• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کسی جمہوریت میں آپ جبری گمشدگیاں نہیں کرسکتے، شیریں مزاری

شائع August 19, 2020
وفاقی وزرا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی دوسالہ کارکردگی سے آگاہ کیا— فوٹو: اے پی پی
وفاقی وزرا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی دوسالہ کارکردگی سے آگاہ کیا— فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ جمہوریت کے لیے جبری گمشدگی کا مسئلہ حل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ کسی جمہوریت میں آپ جبری گمشدگیاں نہیں کر سکتے۔

اسلام آباد میں حکومتی وزرا نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی دو سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ففتھ جنریشن وار میں ملوث ہیں ان کا مقصد ہے کہ دو طرح کی چیزیں ہوں، ایک افرا تفری اور دوسری ناامیدی پھیلے۔

مزید پڑھیں: وفاق اور سندھ کے درمیان رابطہ کمیٹی بنانے پر اتفاق

انہوں نے کہا کہ ہم مافیا کی نمائندگی کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے، ہم اُمید کرتے ہیں کہ تمام عوام ہمارے ساتھ ہیں اور ہم تمام سازشوں کو شکست دے دیں گے جیسا کہ ہم اب تک کرتے آئے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ قوم ترقی کی راہ پر چل پڑی ہے، معیشت بحال ہو گئی ہے، جتنی بھی اچھی خبریں آ رہی ہیں وہ صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے اچھی خبریں ہیں لیکن اپوزیشن کے لیے بہت بری خبریں ہیں۔

سادگی مہم کے تحت 75 کروڑ کی بچت کی، وفاقی ویزر مواصلات

وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو وژن دیا اور وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی تقریر میں جو بنیادی اصول سامنے رکھے، ہم نے اپنی وزارت میں کوشش کی کہ ہم ان اصولوں پر اپنی ذمے داری نبھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیر اعظم کی سادگی مہم میں حصہ لیا اور 75 کروڑ کی بچت کی اور شفافیت کے لیے وزارت مواصلات نے سب سے پہلے اپنے منصوبوں پر ای بلنگ کا آغاز کیا اور جتنے بھی منصوبے تھے وہ ای پروکیورمنٹ پر لے گئے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں جتنی بھی پروکیورمنٹ ہو گی، 30 ستمبر تک اس میں 100فیصد ای پروکیورمنٹ پر چلے جائیں گے مطلب ای بڈنگ، ای بلنگ اور ای ٹینڈرنگ پر مکمل طور پر چلے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 75 کروڑ کی سیونگ کی اور ہم نے شفافیت یقینی بنانے کے لیے اسپیشل آڈٹ کر کے 12 ارب 56 کروڑ روپے کی ریکوری کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر صحت سندھ نے کورونا کے خاتمے تک پرائمری اور مڈل اسکول کھولنے کی مخالفت کردی

انہوں نے کہا کہ شفافیت اور احتساب کے بعد خود انحصاری کی بات آ جاتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سڑکیں تو بنائیں لیکن یہ اپنا ریونیو پیدا کر کے اپنے پیسے سے بنائیں اور خود انحصاری کی بدولت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا ریونیو 53 ارب سے 103 ارب پر چلا گیا جو 92.2 فیصد کا اضافہ بنتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خود انحصاری کو آگے لے کر جانے کے لیے وزیر اعظم کا وژن تھا کہ ایسے منصوبے لے کر آئیں جن میں سرمایہ کاری آئے، لوگوں کو روزگار ملے، معاشی سرگرمیاں بھی ہوں، کسانوں کو آسانی ہو اور سیاحتی مقام تک آپ سڑکیں پہنچائیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں کے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنائے گئے منصوبوں میں آخری دو سال میں سے کسی کا آڈٹ نہیں ہوا تھا، ہمارے اس سال آٹھ منصوبے ہیں، حیدرآباد سکھر کی کمرشل فیزیبلیٹی مکمل ہو گئی، یہ 306 کلومیٹر کا منصوبہ، ایکنک سے منظوری بھی ہو چکی ہے اور اس کا ای او آئی آ گیا ہے اور مارچ میں اس کا کام شروع ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ پنڈی موٹروے کی فزیبلیٹی بھی مکمل ہو چکی ہے اور یہ موٹر وے قومی اسمبلی کے 46 حلقوں سے گزرے گی بجکہ اس کے علاوہ میانوالی، بلکسر اور مظفرگڑھ سڑک بھی ہم پبلک پرائیویٹ پارٹرشپ کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی حکومت آنے والی نسلوں کیلئے بھی غیرسنجیدہ دکھائی دیتی ہے، مرتضیٰ وہاب

مراد سعید نے کہا کہ اس طرح سوات موٹر وے کا بھی دوسرا فیز شروع ہو جائے گا، کراچی چمن کوئٹہ 700 کلومیٹر سے زائد کی سڑک ہے، اس کی فزیبلیٹی پر بھی کام شروع ہو گیا ہے اور ہمارے منصوبوں میں سرمایہ کاری بھی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں 117 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ملتا تھا لیکن جو منصوبے ہم پبلک پرائیویٹ پراٹنرشپ کے تحت لے کر آرہے ہیں یہ 500 ارب سے زائد بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے پوسٹل استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن سب نے دیکھا کہ لوگوں کا اعتماد بحال ہوا اور انہوں نے اسے استعمال کرنا شروع کردیا۔

اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر مواصلات نے کہا کہ ہم نے پہلے مہینے سے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم شروع کیا، پارسل جلدی پہنچانے کے لیے یو ایم ایس کا آغاز کردیا جبکہ بیرون ملک پارسل کی ترسیل کے لیے ای ایم ایس پلس کا کام شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے غیرملکی زرمبادلہ کی سروس شروع کی جس سے آپ کو بغیر کسی کٹوتی کے گھر کی دہلیز پر رقم مل جاتی ہے اور ہم نے ای کامرس کا آغاز کرنا تھا تو ہم 1500 چھوٹے بڑے برانڈز کے ساتھ معاہدہ کیا اور ہم ان کے ڈیلیوری پارٹنر بن گئے۔

یہ بھی پڑھیں: جو درخواست دیکھو ایسا لگتا ہے قانون صرف کمزور کیلئے ہے، عدالت

ان کا کہنا تھا کہ موٹر وے پر ایکسیڈنٹ کی صورت میں رسپانس ٹائم 7 منٹ تھا اور اب ہم اسے کم کر کے دو منٹ تک لے آئے ہیں جبکہ موٹر وے پر نگرانی کے لیے ہم ڈرون ٹیکنالجی کے استعمال کے سلسلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے بات چیت بھی کر رہے ہیں کیونکہ اس سے افرادی قوت میں کمی آئے گی۔

درآمد شدہ معیشت کو مینوفیکچرنگ اکانومی بنایا، فواد چوہدری

اس کے بعد وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ وزرا نے اپنی کارکردگی اس طرح پیش کی ہو۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی مجموعی کارکردگی سے چار بنیادی چیزوں میں تبدیلی آئی ہے، پی ٹی آئی احتساب کی سوچ کے ساتھ آئی تھی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے گٹھ جوڑ میں کرپشن کی تو بات ہی ختم ہو گئی تھی کیونکہ لوگ یہ کہتے تھے کہ اگر کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو سالوں میں عمران خان اور ان کی کابینہ نے اس سوچ کو بدل دیا ہے کہ نہ کھاتا ہے، نہ کھانے دیتا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے۔

دوسری کامیابی یہ ہے کہ ہم نے درآمد شدہ معیشت کو تبدیل کیا اور مینوفیکچرنگ اکانومی بنا رہے ہیں اور اسی طریقے سے تیسری بڑی کامیابی ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں اور کسی کے بھی دامن پر کوئی داغ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب 10سال قبل مشرف صاحب کی حکومت گئی اور پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پاکستان جی ڈی پی کا 0.62 فیصد ٹیکنالوجی پر خرچ کر رہا تھا لیکن جب 2018 میں پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو یہ بجٹ کم ہو کر 0.24 فیصد رہ گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا کے 2 لاکھ 90 ہزار سے زائد مریضوں میں سے 93 فیصد صحتیاب

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بجٹ میں بحالی کی اور 'میڈ ان پاکستان' کے لوگو کو اپنایا، تمام پالیسیوں کو تبدیل کیا، ایکسپورٹ پر توجہ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کووڈ آیا تو 26 فروری کو پہلے دو کیسز پاکستان میں سامنے آئے اور ہم اس وقت تک کچھ بھی اپنا نہیں بنا رہے تھے، ماسک، فیس شیلڈ، دستانے، گوگلز اور ہسپتالوں میں زیر استعمال چیزیں درآمد کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے دفاعی پیداواری اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے تاکہ ہم چیزیں خود بنا سکیں اور آج تقریباً چھ مہینوں کے بعد ہم ملک میں استعمال ہونے والی اکثر چیزیں خود بنا رہے ہیں جبکہ پاکستان پی پیز کا دنیا کا اہم ایکسپورٹر ہے جس پر ہمیں بڑا فخر ہے۔

انہوں نے تعلیم کے میدان میں اٹھائے گئے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سال پاکستان واشنگٹن معاہدے کا حصہ بنا جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی انجینئرز کی ڈگری کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا اور کہیں جا کر کسی انجینئر کو اضافی ٹیسٹ نہیں دینا پڑتا۔

فواد چوہدری نے بتایا کہ ہم اربوں ڈالرز کے طبی آلات و سامان باہر سے منگوا رہے تھے، اس سال جو ہم نے وینٹی لیٹر بنائے اور اب ہم ماہانہ 250 وینٹی لیٹرز بنا رہے ہیں اور اگر اگلے ہفتے ڈریپ دیگر کمپنیوں کو بھی لائسنس جاری کردے گی تو ہماری استعداد 70 وینٹی لیٹرز ماہانہ تک پہنچ جائے گی اور ہم وینٹی لیٹرز ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں آ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں کورونا کیسز میں اچانک کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ اس سال صحت سے متعلق زراعت ہماری توجہ کا محور رہے گی جس کے تحت ہم 2 ایکڑ، 5 ایکڑ اور ساڑھے 12 ایکڑ کے زرعی فارمز کو ٹیکنالوجی پیکج دیں گے جس کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے اور اس سال ہم 500 ٹیکنالوجی فارم بنانا چاہتے ہیں۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ دوسرا منصوبہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ضلع سیالکوٹ کو ہماری الیکٹرو میگنیٹک انڈسٹری کے لیے اسپیشل اکنامک زون ڈکلیئر کیا جائے اور اُمید ہے کہ اس سال پاکستان میں ڈائلیسز سمیت دیگر مشینیں بننا شروع ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانکس میں ایگری کلچر مشینری مینوفیکچرنگ پر بہت بڑا منصوبہ کرنا چاہ رہے ہیں، اس میں ہمارے ساتھ دفاعی پیداواری ادارے بھی ہوں گے کیونکہ ہم چاہتے ہیں اس سال ہمارا ایگری کلچر ڈرون منصوبہ شروع ہو جائے تاکہ پولیس مانیٹرنگ ڈرون پر شفٹ کردی جائے۔

انہوں نے کہا کہ تیسرا اہم منصوبہ کیمیائی متبادل کا ہے، پاکستان 4 ارب ڈالر کے کیمیکل درآمد کرتا ہے، اس میں سے 2 ارب ڈالر کے کیمیکل پاکستان میں بنتے ہیں لیکن ان کا معیار اچھا نہیں ہے لہٰذا ہم منصوبہ لا رہے ہیں تاکہ ان کا معیار بہتر کیا جا سکے اور ہم اگلے دو سال میں یہ عمل مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

30 دن کے اندر مشترکہ مفادات کونسل تشکیل دی، فہمیدہ مرزا

وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا نے کہا کہ آئین کے تحت حکومت اس بات کی پابند ہے وہ 30 دن میں مشترکہ مفادات کونسل تشکیل دے اور اس حکومت کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے 30 دن کے اندر وہ کونسل تشکیل دے دی۔

انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد اس کونسل کی بہت اہمیت ہو گئی ہے اور اس ترمیم کے بعد آٹھ موضوعات ایسے آ گئے ہیں جہاں وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر اسے چلاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت سندھ کے ساتھ 6 شعبوں میں مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوگیا،اسد عمر

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں نے کوآپریٹو فیڈرالزم کا منصوبہ دیا ہے کیونکہ 18ویں ترمیم کے بعد صرف کوآپریٹو فیڈرالزم کے تحت وفاق اور صوبے ایک پیج پر ہو کے قومی مفادات کے تحت کام کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت بین الصوبائی رابطہ کی زیر نگرانی سیاحت کے تمام صوبائی وزرا کو اکٹھا بٹھا کے ان تمام چیزوں کی نشاندہی کر سکیں جس سے سیاحت کو فروغ دیا جا سکے اور اسی طرح اسپورٹس ہے، وفاقی رابطہ کمیٹی بنی ہے کیونکہ اب کھیل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں لہٰذا ہمارا کردار رابطے کا زیادہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے وژن کے مطابق جو بھی منصوبے آ رہے ہیں ان میں ہماری کوشش ہے کہ سب میں جم اور کھیلوں کی جگہیں ہوں اور جیلوں میں بھی کھیلوں کی سہولت فراہم کی جائے جبکہ اسکولوں اور مدرسوں کے نصاب میں بھی لازمی کھیلوں کو شامل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ٰیہ بھی پڑھیں: کراچی: ڈیفنس میں 'گھریلو تنازع' پر خاتون ڈاکٹر کی 'خودکشی'

فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے وژن کے مطابق ہم اسپورٹس ٹورازم کو بھی فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور سلسلے میں مختلف مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں جو قابل عمل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اینٹی ڈوپنگ بورڈ بھی بنایا ہے کیونکہ ہمارے بچوں کو ڈوپنگ کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے اور ہمیں بہت شرمندگی ہوتی ہے جب بین الاقوامی ایونٹس میں ہمارے ایتھلیٹس پر ڈوپنگ کی وجہ سے پابندی لگتی ہے۔

جمہوریت کیلئے جبری گمشدگی کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ہمارے مختلف بل کچھ جگہوں پر اٹکے ہوئے ہیں، تشدد کا بل وزارت قانون دیکھ رہی ہے، عیسائیوں کی شادی اور طلاق کا بل بھی شامل ہے اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اقلیتوں کو ان کے ذاتی حقوق کی اجازت دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عیسائیوں کا شادی اور طلاق کا بل تعطل کا شکار ہے کیونکہ پاکستان میں عیسائیوں کے بہت فرقے ہیں اور ایک فرقے نے کہا ہے کہ ہم مطمئن نہیں ہیں لہٰذا اس پر مذاکرات چل رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے گھریلو تشدد کا بل انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی میں ہے، امید ہے کہ پچھلے سال جو التوا ہوا تھا وہ اب نہیں ہو گا اور یہ جلد ہی نکل جائے گا، سینئر سٹیزن بل ایک سال سے ہیومن رائٹس کمیٹی میں التوا کا شکار ہے اور میں نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے کہا ہے کہ اس بل کو سیاست کی نذر نہ کریں.

شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے منتخب ہونے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں کہا تھا کہ بچوں سے جو مار پیٹ ہوتی ہے اسے بند کردینا چاہیے، اس حوالے سے بل تیار ہے، کابینہ نے اسے منظور کر لیا ہے اور اب وزارت داخلہ نے اسے پیش کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: وفاق اور سندھ کے درمیان رابطہ کمیٹی بنانے پر اتفاق

اس موقع پر انہوں نے جبری گمشدگی کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ جمہوریت کے لیے حل کرنا بہت ضروری ہے، جبری گمشدگی کا بل وزارت قانون دیکھ رہی ہے، سارے اسٹیک ہولڈرز سے بات ہو رہی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آپ وزیر اعظم بننے سے پہلے کے بھی عمران خان کے بیان دیکھیں تو انہوں نے جبری گمشدگی پر سخت مؤقف اختیار کیا ہوا ہے کیونکہ کسی جمہوریت میں آپ جبری گمشدگیاں نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے جرنلسٹ پروٹیکشن بل پر ہماری شبلی صاحب سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے کہا کہ اسے جلد عمل کا حصہ بنائیں گے کیونکہ ہمارے بل میں ہم نے ساری صحافی برادری سے مشاورت کی تھی۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ہم ملک بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتے ہیں، ہمارے پاس 6 ہزار سے زائد کیسز آئے ہوئے ہیں جنہیں ہم نے حل کیا اور اسی طرح وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل پر 16 سے 17 ہزار کیسز آئے جنہیں ہم نے حل کر کے لوگوں کو مطمئن کیا جبکہ ہمارے متحرک ہیلپ لائن پر 5 لاکھ کالز آئی ہیں اور ہم نے عوام کے مطالبے پر 11 ہزار لوگوں کو قانونی سروسز فراہم کی ہیں۔

وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ ہم نے کووڈ کے زمانے میں ایک چیز کی ہے کہ اگر خواتین پر تشدد ہو رہا ہو اور گھر سے نکل نہ رہی ہوں اور فون پر بات بھی نہیں کر سکتیں تو وہ ہیلپ لائن پر بات کر کے سیکرٹ کوڈ صرف پریس کریں گی تو ان کی لوکیشن آ جائے گی اور ان کو مدد پہنچ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: افغانستان سے 'دہشگردی' کیلئے آئے 2 عسکریت پسند 'مقابلے' میں ہلاک

انہوں نے کہا کہ ہم جنسی جرائم میں ملوث افراد کی فہرست تیار کر رہے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دیگر ممالک کی فہرست ہمیں مل سکے گی اور اگر کوئی پاکستانی بیرون ملک اس جرم میں پکڑا گیا ہو گا تو ہم اس کا پتا لگا سکیں گے جیسا کہ ماضی میں پاکستان میں ایسا ہو چکا ہے جبکہ ہم نے سٹیزن گروپس بنائے ہیں جو بچوں سے زیادتی کے حوالے سے اپنے حلقوں میں آگاہی پیدا کریں گے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ میں نے کشمیر کے حوالے سے خصوصی مؤقف اختیار کیا اور 5 اگست کو بھارت کی جانب سے محاصرے کے بعد ہیومن رائٹس ہائی کمشنر کو خط لکھا، انسانی حقوق کے معاملے پر ہماری وزات نے یہ معاملہ اٹھایا ہوا ہے اور اس کی پیروی کر رہے ہیں۔

منصوبوں کے لیے حکومت سے 20 فیصد فنڈ لے رہے ہیں، فیصل واڈا

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واڈا نے اپنی وزارت کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں کے بعد یہ واحد وزارت ہے جس کی عالمی سطح پر کریڈٹ ریٹنگ آگئی ہے، ہمیں منصوبوں کی ضمانت کے لیے حکومت کے پاس جانا نہیں پڑے گا اور ہم خود ضمانت دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جتنے بھی منصوبے کررہے ہیں اس کے لیے 20 فیصد فنڈ حکومت پاکستان سے لے رہے ہیں باقی 80 فیصد اپنی وزارت سے بینکوں سے کریڈٹ ریٹنگ کے ذریعے حاصل کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کریڈٹ ریٹنگ ہماری بڑی کامیابی ہے، اس کے علاوہ داسو منصوبہ اور مہمند ڈیم منصوبہ 54 برس بعد ہم شروع کرچکے ہیں اور فنڈ جاری کردیا گیا ہے، دیامر بھاشا ڈیم تاریخ بدلنے جارہا ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ خطے میں ہم مضبوط ہونے جارہے ہیں اور ادائیگیاں بھی ہوئی ہیں جبکہ عملی طور پر کام بھی شروع ہوچکا ہے۔

فیصل واڈا نے کہا کہ سندھ بیراج پر تحقیق کا کام شروع ہوچکا ہے اور میں اس دہائی کو ڈیموں کی دہائی کہوں گا کیونکہ 112 چھوٹے بڑے ڈیم بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سارے صوبوں میں بڑے ڈیم بن رہے ہیں کوئی تعصب نہیں ہورہا، اس کے لیے سپریم کورٹ کا بھی شکرگزار ہوں، جس کی وجہ سے ہمیں مدد ملی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا مشکور ہوں کیونکہ بھارت کے ساتھ انڈس واٹر میں سیکیورٹی کا مسئلہ ہے لیکن ہم اس میں اقدامات کررہے ہیں۔

فیصل واڈا نے کہا کہ میری وزارت میں منصوبوں کی لاگت 1.1 کھرب روپے ہے کیونکہ یہ میگامنصوبے ہیں اور ہم نے پانی پر زیادہ توجہ دی ہے۔

نئی شپنگ کمپنی بنائی جاری ہے، وزیر بحری امور علی زیدی

وزیربحری امور علی زیدی نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج بلیو اکانومی کا تصور تھا جس کی لوگوں کو سمجھ نہیں تھی لیکن ہم نے اس تصور پر کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بندرگاہ کے ساتھ زمین مہنگی ترین ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں 40 برسوں میں کے پی ٹی کی ساری زمین تجاوزات میں چلی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی نے اس پر توجہ نہیں دی جبکہ یہ اربوں مالیت کی زمین ہے جس سے سارے قرضے اترسکتے ہیں یا قرضے چڑھتے ہی نہیں لیکن گزشتہ حکومتوں نے اس کو سستے داموں قبضہ کیا۔

علی زیدی نے کہا کہ جب ہم آئے تو پاکستان کا فریٹ بل 55 لاکھ امریکی ڈالر تھا اور سب سے پہلے ہم نے دو جہاز شامل کیے پھر شپنگ پالیسی دی اور نجی سطح اس میں کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ 2030 تک کسٹم ڈیوٹی، انکم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس معاف ہے اور سب سے اہم اسٹیٹ بینک سے بات کرکے ایل ڈی ایف کا معاملہ حل کیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میری 4 کاروباری گروپس سے بات ہوئی ہے اور وہ مل کر ایک شپنگ کمپنی بنارہے ہیں تاکہ اپنے جہاز بھی لائے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کے پی ٹی کی زمین کو ڈیجیٹل کررہے ہیں کیونکہ تخمینوں کے مطابق کے پی ٹی کی کچھ زمین قبضے میں ہے اور جو قبضے میں نہیں ہے کہ اس کی موجودہ مالیت 15 ارب ڈالر بنتی ہے اور اس کے استعمال سے متعلق منصوبہ بن چکا ہے۔

علی زیدی نے کہا کہ پورٹ قاسم میں زمین کی قیمتیں بڑھادیں جو گزشتہ حکومت میں کم لگائی گئی تھیں، اس سے پورٹ قاسم کو تقریباً 1600 کروڑ روپے اضافی ملیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان پیسوں سے تقریباً 8 نئے ٹرمینل بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم میرین سروسز کمپنی بنارہے ہیں جس کے لیے وزیراعظم نے اجازت دے دی ہے اور فشنگ کی صنعت پر کام کررہے ہیں اور اس کے لیے جاپانی حکومت کے مشکور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال میں پاکستان میں فش پروسیسنگ پلانٹس، عالمی معیار کے آکشن ہالز اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنارہے ہیں تاکہ ماہی گیروں کو ٹیکنالوجی سے متعارف کرائیں گے۔

26 دریافتیں کی ہیں، معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ گیس پیدوار میں کمی آرہی ہے اور اس سال میں تقریبا 3.7 بلین کیوبک فٹ روزانہ پیدا کررہے ہیں اور اس میں ساڑھے نو فیصد کی شرح سے کمی آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ پچھلی حکومت کی وجہ سے کوئی ای این پی لائسنس جاری نہیں کرنا ہے کیونکہ کوئی چیز دریافت کرنے کے لیے 4 سے 5 سال لگتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرلنگ کرکے تقریباً 26 دریافتیں کی ہیں گوکہ چھوٹی چھوٹی ہیں، جن میں 240 کیوبک فٹ گیس اور 7 ہزار بیرل تیل میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 5 سال کے وقفے کے بعد 10 بلاکس کے ٹینڈر کردیے ہیں اور ان پر کام شروع ہوا ہے اور ستمبر مزید 20 بلاکس ٹینڈر کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایل این جی پہلے حکومت پاکستان خود درآمد کرتی تھی لیکن پچھلے ایک سے ڈیڑھ سال میں 20 سے 25 فیصد اوسطاً کم قیمت پر اضافی ایل این جی خرید رہے ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ حکومت ایل این جی کی قیمت طے کرے اور درآمد کرے اس لیے ٹینڈرز دے دیے ہیں۔

ندیم بابر نے کہا کہ نئی پالیسی کے تحت 5 ٹرمینلز کو اجازت دی کہ وہ خود اپنا ٹرمینل لگائیں، خود ایل این جی لے کر آئیں اور خود فروخت کریں، جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل اور ضمانت نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں ایکس آن کنسورشیم اور مٹسوبشی دو بڑی کمپنیاں آئی ہیں جو دسمبر سے پہلے پاکستان میں عملی طور پر کام شروع کریں گی، معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، اجازت بھی مل گئی اور انتظامات بھی مکمل ہوچکے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

علی Aug 20, 2020 11:48am
اچھا لگا وزیر اپنی کارگردگی پیش کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومتون کو بھی اپنی کارگردگی پیش کرنی چاھیے تاکہ ریکارڈ کا حصہ بن سکے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024