'عمران خان کہیں نہیں جا رہے'
امریکی جریدے نے وزیراعظم عمران خان کو اپنی مقررہ مدت پوری کرنے والے پہلے وزیراعظم بننے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ تبصروں اور خدشات کے باوجود وہ کہیں نہیں جارہے۔
فارن پالیسی ڈاٹ کام نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ پاکستان کے مشہور کالم نگار سہیل وڑائچ نے اپریل میں پیش گوئی کی تھی کہ وزیراعظم عمران خان حکومت کے دوسال مکمل ہونے سے قبل ہی جون میں چلے جائیں گے لیکن کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔
جون آیا اور چلا بھی گیا مگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت اپنی جگہ موجود ہے۔
مزید پڑھیں:اسکینڈلز، تنقید اور تنازعات کے دو سال، وفاقی کابینہ میں چہروں کی تبدیلیاں
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی مسائل، سیاسی اسکینڈلز اور عوامی پالیسی کے محاذ پر چیلنجز کے باعث وزیراعظم عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دن گنے جانے کی پیش گوئی کرنے والے مبصرین میں سہیل وڑائچ اکیلے نہیں تھے بلکہ ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
تبصرہ نگار کے مطابق بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 'ایک سیاسی طوفان ممکنہ طور پر حکومت کو اڑا دے گا' اور دیگر کا دعویٰ ہے کہ حکومت خود گرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
تجزیے میں کہا گیا کہ بعض افراد کے مطابق پارلیمانی اقدام کے ذریعے حکومت کو چلتا کردیا جائے گا اور اس کی جگہ ایک عبوری انتظام کیا جائے گا۔
فارن پالیسی ڈاٹ کام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم نے آج تک اپنی مدت پوری نہیں کی ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے عمران خان کے عدم استحکام کی بات سمجھ میں آتی ہے جہاں فوج براہ راست حکومت میں نہ ہونے کے باوجود سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔
تبصرے کے مطابق عمران خان کمزور ہوسکتے ہیں لیکن مخالفین ان کے لیے خطرہ نہیں ہیں، درحقیقت وہ اپنی مدت پوری کرنے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بننے کے لیے مضبوط ہیں، جس کی وجہ اپوزیشن کی مجبوریاں، چند ذاتی اور پالیسی کی کامیابی اور ان سب سے زیادہ ان کی پشت پر فوج کی مکمل آشیرباد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رہنماؤں کے اختلافات نے پی ٹی آئی کے سیاسی لوگوں کو باہر کردیا، فواد چوہدری
تبصرے کے مطابق عمران خان تپش کو تو محسوس کررہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے اندر طویل مخاصمت کی تصدیق رواں برس جون میں ہوئی تھی جب وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹی وی پر آکر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کے درمیان تکرار کے حوالے سے بات کی تھی۔
امریکی جریدے نے انکشاف کیا کہ اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے وزیراعظم عمران خان سے فواد چوہدری کو فارغ کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی بازگشت کے دوران دو بڑے اسکینڈلز بھی سامنے آئے، جون میں ایوی ایشن کے وزیر نے اعتراف کیا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) سمیت پاکستان کے 900 پائلٹس میں سے ایک تہائی کے پاس جعلی لائسنس ہیں اور وہ پروازوں کے لیے اہل نہیں ہیں۔
عمران خان کے حامی ان اسکینڈلز کو ماضی سے جوڑتے ہیں لیکن اس انکشاف نے زیادہ نقصان پہنچایا۔
تبصرہ نگار کا کہنا تھا کہ مئی میں حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی چینی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ جاری کردی جس میں مبینہ طور پر جہانگیر ترین سمیت حکمراں اتحاد میں شامل دیگر رہنماؤں کی کرپشن اور فراڈ سے متعلق سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا گیا تھا۔
حکومت کے لیے اس رپورٹ کو بدنامی کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس طرح کے اسکینڈلز کسی بھی سیاسی رہنما کے لیے خوف ناک ہوتے ہیں اور یہ خاص طور پر عمران خان کے لیے مسئلے کا باعث ہوسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی پہچان بے داغ اور کرپشن سے پاک رہنما کے طور پر کروائی ہے۔
معاشی ابتری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ سب کچھ کورونا وائرس کے وبائی حالات اور ملک کی گرتی ہوئی معاشی ساکھ کے دوران ہورہا تھا اور معاشی شرح نمو ایک فیصد سے بھی نیچے گر گئی ہے جبکہ عمران خان کو 2018 میں تقریباً 6 فیصد شرح نمو ملی تھی۔
مزید پڑھیں: ’نئے پاکستان‘ میں عمران خان نے کتنے یوٹرن لیے؟
تبصرے میں مزید کہا گیا کہ 2018 تک کبھی قومی سطح پر حکومت کا تجربہ نہ رکھنے والی جماعت کے لیے پالیسیوں میں ہنگامی حالات کا سامنا کرنا پڑا اور ایسے چیلنجز کے دوران ان کی ناتجربہ کاری سے یہ تصور مضبوط ہوا کہ یہ معاملات حکومت کی سمجھ سے بالاتر ہیں، مؤثر جواب کے لیے کمزور فیصلہ سازی اور نااہلی کے باعث انہیں فوج کی مدد کے لیے دیکھنا پڑا۔
مبصر کا کہنا تھا کہ فروری میں پاکستان کے دورے میں پی ٹی آئی کے حامیوں سمیت کئی لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور انہوں نے عمران خان کے معاشی اقدامات کے باعث 'نااہل' سے تعبیر کیا اور یہاں تک کہ 2019 میں ہونے والے پولز میں پی ٹی آئی کے دیگر وزرا کے بارے میں بھی پاکستانیوں کی اکثریت کی رائے یہی تھی۔
فارن پالیسی ڈاٹ کام نے بتایا کہ حکومت نے ناتجربہ کاری کے حل کے لیے بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ معاونین خصوصی تعینات کیے تاہم متعدد کے ساتھ دوہری شہریت کا مسئلہ پیش آیا اور 29 جولائی کو ان میں سے دو نے استعفیٰ دے دیا۔