• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

جو درخواست دیکھو ایسا لگتا ہے قانون صرف کمزور کیلئے ہے، عدالت

شائع August 19, 2020
عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹوؒ: ڈان
عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹوؒ: ڈان

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نیوی سیلنگ کلب سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ یہاں پر قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے، ہر روز ایک نئی درخواست آتی ہے کہ قانون پر عمل درآمدا نہیں ہورہا۔

عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے راول ڈیم کے کنارے نیوی سیلنگ اور فارمز کے خلاف کیسز کی سماعت کی جہاں پاکستان نیول فارمز کے وکیل ملک قمر افضل اور اشتر اوصاف ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں پر کوئی قانون کی حکمرانی نہیں، جو پٹیشن یہ عدالت اٹھاتی ہے اس میں نظر آتا ہے کہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کا حکم

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، متعلقہ ایس ایچ او سب ملوث ہوتے ہیں۔

انہوں نے سی ڈی اے کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ ہمت کرکے کیوں نہیں کہتے کہ آپ قانون پر عمل درآمد نہیں کراسکتے۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل پارک اور شہر کے ماحول کو تباہ کردیا گیا، ساتھ ہی یہ ریمارکس دیے کہ ماحولیات کو تباہ کر دیا اور اس کام کے لیے ریاستی مشینری ہوتی ہے۔

سی ڈی اے کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اگر ریکارڈ روم تک محدود رہنا ہے تو اس کو بند کر دیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس کی قیمت ہماری آئندہ کی نسلیں چکائیں گی، ہر روز ایک نئی پٹیشن آتی ہے کہ قانون پر عمل نہیں ہو رہا، جس کا کھوکھا ہوتا ہے اس کو نوٹس دیے بغیر وہ گرا دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی غیر قانونی کام کرے اس کی تعمیرات گرا دیں تو آئندہ کوئی کام نہیں کرے گا، اس پر اشتر اوصاف نے کہا کہ لاہور میں ایسا کیا گیا تھا مگر بعد میں پھر وہی کام شروع ہو گیا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کو ستمبر کے دوسرے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردیا۔

نیوی سیلنگ کلب کے معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ جولائی کے مہینے میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو اس کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کلب کی عمارت کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کو فوری طور پر روکے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ 'اتھارٹی کے نوٹس میں ایک مرتبہ پھر یہ آیا کہ غیرقانونی تعمیراتی سرگرمیاں پھر بحال کردی گئی ہیں اور کلب کو فعال کردیا گیا ہے، یہ سی ڈی اے (بائی لاز) کی صریح خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے'۔

ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا تھا کہ 'آپ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ غیرقانونی/غیرمجاز تعمیراتی کام اور پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی فعال سرگرمیوں کو فوری طور پر روکیں'۔

بعد ازاں راول جھیل کے کنارے تعمیرات کے معاملے میں پاکستان نیول فارمز سے متعلق شکایت کنندہ زینت سلیم کی عدالت عالیہ میں دائر کردہ درخواست پر معاملہ مزید ابھرا تھا اور پھر 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 'غیرقانونی تعمیرات' کے خلاف درخواست پر چیف آف نیول اسٹاف، اٹارنی جنرل برائے پاکستان اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلنگ کلب کیس: جواب جمع نہ کروانے پر عدالت نیول حکام پر برہم

جس کے بعد 23 جولائی کی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے راول ڈیم کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کیس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی تھی۔

عدالتی حکم کے بعد 30 جولائی کو کیس کی جو سماعت ہوئی تھی اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول حکام کی جانب سے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر پر جواب نہ جمع کروانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

علاوہ ازیں 6 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین عامر علی احمد، سیکریٹری کابینہ ڈویژن احمد نواز سکھیرا اور چیف آف نیول اسٹاف ظفر محمود عباسی کے خلاف نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

بعد ازاں 7 اگست کو مرکزی درخواست پر سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب کی نئی رکنیت کے خلاف حکم امتناع جاری کرتے ہوئے بحری حکام کو 19 اگست تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024