کا میں اور آپ صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں—فوٹو: رائٹرز

کسی فاسٹ باؤلر کی طرف سے 600 وکٹیں لینے کا بڑا کارنامہ اگر ایک طرف رکھ بھی دیں تو 156 ٹیسٹ میچ کھیلنا کتنا معنی رکھتا ہے، یہ وہی جان سکتا ہے جس نے کبھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہو۔

17 سال تک فٹ رہنا اور کھیلتے رہنا آپ سے، آپ کے جسم سے اور آپ کے خاندان سے کتنی قربانیاں مانگتا ہے اس کا میں اور آپ صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ اگر جیمز اینڈرسن کی پھینکی ہوئی گیندوں کا حساب ہی لگایا جائے تو اینڈرسن نے صرف ٹیسٹ کرکٹ میں 33 ہزار 717 گیندیں پھینکی ہیں جو ظاہر ہے فاسٹ باؤلرز کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔

جیمز اینڈرسن کا رن اپ 22 سے 24 قدموں کا ہے اور اگر مزید 5 یا 7 قدم پچ پر بھاگنے کے گن لیے جائیں تو ہر گیند کے لیے تقریباً 30 میٹر دوڑنا پڑتا ہے۔ ہلکا سا حساب کریں تو یہ 1000 کلومیٹر بن جاتے ہیں اور پھر واپس رن اپ کے آغاز تک جانے کے 1000 کلومیٹر اس کے علاوہ ہیں اور یہ صرف جیمز اینڈرسن کی پھینکی ہوئی ٹیسٹ گیندوں کے درمیان کا سفر ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ شاید اینڈرسن اس ٹیسٹ میں 600 وکٹیں مکمل کرکے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیں، لیکن فاسٹ باؤلر کے ارادے کچھ اور ہیں اور وہ مزید کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں، اور معاملہ صرف ان کا نہیں بلکہ ان کے کپتان جوئے روٹ، کوچ، سلیکٹرز اور بورڈ سبھی چاہتے ہیں کہ وہ مزید کھیلیں، اور اس کارکردگی کو دیکھنے کے بعد وہ بھلا ایسا کیوں نہیں چاہیں گے؟

جیمز اینڈرسن نے اظہر علی کو آؤٹ کر کے 600 وکٹوں کا سنگ میل عبور کیا — فوٹو: رائٹرز
جیمز اینڈرسن نے اظہر علی کو آؤٹ کر کے 600 وکٹوں کا سنگ میل عبور کیا — فوٹو: رائٹرز

مان لیا کہ اینڈرسن 38 سال کے ہوگئے ہیں اور ان کے اگلے ٹارگٹ یعنی ایشز کے آغاز سے قبل ہی وہ 39 بہاریں دیکھ لیں گے لیکن یہاں اہمیت ان کی عمر کی نہیں بلکہ فٹنس کی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اب تک فٹ بھی ہیں اور وکٹیں بھی لے رہے ہیں۔

اینڈرسن نے پاکستان کے خلاف حالیہ سیریز میں 11 وکٹیں لی ہیں اور تینوں پاکستانی پیسرز نے مل کر 13 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ 30 سال کی عمر کے بعد اینڈرسن 332 وکٹیں حاصل کرچکے تھے جو ویسٹ انڈیز کے کورٹنی واش کی 341 وکٹوں کے بعد کسی بھی فاسٹ باؤلر کی 30 سال کی عمر کے بعد حاصل کی گئی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں۔

جیمز انڈریسن کے ریٹائر نہ ہونے اور مزید کھیلنے کی حمایت میں ایک اور بات جمی کی بڑھتی عمر کے ساتھ بہتر ہوتی کارکردگی ہے۔ بہت سال پہلے کہیں پڑھا تھا کہ شراب جتنی پرانی ہو اتنی ہی بہتر ہوتی جاتی ہے۔ کرکٹ کے میدانوں پر اینڈرسن سے بہتر اس کی کوئی مثال نہیں۔ 2009ء تک 35 کی اوسط سے باؤلنگ کرنے والے اینڈرسن اگلے 4 سال میں 27 اور 2014ء کے بعد 22 سے کم کی اوسط سے وکٹیں حاصل کررہے ہیں۔ 2014ء کے بعد سے ٹیسٹ کرکٹ میں 100 سے زائد وکٹیں حاصل کرنے والے تمام باؤلرز میں سب سے بہتر اوسط اینڈرسن کی ہی ہے۔ اوسط کے ساتھ ہی اسٹرائیک ریٹ اور فی میچ وکٹوں کی تعداد بھی بہتری کی جانب گامزن ہے۔

اس کارکردگی میں بہتری کی بڑی وجہ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والوں کے خلاف پہلے سے بہتر باؤلنگ بھی ہے۔ شروعات میں اینڈرسن کو اس حوالے سے کافی مشکلات پیش آئیں لیکن اب لیفٹ ہینڈرز کے خلاف ریکارڈ بہت بہتر ہوگیا ہے جس کا ثبوت شان مسعود اور لاہیرو تھریمانے کے خلاف ان کا حالیہ ریکارڈ ہے۔

اینڈرسن کے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو ان کی زیادہ تر وکٹیں انگلینڈ کے میدانوں پر ہیں کیونکہ وہاں انہوں نے زیادہ میچ کھیلے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے بیرونِ ملک دوروں پر انگلش بورڈ اینڈرسن کو کم اور نوجوان فاسٹ باؤلرز کو زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ پھر اینڈرسن نے صرف انگلینڈ میں زیادہ وکٹیں ہی حاصل نہیں کیں بلکہ باؤلنگ اوسط بھی انگلینڈ میں بہترین ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی ملکوں میں ان کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ ماسوائے سری لنکا، جمی کی کارکردگی تمام ممالک میں بہتر رہی ہے۔ سب سے حیرت انگیز کارکردگی اینڈرسن کی متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے خلاف رہی جہاں انہوں نے انگلینڈ سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

تو مسلسل فٹ رہنے اور اچھی کارکردگی دکھانے کا نتیجہ 600 وکٹوں کی صورت نکلا ہے، یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو اس سے پہلے کوئی بھی فاسٹ باؤلر انجام نہیں دے سکا۔ جب 700 وکٹوں سے متعلق اینڈرسن سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا ’کیوں نہیں‘۔

اینڈرسن کے مطابق ’مجھے ابھی بھی ٹریننگ کرنا، ڈریسنگ روم میں لڑکوں کے ساتھ موجود رہنا اور انگلینڈ کے لیے ٹیسٹ جیتنا اچھا لگتا ہے، مجھے اس میں لطف آتا ہے، اور یہی میں ساری عمر کرتا آیا ہوں اور یہی میں کرتا رہوں گا۔ میں جم میں ٹریننگ جاری رکھوں گا اور خود کو مکمل فٹ اور سلیکشن کے لیے تیار رکھوں گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس دوران سلیکٹرز، کوچ اور کپتان فیصلہ کریں گے کہ مجھے کون سا میچ کھیلنا ہے اور کس میچ میں کسی نوجوان کو موقع دیا جائے گا۔ مقصد ہر طرح کے حالات میں انگلینڈ کی بہترین ٹیسٹ الیون کھلانا ہے لیکن جب تک وہ مجھے ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں میں اپنی پوری کوشش جاری رکھوں گا۔ جوئے روٹ سے میری اس بارے میں بات ہوئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ آسٹریلیا کے خلاف مجھے ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں‘۔

اس انگلش سیزن سے پہلے شاید ہی کسی کو یقین ہو کہ اینڈرسن 600 وکٹیں لینے کا کارنامہ اسی سیزن میں انجام دے دیں گے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی تو کورونا وائرس تھی، جس کی وجہ سے یہی اندازہ مشکل تھا کہ کھیل کی بحالی کب تک ممکن ہوسکے گی۔ پھر اینڈرسن کا ایسے موقع پر کھیلنا بہت مشکل لگ رہا تھا جب تسلسل کے ساتھ میچ ہو رہے ہوں۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف تو اینڈرسن کی کارکردگی مناسب تھی، اور اس کو دیکھتے ہوئے یہ بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف سیریز میں 11 وکٹیں حاصل کرسکیں گے، اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب بارش کی وجہ سے میچ متاثر ہونے کا امکان زیادہ تھا۔ لیکن شاید انہی بارشوں اور ضائع ہوتے وقت نے جمی اینڈرسن کی تینوں ٹیسٹ میں شمولیت میں مدد کی اور یوں آخری اننگ سے پہلے جمی 598 تک پہنچ چکے تھے۔

بظاہر تو مزید 2 وکٹوں کا حصول آسان لگ رہا تھا، لیکن مسلسل بارش اور ان کی گیند پر 3 کیچ چھوٹنے کے بعد لگ رہا تھا کہ شاید قسمت ان کے ساتھ نہیں ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش تھا، اور وہ دوسری اننگ میں اینڈرسن کا باؤلنگ ریکارڈ تھا، کیونکہ اگر آخری پانچ ٹیسٹ میچوں کا ذکر کریں تو انہوں نے دوسری اننگ میں صرف 2 وکٹیں حاصل کیں جو اسی آخری اننگ میں حاصل کی گئیں

اننگ شروع ہوئی تو بٹلر نے اینڈرسن کی گیند پر شان مسعود کا کیچ چھوڑ دیا۔ چوتھے دن آخرکار اینڈرسن نے عابد علی کی وکٹ حاصل کی تو بارش کی وجہ سے مزید کھیل ممکن نہیں ہوسکا۔

پانچویں دن کا تو آغاز ہی زبردست بارش سے ہوا اور میچ کا نتیجہ تو سبھی کو معلوم ہوچکا تھا، اس لیے اب اس میچ میں صرف ایک ہی دلچسپی باقی رہ گئی تھی کہ کیا اینڈرسن وہ ایک وکٹ حاصل کرسکیں گے یا نہیں؟

میدان خشک کرتے کرتے جب دوپہر ہوئی تو یہ سوال بدل چکا تھا۔ نیا سوال تھا کہ کیا اینڈرسن کو ایک وکٹ لینے کا موقع بھی مل پائے گا؟ لیکن پھر میدان خشک بھی ہوا اور دن کے چھٹے اوور کی ایک گیند تیزی سے اٹھی اور اظہر علی اپنا بلا ہٹانے میں ناکام رہے اور گیند بلے کے کنارے سے لگ کر سیدھی جوئے روٹ کے ہاتھوں میں چلی گئی جو اس وقت واحد سلپ میں موجود تھے۔ یوں آخرکار قسمت اینڈرسن پر مہربان ہو ہی گئی۔

لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ قسمت اور کتنے دن اینڈرسن پر مہربان رہتی ہے۔ ساتھ ان کا جسم مزید کتنے اوورز کا دباؤ برداشت کرپاتا ہے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024