پولیو اور کورونا سے مقابلے کے دوران 1166 ہیلپ لائن غلط معلومات اور خطرات کو کیسے دور کررہی ہے؟
لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 3 صحت تحفظ 1166 ہیلپ لائن سینٹرز میں 250 کال 'ایجنٹس' کے لیے یہ ہفتہ خاص طور پر کافی مصروف رہا ہے۔
کال ایجنسٹس کو 'کیوں کوئی پولیو ورکر ہمارے گھر نہیں آرہا' سے لیکر والدین کی جانب سے اس طرح کی کالز موصول ہورہی ہیں جس میں یہ پوچھا جارہا ہے کہ قطرے پلائے جانے کے بعد بھی کیوں ان کے بچے ٹھیک نہیں ہورہے اور آیا ویکسین حلال ہے، اس کے ساتھ ہی بچوں کی دیگر بیماریوں کی معمول کی ویکسینیشن سے متعلق دیگر کالز پر پوچھی جانے والی معلومات کو بھی ہیلپ لائن دیکھ رہی ہے۔
پولیو سے متعلق مزید سوالات پوچھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ کووڈ 19 کے بعد پولیو کے خاتمے کے سلسلے میں دوسری مہم جاری ہے، جو 13 اگست سے شروع ہوئی اور 21 اگست تک ملک کے 130 اضلاع میں جاری رہے گی۔
پاکستان اور اس کا پڑوسی افغانستان وہ دو ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس مسلسل بچوں کو متاثر کر رہا ہے، رواں سال پاکستان میں اب تک 65 وائلڈ پولیو وائرس کیسز سامنے آچکے ہیں جس میں (پنجاب میں 6، سندھ میں 21، خیبرپختونخوا میں 22، بلوچستان میں 16) کیسز شامل ہیں۔
اس کے برعکس سال 2019 میں کیسز کی تعداد 147 تھی جبکہ 2018 میں 12 اور 2017 میں 8 بچے اس وائرس کا شکار ہوئے تھے۔
پولیو کے خاتمے کے لیے قومی معاون ڈاکٹر رانا محمد صفدر کہتے ہیں کہ ' مہم کے دوران 5 سال سے کم عمر 3 کروڑ 44 لاکھ بچوں کو ویکسین دی جائے گی جس میں پنجاب کے 33 اضلاع میں ایک کروڑ 78 لاکھ 60 ہزار، سندھ کے 41 اضلاع میں 92 لاکھ 60 ہزار، خیبرپختونخوا کے 21 اضلاع میں 45 لاکھ 60 ہزار، بلوچستان کے 25 اضلاع میں 21 لاکھ اور آزاد کشمیر کے تمام 10 اضلاع میں 6 لاکھ 70 ہزار بچے شامل ہیں'۔
اس کے علاوہ 59 ماہ سے کم عمر کے تقریباً 3 کروڑ 10 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطروں کے ساتھ وٹامن-اے سپلیمنٹ بھی دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 'اس سے تمام معتدی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کو مزید تقویت ملے گی'۔
خرافات ختم کریں، خدشات دور کریں
ہر ایجنٹس اپنی 8 گھنٹے کی شفٹ میں اوسطاً 300 کالز موصول کرتا ہے جس میں ویکسین سے متعلق خرافات اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ، شکایات کو سننا اور شکایات حل ہونے کی یقین دہانی کرانے کا مشکل کام شامل ہے، اس کے ساتھ ہی انہیں نامناسب زبان برداشت کرنا اور مذاق کرنے والے کالرز کو سنبھالنا بھی پڑتا ہے۔
اگرچہ کالرز کی اکثریت ان سے درخواست کرتی ہے کہ ان کے علاقوں میں پولیو کی ٹیم بھیج دیں تاہم ایجنٹس کو بڑی تعداد میں کال موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں پوچھا جاتا ہے کہ آیا ویکسین حلال ہے یا یہ بچوں میں بانچھ پن پیدا کرے گی۔
نادیہ افشین جنہوں نے ہیلپ لائن کو کچھ ماہ قبل بطور ایجنٹ جوائن کیا تھا اور اب وہ سپروائزر ہیں، وہ اس مدت میں منفی خاص طور پر ناگوار صورتحال سے کافی سیکھ چکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'میں نے مختلف مذہبی اسکالرز کے فتوے پڑھے ہیں لیکن اگر اب بھی وہ قائل نہیں ہوتے تو میں انہیں کہتی ہوں کہ اگر ویکسین حرام ہے تو کیا حکومت حج اور عمرہ کے لیے مقدس مقامات پر جانے والوں کو یہ قطرے پلائے گی؟
ہیلپ لائن میں کام کرنے والے ایک اور ایجنٹ 22 سالہ ایمن شاہد کہتے ہیں کہ ویکسین سے متعلق لوگوں کو کچھ خدشات ہیں کہ بچوں کی نس بندی کی جارہی یا ان کے جنس میں تبدیلی کی جارہی ہے حالانکہ ایجنٹس انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ' ہم مسلسل اس طرح کی کالز موصول کر رہے ہیں'۔
عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران لوگوں کی خدمت کے لیے ایک انجینئرنگ یونیورسٹی سے حال ہی میں گریجویٹ کرنے والے ایمن شاہد کے لیے کالز اور کالرز کو سنبھالنا ایک سیکھنے کا عمل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے توازن کے ساتھ کچھ مشکل کالز کو سنبھالنا سیکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'کچھ کالرز آپ کو اشتعال دلا سکتے ہیں، کچھ نامناسب الفاظ کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن میں نے صبر کرنا سیکھا ہے'۔
ادھر اپنے ساتھیوں کے آنسوؤں کو پہنچنے والی اور انہیں حوصلہ دینے والی نادیہ افشین کہتی ہیں کہ 'یہاں تک کہ جب کالرز جارحانہ انداز اپناتے ہیں، ہمیں تحمل رکھنا ہوتا ہے اور جب تک کال ختم نہیں ہوتی ہم شائستہ رویہ ہی اختیار کرتے ہیں'۔
ان کے مطابق بعض اوقات کالز بہت پریشان کن ہوسکتی ہیں اور آپ پر بھاری ہوسکتی ہیں لیکن ایسے میں صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔
مزید یہ کہ اس طرح کے فون کرنے والے بھی ہیں جو جاننا چاہتے ہیں کہ آیا پولیو ویکسین بھارت میں بنی ہے جبکہ بہت سے یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ غیر ملکی ہاتھ پاکستانی بچوں کی نس بندی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ایمن شاہد ہوسکتا ہے کہ ہیلپ لائن میں شعبہ صحت کی مدد کے لیے شامل ہوئے ہوں لیکن آج وہ نہ صرف پولیو بلکہ بچوں کی ان دیگر 9 بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں جس کی مفت ویکسین حکومت 1974 میں شروع ہونے والے حفاظتی ٹیکوں سے متلعق توسیعی پروگرام کے ذریعے فراہم کر رہی ہے۔
ان کے بقول 'جب ہم یہاں شامل ہوئے تو ہمیں 5 دن کی تربیت دی گئی لیکن ہر ہفتے تازہ دم کرنے کے لیے 2 سے 4 گھنٹے رکھے جاتے ہیں'۔
نادیہ افشین کہتی ہیں کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ میں نے پہلے کبھی پولیو کو اتنا سنجیدہ لیا ہو جتنا اب لے رہی ہوں'، ساتھ ہی انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ان کا گھرانہ ان میں شامل تھا جو لوگ مناسب وقت نہ ہونے پر پولیو ورکرز کو اکثر واپس بھیج دیا کرتے تھے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے اب یہ احساس ہورہا ہے کہ یہ اس مہم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور میں ان کی کوششوں کو سلام پیش کرتی ہوں'۔
کووڈ کے خطرے میں 1166 کا کردار
اگرچہ ابتدائی طور پر یہ ہیلپ لائن کووڈ 19 کے وہائی مرض کے ساتھ والدین کو پولیو اور دیگر بچوں کی بیماریوں سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی ، تاہم ساتھ ہی حکومت نے اسے کورونا وائرس کے لیے بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہیلپ لائن کی پروجیکٹ منیجر ہما شوکت کہتی ہیں کہ 'ابتدائی دنوں میں یومیہ صرف کچھ سو کالز کو 55 تربیت یافتہ ایجنٹس سنبھالتے تھے اور اب یہ کالز کی تعداد بڑھ کر 80 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، ہم نے اس کے لیے مزید ایجنٹس کو رکھا اور تربیت دی اور آج ہمارے پاس ان کالز کو سنبھالنے کے لیے 250 لوگ موجود ہیں'۔
ایجنٹس شفٹوں میں کام کرتے ہیں جس کا آغاز ہفتے کے ساتوں دن روزانہ صبح 8 بجے سے ہوتا ہے اور یہ آدھی رات تک جاری رہتا ہے۔
ہما شوکت کے مطابق آج اوسطاً نصف کالز پولیو اور دیگر ویکیسن سے روکی جانے والی بیماریوں سے متعلق ہوتی ہیں جبکہ آدھی کالز کووڈ 19 سے متعلق میں ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق کورونا وائرس کے لیے ہمارے پاس 18 ڈاکٹرز ہیں جو پہلے ہی اسکرینڈ ہونے والے کالرز کو علامات ہونے کے شبہ میں سنبھالتے ہیں۔
سب سے عام کال
ہما شوکت کہتی ہیں کہ پولیو کے لیے سب سے عام شکایت یہ ہوتی ہے کہ ویکسینیشن ٹیم ان کے علاقوں میں نہیں پہنچی، 'ہم فوری طور پر اسے دیکھتے ہیں اور ٹیم بھیجتے ہیں اور پھر کالر سے ٹیم کے پہنچنے کی تصدیق کرتے ہیں'۔
ان کے مطابق حقیقت میں وہ اس طرح کی کالز کو خوش آمدید کہتے ہیں چونکہ اس طریقے سے وہ 'رہ جانے والے کسی بچے کو ویکیسن' دینے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اور جب بچے میں پولیو کا شبہ ہوتا ہے تو اکثر والدین ہیلپ لائن سے رہنمائی کے لیے رابطہ کرتے ہیں، 'ہم انہیں بتاتے ہیں کہ پولیو ٹیسٹ کے لیے کہاں جائیں (کیونکہ) زیادہ تر لوگ نہیں جانتے یا اگر بچے میں واقعی میں پولیو ہے تو کون تصدیق کرسکتا ہے'۔
اس کے علاوہ اور بھی لوگ ہیں جو 1166 پر کال کرتے ہیں یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا یہ ان کے قریبی ویکیسنیشن سینٹر کی تلاش میں مدد کرسکتی ہے۔
ہما شوکت کے مطابق وہ اس وقت وہاں تھی جب ہیلپ لائن کا تصور ذہن میں اور کاغذ پر موجود تھا، اس ہیلپ لائن نے ان والدین تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا جنہوں نے پہلے کبھی اپنے بچوں کو ویکسین نہیں دلوائی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ' 1166 (ہیلپ لائن) نے والدین کا اعتماد قائم کرنے میں مدد کرنے کے ساتھ غلط فہمیاں دور کی ہیں'۔
ڈاکٹر رانا محمد صفدر کہتے ہیں کہ سب سے اہم 'ان کالز کے ذریعے لوگوں کے جذبات اور تاثرات کا اندازہ لگانے کی وجہ سے ہمیں پروگرام کی نگرانی اور رہنمائی میں مدد فراہم کی ہے'۔
ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔