• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

حیات بلوچ کا معاملہ سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے، مولانا عبدالغفور حیدری

شائع August 24, 2020 اپ ڈیٹ August 25, 2020
بلوچستان میں حیات بلوچ کے قتل کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے—فائل/فوٹو:ڈان
بلوچستان میں حیات بلوچ کے قتل کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے—فائل/فوٹو:ڈان

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے طالب علم حیات بلوچ کے قتل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حیات بلوچ کا معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر سکتا ہے۔

سینیٹ اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ حیات بلوچ کو والدین کے سامنے قتل کیا گیا جبکہ طالب علم سے کوئی اسلحہ بھی برآمد نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے قتل کر دیتے ہیں پھر تفتیش شروع کی جاتی ہے، والدین نے حیات بلوچ کو ایک دیہات سے پڑھائی کے لیے کراچی بھیجا تھا اور جب کورونا کی وجہ سے واپس آیا تو بھی وہ محنت مزدوری کر رہا تھا۔

مزید پڑھیں:حیات بلوچ کا قتل ناقابل قبول، جرم کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے، شیریں مزاری

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف نہیں تھا تو پھر ان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، صوبائی حکومت کے اختیارات صلب ہیں۔

سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ حیات بلوچ کا معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر سکتا ہے، اگر یہ لوگ ملک دشمن ہوتے تو یہ لوگ انتخابات کو کیوں مانتے یا انتخابات میں حصہ کیوں لیتے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر یہ الزام آخر کب تک لگتا رہے گا اور بچوں کو قتل کیا جائے گا، آج بھی بچے جو مظاہرے کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ریاست اور ملک کے خلاف نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا جائے گا تو کیا وہ گلدستے پیش کریں گے، بچے کہتے ہیں کہ یہ ریاستی ادارے ہمارے خلاف کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ 13 اگست کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربیت میں ایف سی کے قافلے پر ہونے والے دھماکے کے بعد کھجوروں کے باغات میں موجود جامعہ کراچی کے طالبعلم حیات بلوچ کو پکڑا گیا تھا، جس کے بعد ایف سی اہلکار نے فائرنگ کرکے مبینہ طور پر اسے قتل کردیا تھا۔

واقعے کے 3 روز بعد پولیس نے ایف سی کے ایک اہلکار کو گرفتار کیا تھا اور مقتول کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج ہونے کے بعد تفتیش شروع کی تھی۔

واقعے سے متعلق ایف سی بلوچستان نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ 13 اگست کو تربت میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں نے ابصار کے علاقے میں ایک ایف سی قافلے کو آئی ای ڈی (دیسی ساختہ دھماکا خیز مواد) سے نشانہ بنایا اور اس کے نتیجے میں ایک نان کمیشنڈ افسر سمیت 3 اہلکار زخمی ہوگئے۔

بیان کے مطابق واقعے کے بعد علاقے میں موجود حیات بلوچ سمیت کچھ مقامی لوگوں سے واقعے کے بارے میں پوچھ گچھ کی جارہی تھی کہ دوران تفتیش ایف سی کے سپاہی نائیک شاہد اللہ نے غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں حیات بلوچ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

یہ بھی پڑھیں:حیات بلوچ کے قتل کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

بیان میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ یہ ایک فرد کا جرم تھا لیکن ایک ادارے کی حیثیت سے ایف سی بلوچستان نے اندوہناک واقعے اور دہشت گردوں کی جانب سے آئی ای ڈی دھماکے کی شدید مذمت کی تھی اور متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔

ایف سی جنوبی کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل سرفراز علی نے تربت میں حیات بلوچ کے گھر کا دورہ کیا تھا اور اس کے والد اور اہل خانہ کے دیگر افراد سے تعزیت کی اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی تھی۔

سینیٹ میں مختلف بلز منظور

سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل پیش کیا، جس کو منظور کرلیا گیا۔

بل میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بشمول چیف جسٹس 7 سے بڑھا کر 10 کی جائے۔

وفاقی ویر سینیٹر فیصل جاوید نے صوبائی موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965 میں مزید ترمیم کا بل پیش کیا اور اس کو بھی منظور کرلیا گیا۔

سینیٹ اجلاس کے دوران پانی کی تقسیم کے لیے ٹیلی میٹرنگ سسٹم نصب کرنے سے متعلق تحریک ایوان میں پیش کی گئی۔

سینیٹر گیان چند کی جانب سے تحریک پیش کی گئی اور کہا گیا کہ پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے ٹیلی میٹرنگ سسٹم انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ تاحال ٹیلی میٹرنگ سسٹم کیوں نہیں لگایا گیا، پانی کی تقسیم سے متعلق پہلے بھی سوالات اٹھتے ریے ہیں، اس حوالے سے ایوان کو تمام حقائق سے آگاہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:انسداد دہشت گردی ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور

سینیٹر ثنا جمال نے کہا کہ پانی کی چوری روکنے کے لیے ٹیلی میٹرنگ سسٹم لگایا جائے، اگر یہ کام نہ ہوا تو پھر حیات بلوچ جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔

سینیٹر سکندر میندھرو کا کہنا تھا کہ ارسا اور واپڈا سمیت دیگر اداروں کی رپورٹس میں فرق ہوتا ہے، یہ مسئلہ آگے چل کر پاکستان کی سیکیورٹی کا مسئلہ بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں مزید تاخیر کے اثرات خطرناک ہوں گے۔

سینیٹر رخسانہ زبیری کا کہنا تھا کہ اتنی بارشیں ہو رہی ہیں اور سارا پانی نالوں میں ضائع ہو رہا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ سندھ بیراج کا مسئلہ اٹھایا ہوا ہے لیکن چیئرمین واپڈا کمیٹی میں پیش تک نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے کے چیئرمین آج کمیٹی میں پیش ہوئے، ایک جنرل صاحب تو کمیٹی میں آئے تھے لیکن دوسرے جنرل صاحب نہیں آسکتے۔

پانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ارسا مرضی سے ارکان کا تقرر کر رہا ہے۔

اس موقع پر سینیٹر جاوید عباسی نے بل پیش کیا کہ اسلام آباد میں واٹر سائٹ سیفٹی اتھارٹی قائم کی جائے۔

اپوزیشن سینیٹر کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں نوجوان ڈیموں اور نہروں میں ڈوب جاتے ہیں لیکن اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی گئی۔

اقلیتوں کے تحفظ کا بل پیش

سینیٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل بھی پیش کیا گیا۔

بل میں کہا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور توہین آمیز مواد تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں ہوگا، مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب تبدیلی کی ممانعت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:سینیٹ نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق مزید دو بل منظور کرلیے

اقلیتوں کے حقوق کے بل میں کہا گیا کہ جبری مذہب تبدیلی پر متاثرہ شخص کو حکومت تحفظ اور معاونت فراہم کرے گی، جبری مذہب تبدیل کروانے والے کو 7 سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔

بل کے مطابق بین المذاہب جبری شادی کی ممانعت ہو گی، کم عمر مذہبی اقلیت کی بین المذاہب شادی کو جبری شادی تصور کیا جائے گا اور اس جبری شادی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔

جبری شادی کے مرتکب افراد کے لیے سزا کے طور پر 10 سال تک سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا اور اسی طرح کم عمر مذہبی اقلیت کی شادی کرنے والے کو 14 سال تک قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں واضح کیا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہوگا، مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز تقریر پر 3 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔

بل کے مطابق مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے جرم کے مرتکب کو 3 سال سزا اور 50 ہزار جرمانہ ہوگا، مذہبی اقلیتوں کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے والے کو ایک سال سزا اور 25 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔

سینیٹ میں پیش کردہ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت مذہبی اقلیتوں کے مذہبی اثاثوں کا تحفظ کرے گی اور اقلیتوں کے مذہبی اثاثوں کو نقصان پہنچانے والے کو 7 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تمام جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024