• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پی ٹی آئی حکومت کے دو سال، اہم منصوبے، ’تاریخی‘ اقدامات!

پی ٹی آئی کی حکومت نے ایسے پروگرامز اور منصوبوں کا آغاز اور سنگ بنیاد بھی رکھا جو ملک کی 71 سالہ تاریخ میں ممکن نہیں ہوسکے تھے۔
شائع August 18, 2020

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو آج (18 اگست 2020) ملک کا اقتدار سنبھالے ہوئے دو سال مکمل ہوگئے ہیں، ان دو سالوں میں جہاں حکومت کو متعدد نشیب و فراز، تنازعات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہیں پی ٹی آئی کی حکومت نے کچھ ایسے پروگرامز اور منصوبوں کا آغاز اور سنگ بنیاد بھی رکھا جو ملک کی 71 سالہ تاریخ میں ممکن نہیں ہوسکے تھے۔

ملک پر حکمرانی کرنے والی متعدد سیاسی جماعتوں اور آمروں نے اپنے اپنے دور میں ملک کے غریب عوام کی قسمت بدلنے، نوجوانوں کو بہتر تعلیم اور روز گار کے مواقع فراہم کرنے، ملک کے ہر طبقے کے لیے صحت کی یکساں سہولیات کی فراہمی اور خواتین کو با اختیار بنانے کے بلند و بانگ دعوے کیے تاہم وہ اس میں کامیاب دیکھائی نہیں دیئے کیونکہ ان کے دعوؤں کے برعکس تاحال تمام مسائل اپنی جگہ جوں کے توں ہیں۔

دوسری جانب دو سال میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے ملک کے غریب طبقے کی خوشحالی، نوجوانوں کو برسرروزگار بنانے اور خواتین کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں با اختیار بناکر ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے متعدد فلاحی منصوبوں اور پروگرامز کا آغاز کیا، جنہیں آج ہر خاص و عام کی جانب سے سراہا جارہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد سے تادم تحریر جن منصوبوں اور پروگرامز کا سنگ بنیاد رکھا یا افتتاح کیا ان میں دیامر بھاشا ڈیم، احساس پروگرام، بی آر ٹی، نوجوان ہنرمند پروگرام، صحت انصاف کارڈ، نیا پاکستان ہاوسنگ پروگرام، پلانٹ فار پاکستان، احساس سیلانی لنگر، ڈیجیٹل پاکستان ویژن اور دیگر شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں ہم نے اپنے قارئین کے لیے پی ٹی آئی کے دو سالہ اقتدار کے دوران شروع کیے جانے والے اہم اور چیدہ چیدہ پروگرامز اور منصوبوں کا احاطہ کیا ہے جو کچھ یوں ہیں:

دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کے آغاز کا اعلان

واضح رہے کہ ملک میں پانی کی شدید قلت اور موجودہ مہنگی توانائی کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مستقبل کے حوالے سے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کا احاطہ کرنے کے لیے نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر قرار دی جاچکی ہے۔

4 جولائی 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی تھی، سپریم کورٹ میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد اس سے متعلق مختصر فیصلہ سنایا تھا۔

چیف جسٹس نے اندرون ملک و بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے ڈیم کی تعمیر کے لیے عطیات دینے کی اپیل کی تھی اور اپنی جانب سے 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُمید ہے کہ عوام 1965 والے جذبے کا ایک بار پھر اظہار کریں گے۔

دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ — فائل فوٹو: ڈان نیوز
دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ — فائل فوٹو: ڈان نیوز

عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام عطیات کا خصوصی اکاؤنٹ بنانے کی ہدایت کی گئی تھی، بعد ازاں اس فنڈ کا نام 'سپریم کورٹ آف پاکستان اینڈ وزیراعظم دیامر بھاشا اینڈ مہمند ڈیم فنڈ' کردیا گیا تھا، جس میں اربوں روپے جمع ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان واقع ہے، جس میں گلگت بلتستان کا علاقہ بھاشا اور کے پی کے کوہستان کا علاقہ دیامر شامل ہے، اس ڈیم سے 4 ہزار 500 میگا واٹ بجلی بنائی جاسکے گی جبکہ یہ 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

اکتوبر 2018 میں ڈیمز کی تعمیر سے متعلق بریفنگ کے دوران چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین نے بتایا تھا کہ مہمند اور دیامر بھاشا ڈیمز پر تعمیراتی کام کا آغاز 2019 کی پہلی اور دوسری سہ ماہی سے شروع ہوجائے گا۔

تاہم 11 مئی 2020 کو پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'آج دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان پاکستان کی تمام نسلوں کے لیے تاریخی خبر ہے اور یہ ہماری معیشت کے لیے بھی بہترین ثابت ہوگا'۔

انہوں نے بتایا تھا کہ 'ڈیم کی تعمیر سے 16 ہزار 500 ملازمتیں اور 4 ہزار 500 میگاواٹ پن بجلی بھی پیدا ہوگی' اور منصوبے سے 12 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی بھی سیراب ہوگی جبکہ تربیلا ڈیم کی زندگی 35 برس بڑھ جائے گی۔

بعد ازاں 15 جولائی 2020 کو وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے دورے کے دوران دیامر بھاشا ڈیم سائٹ کا معائنہ کیا تھا اور انہیں متعلقہ حکام کی جانب سے مذکورہ منصوبے پر ہونے والی پیش رفت سے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔

اس دورے سے قبل وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ (ر) عاصم سلیم باجوہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ منصوبے سے ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ ہائیڈل پاور (پن بجلی) پیدا ہوگی اور ملازمت کے 16 ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔

چلاس میں دیامر بھاشا ڈیم کے دورے کے بعد عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے، دیامر بھاشا ڈیم ہمارے ملک کا سب سے بڑا ڈیم ہوگا اور سمجھ لیں کہ یہ تیسرا بڑا ڈیم ہوگا۔

مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد

اس سے قبل 2 مئی 2019 کو وزیراعظم عمران خان اور سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خیبرپختونخوا میں دریائے سوات پر مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔

اس موقع پر ڈیم کی خصوصیات کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مہمند ڈیم کی تعمیر سے یومیہ 8 سو میگا واٹ اور سالانہ 28 سو 62 گیگا واٹ بجلی پیدا ہوگی اور اس پر 3 ارب ڈالر لاگت آئے گی جب کہ اس کی تعمیر سال 2024 میں مکمل ہوگی۔

مہند ڈیم میں 12 لاکھ 93 ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس آبی ذخیرے سے 16 ہزار 737 ایکڑ رقبہ سیراب کیا جاسکے گا، اس کے ساتھ مذکورہ ڈیم کی تعمیر سے سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

مہمند ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے منعقدہ تقریب میں وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر برائے آبی وسائل فیصل واڈا، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، عہدیداروں اور مقامی عمائدین نے شرکت کی تھی۔

وزیراعظم عمران خان اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور دیگر تقریب میں موجود تھے  — اسکرین شاٹ
وزیراعظم عمران خان اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور دیگر تقریب میں موجود تھے — اسکرین شاٹ

اس موقع پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے خطاب میں ڈیم کے لیے زمین فراہم کرنے پر مقامی افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ عطیات اپنی جگہ لیکن ڈیم کے لیے اپنی زمین دینے سے بڑی قربانی کوئی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر میں سب سے اہم چیز شفافیت ہے جس کے لیے ایسا طریقہ کار ہونا چاہیے کہ عوام کو وقتاً فوقتاً ڈیم پر آنے والے اخراجات سے آگاہ کیا جاتا رہے، ان کا کہنا تھا کہ ڈیم کے حوالے سے کی گئی کوششیں سپریم کورٹ کا احسان نہیں بلکہ ہمارا فریضہ ہے، اس کے ساتھ انہوں نے ڈیم فنڈ میں عطیات دینے پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو خوب سراہا۔

راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا افتتاح

وزیراعظم عمران خان نے 7 اگست 2020 کو راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 50 کھرب روپے کا منصوبہ ہے اس کے لیے سرمایہ کاروں کو لے کر آئیں گے جبکہ اس پروجیکٹ کے تحت 60 لاکھ درخت بھی لگائے جائیں گے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اب ضرورت ہے کہ نئے شہر آباد کیے جائیں، راوی پروجیکٹ لاہور کو بچانے کے لیے اہم ہے کیوں کہ یہاں بغیر پانی کے مسائل پیدا ہوں گے۔

ملک کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ منصوبہ دریائے راوی کے قریب ایک نیا ماڈرن شہر آباد کرنے سے متعلق ہے، منصوبے کے مطابق دریا میں صاف پانی کا اخراج کیا جائے گا اور اس کے قریب بنائے جانے والے ماڈرن شہر میں موجودہ دور کی تمام سہولیات میسر ہوں گی۔

وزیراعظم عمران خان ہنرمند جوان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے ہیں — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم عمران خان ہنرمند جوان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے ہیں — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

راوی منصوبے کے حوالے سے انہوں نے بتایا تھا کہ پہلا کام تو یہ کیا جائے گا کہ بیراج بنا کر اس دریا میں اضافی پانی چھوڑا جائے گا اس کے بعد شہر کا سیوریج جو اس دریا میں جا رہا ہے اسے ٹریٹ کر کے صاف پانی کو دریا میں ڈالا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے یہ ہو گا کہ ایک تو دریا میں پانی کی سطح اوپر جائے گی اور ساتھ ہی زمین میں موجود پانی کی سطح بھی اوپر آنا شروع ہوگی جو کافی نیچے جا چکی ہے۔

انہوں نے راوی منصوبے کے حوالے سے کہا کہ سب سے پہلے تو اس منصوبے سے لاہور بچ جائے گا اور پانی کا مسئلہ حل ہو گا، اس کے علاوہ ماحول کو بہتر کرنے کے لیے ماڈرن شہر بنایا جائے گا، اس کے ساتھ ہی یہاں 60 لاکھ درخت اُگائے جائیں گے جس کے لیے ایک علاقہ صرف جنگل کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔

منصوبے کی لاگت پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ منصوبے کا تخمینہ تقریباً 5 ٹریلیں (50 کھرب روپے) کا ہے، جس کے لیے سرمایہ کاری ہوگی کیوں کہ یہ حکومت کے لیے تنہا ممکن نہیں اور اس کے لیے سرمایہ کاروں کو لے کر آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو اہم ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں موجود رقم کو اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ ایک بہترین منصوبہ ہے، کیوں کہ وہ بیشتر سرمایہ کاری پلاٹس کی خریداری میں کرتے ہیں لیکن یہ منصوبہ انہیں بڑی سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرے گا اور اس کی وجہ سے ہمارے ملک کی معیشت چلنا شروع ہوگی اور نوجوانوں کو روز گار معیسر آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے دوسرا بڑا اور اہم کام یہ ہو گا کہ ملک میں ‘ویلتھ کری ایشن’ (سرمایہ بڑھے گا) ہوگی، رقم کی منتقلی ہو گی اور یہ رقم ہم اپنے ملک کے غریب طبقے پر خرچ کریں گے اور اس کے علاوہ ملک پر موجود قرضے کو اس کی مدد سے اتارا جائے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں دارالحکومت اسلام آباد کے بعد یہ دوسرا بڑا شہر ہے جو بننے جا رہا ہے.

بی آر ٹی منصوبے کا افتتاح

3 سال کی تاخیر، اپوزیشن کی تنقید اور انکوائری کے معاملات عدالتوں میں زیر التوا ہونے کے بعد آخرکار وزیراعظم عمران خان نے 13 اگست 2020 کو صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کا افتتاح کرہی دیا۔

افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ پاکستان کا سب سے بہترین میٹرو بس سروس منصوبہ ہے اور یہ تھرڈ جنریشن ہے جس کے اثرات پشاور میں پڑیں گے، اس کے علاوہ اس منصوبے سے ٹریفک کے مسائل حل ہوں گے، اس کا مرکزی کوریڈور 27 کلومیٹر ہے جبکہ فیڈرز روٹ 60 کلو میٹر ہے جس سے پورا پشاور کور ہوجائے گا اور شہر کے لیے یہ ایک جدید منصوبہ ہے۔

خیال رہے کہ اس منصوبے کے افتتاح کی مختلف تاریخیں دی گئی تھیں، اس منصوبے کو مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اپوزیشن نے بھی تحریک انصاف کی حکومت کو اس حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔


بی آر ٹی منصوبہ


بی آر ٹی پشاور کو اکتوبر 2017 میں شروع کیا گیا تھا اور اسے اس وقت 6 ماہ یعنی اپریل 2018 میں مکمل کرنے کا کہا گیا تھا اور اس وقت اس کی لاگت 49 ارب روپے لگائی گئی تھی، تاہم اس منصوبے کے ڈیزائن میں مسلسل تبدیلی اور نئی چیزوں کے شامل کرنے کی وجہ سے نہ صرف منصوبے کی تکمیل کی پہلی ڈیڈلائن پر نہ ہوسکی بلکہ اس کی لاگت میں بھی 17 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا اور یہ 66 ارب 43 کروڑ روپے سے تجاوز کرگیا۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق اس منصوبے کی لاگت تقریباً 70 ارب روپے آئی ہے جبکہ اس 27 کلومیٹر طویل مرکزی کوریڈور 31 اسٹیشنز کے ساتھ ہے جبکہ 7 فیڈرز روٹ 62کلرومیٹر کو جوڑتا ہے جس میں 146 اسٹاپس ہیں اور اس سے ہزاروں لوگ مستفید ہوسکیں گے۔

خیال رہے کہ اس منصوبے کے منیجر اس کے آغاز کی کئی نئی تاریخ دیتے رہے اور آخری تاریخ جون 2020 دی گئی تھی تاہم تب بھی اس منصوبے کو شروع نہیں کیا جاسکا تھا۔

بی آر ٹی کی تصاویر — فائل فوٹو: بشکریہ عمران خان فیک بک پیج
بی آر ٹی کی تصاویر — فائل فوٹو: بشکریہ عمران خان فیک بک پیج

اگر اس منصوبے کی بات کریں تو اس منصوبے کو آپریٹ کرنے والی حکومتی ٹرانس پشاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر فیاض خان کے مطابق بی آر ٹی ایک تھرڈ جنریشن منصوبہ ہے جس کا مرکزی کوریڈور چمکنی سے کارخانو کراسنگ تک 27 کلو میٹر طویل ہے۔

ان کے مطابق چارسدہ روڈ پر کوہاٹ اڈا شاہ عالم آف کوریڈور لنک 18 کلومیٹر طویل ہے جبکہ چمکنی پشتخۃ چوک سیکشن 19 کلومیٹر تک طویل ہے، اس کے علاوہ 3 دیگر روٹس حیات آباد اور کارخانو کراسنگ کے مختلف حصوں کو آپس میں ملاتےہیں۔

27 کلومیٹر طویل بی آر ٹی مرکزی کوریڈور میں 900 میٹر کے فاصلے پر بی آر ٹی اسٹیشن بنائے گئے ہیں، مزید یہ کہ 3 ڈپو اور اسٹیجنگ کی سہولت زیر تعمیر ہے جبکہ 200 سے زائد ڈیزل ہائبرڈ ایئرکنڈیشن بسز کا بیڑا مرکزی اور آف کوریڈور روٹس کا حصہ کور کرے گا۔

یہی نہیں بلکہ اس منصوبے میں سائیکل شیئرنگ سسٹم بھی بنایا گیا ہے، مزید یہ کہ بی آر ٹی منصوبے میں ایکسپریس سروس بھی ہے جو مرکزی کوریڈور پر صرف 7 اسٹیشن پر اسٹاپ کرے گی جبکہ ریگولر بس سروس کی تمام اسٹیشن پر دستیابی ہوگی۔

کرائے کی بات کی جائے تو مسافروں کو پہلے 5 کلومیٹر پر 10 روپے ادا کرنا ہوں گے جبکہ اس کے بعد ہر 5 کلومیٹر کے لیے کرایہ 5 روپے بڑھ جائے گا۔

بجلی کی لاگت کم کرنے کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدہ

رواں ماہ کی 15 تاریخ کو معاون خصوصی برائے توانائی شہزاد قاسم کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا تھا کہ پائیدار بنیاد پر صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس کی جانب حکومت نے پہلا بڑا قدم اٹھاتے ہوئے بجلی پیدا کرنے والے آزاد اداروں (آئی پی پیز) کے ساتھ ایک بنیادی معاہدہ کرلیا۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ماضی میں مہنگے توانائی معاہدوں پر دستخط کیے گئے کیونکہ سابق حکومتیں صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئی پی پیز سے مذاکرات کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں تاہم وزیراعظم عمران خان فوری بنیادوں پر مہنگی بجلی کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں لیکن موجود حکومت کے لیے یکطرفہ طور پر معاہدے ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ اس سلسلے میں حکومت نے ایک ٹیم بنائی جو آئی پی پیز کے ساتھ پرانے معاہدوں پر نظرثانی کرنے کے لیے بات چیت کرے گی، ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کے تحت خاص بجلی گھر کی مجموعی صلاحیت کے بجائے حاصل اور استعمال بجلی کے لیے ادائیگی کی جائے گی جبکہ ایکوٹی کی واپسی امریکی ڈالر کے بجائے روپے میں کی جائے گی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کا 2030 تک مجموعی مکس توانائی میں قابل تجدید توانائی کا شیئر 20 سے 25 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ ہے، اس سے فیول پر انحصار کم ہونے جبکہ بجلی کی پیداواری لاگت کم ہونے میں مدد ملے گی۔

معاون خصوصی برائے توانائی شہزاد قاسم، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز — فائل فوٹو: اے پی پی
معاون خصوصی برائے توانائی شہزاد قاسم، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز — فائل فوٹو: اے پی پی

آئی پی پیز کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی مفاہمت کی یادداشت (ایم او یوز) پر دستخط سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے معاون خصوصی برائے توانائی شہزاد قاسم کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں احتیاط برتنے کی ضرورت تھی کیونکہ آئی پی پیز کے ساتھ خود مختار ضمانتیں شامل تھیں۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ آئی پی پیز کے ساتھ حالیہ ایم او یوز میں حاصل کردہ اہم سنگ میل میں سے ایک پلانٹس کی ایندھن کی صلاحیت کا ٹیسٹ کرنا اور اس کے نتائج الیکٹرک ریگولیٹر کے ساتھ شیئر کرنا شامل ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے معاون خصوصی نے کہا کہ 'آئی پی پیز کو نہ صرف نیپرا کی مقرر کردہ حد پر عمل کرنا ہوگا بلکہ بچت کے بارے میں بھی حکومت سے شیئر کیا جائے گا'، مزید یہ کہ اس سے بجلی کی لاگت کم کرنے میں مدد ملے گی، اس کے علاوہ تاخیر سے ادائیگی کا سرچارج حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کو ادا کیا جائے گا جو اس سے قبل کیبور پلس 4.5 فیصد تھا تاہم اسے کم کرکے اب صرف 2 فیصد کردیا گیا ہے۔

شہزاد قاسم کا کہنا تھا کہ ایم اویو پر دستخط ہوگئے ہیں اور کچھ وقت بعد صارفین اس کے اثرات کو محسوس کریں گے لیکن انہوں نے یہ وقت نہیں بتایا کہ صارفین کب اس نئے معاہدے سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

ایئر یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا سنگ بنیاد

وزیر اعظم عمران خان نے یکم جنوری 2020 کو اسلام آباد میں ایئر یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2019 میں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن قومیں آزمائش میں مٹتی نہیں بلکہ مضبوط بن کر ابھرتی ہیں اور ساتھ ہی دعویٰ کیا تھا کہ 2020 ترقی و خوشحالی کا سال ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں معیارات کا فروغ بہت اہم ہے، اس سلسلے میں نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا ضروری ہے، جدید ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے جس سے تبدیلی کا عمل بھی تیز تر ہو گیا ہے، اس انقلاب سے استفادہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے والے اداروں کا ہونا ناگزیر ہے۔

وزیر اعظم یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں — فوٹو: پی آئی ڈی
وزیر اعظم یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں — فوٹو: پی آئی ڈی

انہوں نے کہا کہ ملک کے کمزور طبقے کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر اشیائے ضروریہ فراہم کی جائیں گی، ملک کے غریب لوگوں کی سہولت کے لیے انصاف کارڈ فراہم کیے جائیں گے، ہماری کوشش ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ سہولت ہر مستحق تک پہنچے، کچی بستیوں میں لنگر کھولے جا رہے ہیں جبکہ بے گھر اور غریب مزدوروں و محنت کشوں کے لیے پناہ گاہیں کھول رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا وژن فلاحی ریاست کا قیام ہے، نئے سال کے دوران اس جانب نمایاں پیشرفت کی جائے گی۔

فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کا سنگ بنیاد

رواں سال 3 جنوری کو فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ملک کے خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیز) چینی صنعتوں کو پاکستان منتقل کرنے کا ماحول فراہم کریں گے اور میرا پاکستان کے لیے وژن ہے کہ یہ وہ ریاست بنے جس کی ترجیح اپنے کمزور طبقے کو اوپر لانا ہو، جس طرح مدینے کی ریاست تھی۔

واضح رہے کہ علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ذریعے ملک میں معاشی سرگرمیاں فروغ دینے کا موقع ملے گا، یہ انڈسٹریل سٹی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت فیصل آباد ای اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اور منیجمنٹ کمپنی (ایف آئی ای ڈی ایم سی) کے خصوصی اقتصادی زون کا میگا پروجیکٹ ہے۔

وزیراعظم نے سنگ بنیاد سے قبل ایک پودا بھی لگایا — فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم نے سنگ بنیاد سے قبل ایک پودا بھی لگایا — فوٹو: ڈان نیوز

دوران خطاب عمران خان نے کہا تھا کہ چین سے کئی صنعتیں یہاں آنا چاہتی ہیں لیکن اب تک ہم نے انہیں وہ ماحول فراہم نہیں کیا، اسی وجہ سے یہ صنعتیں تھائی لینڈ اور ویتنام جارہی ہیں لیکن یہ خصوصی اقتصادی زونز وہ ماحول ہیں جو چین کی صنعتیں چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان زونز کا یہ فائدہ ہوگا کہ ہم انہیں موقع فراہم کریں گے کیونکہ چین کے بہت سرمایہ کار پاکستان آنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے وزیراعظم لی نے بھی واضح کہا تھا کہ آپ اگر ہمیں ماحول فراہم کریں گے تو ہم پاکستان کی طرف صنعتیں بھیجیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف یہی نہیں کہ وہ صرف پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں بلکہ وہ ٹیکنالوجی منتقل کرکے ہماری پیداوار کو بڑھائیں گے جس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔

اس سے قبل وزیراعظم نے حکومت کے پناہ گاہ اقدام کے تحت فیصل آباد میں پہلے شیلٹر ہوم کا افتتاح بھی کیا تھا اور اس موقع پر وزیراعظم نے پناہ گاہ میں حکومت کی جانب سے بے گھر اور بے سہارا افراد کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا جائزہ لیا، اس دوران انہوں نے شیلٹر ہوم میں کھانا بھی نوش کیا۔

ہنرمند جوان پروگرام کا افتتاح

جنوری 2020 میں ہی وزیراعظم عمران خان نے ہنر فراہم کرنے کے لیے ملک کے 'سب سے بڑے' پروگرام 'ہنر مند جوان' کا افتتاح کیا تھا۔

اسلام آباد میں پروگرام کے افتتاح کے موقع پر جہاں انہوں نے پروگرام کے بارے میں بات کی تھی اور نوجوانوں کو ملک کا قیمتی اثاثہ قرار دیا تھا وہی انہوں نے واضح کیا تھا کہ دنیا میں دوسری سب سے بڑی نوجوان آبادی ہماری ہے، اگر ہم انہیں نوجوانوں کو صحیح تعلیم اور ہنر دے سکیں تو یہی اس ملک کو سپر پاور بنا سکتے ہیں۔

وزیراعظم ہنرمند جوان پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے — فوئل فوٹو: بشکریہ عمران خان فیس بک پیج
وزیراعظم ہنرمند جوان پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے — فوئل فوٹو: بشکریہ عمران خان فیس بک پیج

انہوں نے کہا کہ ہم نے نوجوانوں کی تعلیم پر کبھی زور نہیں دیا، انسانی ترقی پر کبھی رقم خرچ نہیں کی اور اپنے سب سے بڑے اثاثے کو ضائع کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ہنرمند پروگرام پہلا قدم ہے جو اپنے اثاثے کو اثاثہ بنائیں جو اس ملک کو اٹھا سکتا ہے اور سال 2019 ملک کے استحکام کا سال تھا جبکہ 2020 ملک کے اٹھنے کا سال ہے۔

دوران خطاب ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے پیسہ آئے گا وہ تعلیم، صحت اور تکنیکی تعلیم پر خرچ ہوگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اپنی حکومت پر اس لیے فخر ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جس نے مدارس کے 25 لاکھ بچوں کو اپنا سمجھا اور انہیں قومی دھارے میں لائے ہیں اور مدارس کے لیے وہ مضمون لائے جس سے وہ کسی بھی شعبے میں جاسکیں۔


اس موقع پر ہنرمند پاکستان پروگرام کے 5 اہم نکات کی تفصیلات فراہم کی گئیں تھیں:

  • پروگرام کے لیے 30 ارب مختص ہیں، پہلے مرحلے میں 10 ارب روپے استعمال ہوں گے۔

  • 5 لاکھ نوجوانوں کو ہنر سکھایا جائے گا، جس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ جیسے ہنر شامل ہیں جبکہ پہلے فیز میں ایک لاکھ 70 ہزار نوجوانوں کو تربیت دی جائے گی۔

  • 500 تربیتی سینٹر کھولے جائیں گے، پہلے فیز میں 70 سینٹر مدارس میں کھلیں گے کیونکہ آج تک مدرسوں کے بچوں کو اپنا نہیں سمجھا گیا۔

  • 300 اسمارٹ ٹیکنکل سینٹر ہوں گے، جن کی وابستگی انٹرنیشنل کوالٹی ٹیکنکل انسٹیٹوٹ کے ساتھ ہوگی اور پہلے فیز میں 75 سینٹرز ہوں گے۔

  • اس کے علاوہ نیشنل ایکریڈیشن کاؤنٹر کھولا جائے گا، جس کا مطلب پاکستان کے تمام سینٹرز کی کٹیگری پر سرٹیفکیشن کی جائے گی۔

اس حوالے سے ریڈیو پاکستان نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس پروگرام کا مقصد معیاری پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے ہنر فراہم کرنا ہے، یہ پروگرام آئندہ 4 برس میں مکمل کیا جائے گا جس پر 30 ارب روپے خرچ ہوں گے جس سے نوجوانوں کو آسان قرضے، پشہ ورانہ صلاحیت بڑھانے، اسٹارٹ اپ اور انٹرن شپ کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

احساس نشوونما پروگرام

رواں ماہ کی 13 تاریخ کو صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں بی آر ٹی منصوبے کے افتتاح سے قبل وزیر اعظم نے احساس نشوونما پروگرام کا افتتاح کیا تھا۔

اس موقع پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور تخفیف غربت ثانیہ نشتر بھی وزیر اعظم کے ہمراہ موجود تھیں اور دونوں نے خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے نشوونما سینٹر کا دورہ کیا تھا، جہاں ثانیہ نشتر نے انہیں اس حوالے سے تفصیلات فراہم کیں تھیں۔

خیال رہے کہ ملک میں بچوں کی نشوونما میں کمی کا مسئلہ وزیر اعظم کی ترجیحات میں شامل ہے جسے سابقہ حکومتوں کی جانب سے نظر انداز کیا گیا تھا کیونکہ کہ غذائی قلت کے باعث بچوں کی نشوونما میں کمی میں پاکستان، خطے میں 40 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر موجود ہے جہاں پاکستانی بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس منصوبے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ حکومت نے نشوونما پرگرام کے لیے 8.52 ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے اور اس منصوبے سے مستفید ہونے والوں میں لڑکیوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے اور لڑکوں کو 1500 روپے وظیفہ دیا جائے گا جبکہ ابتدائی مرحلے میں خیبر، اپر دیر، باغ، غزر، ہنزہ، خرمنگ، خاران، بدین اور راجن پور سمیت 9 اضلاع میں 33 نشوونما سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔

ان اضلاع کو بچوں میں نشوونما کے مسائل کو دیکھتے ہوئے منتخب کیا گیا ہے اور 33 نشوونما سینٹرز اگست تک مکمل کر لیے جائیں گے جبکہ راجن پور میں 4 سینٹرز، اپر دیر میں 6، بدین میں 6، خاران میں 3 اور گلگت بلتستان میں 8 سینٹرز بنائے جا چکے ہیں۔

اس اسکیم سے مستفید ہونے والوں کے لیے ایک ایپلی کیشن بھی بنائی گئی ہے تاکہ فائدہ اٹھانے والوں کا ریکارڈ رکھا جا سکے جبکہ سینٹرز سے استفادہ کرنے والی خواتین کے لیے رجسٹریشن ڈیسک بھی بنائی جا چکی ہیں، اس کے تحت مستحق حاملہ خواتین اور 2 سال سے کم عمر بچوں کو تسلی بخش غذا کی فراہمی کے لیے بچوں کو سہ ماہی وظیفہ دیا جائے گا۔

نشوونما سینٹرز میں خصوصی اے ٹی ایم مشین نصب کی جا چکی ہیں جس کے ذریعے مستفید ہونے والوں کو بائیو میٹرک کے ذریعے رقم دی جائے گی۔

احساس پروگرام

‘احساس’، وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا بطور جماعت اور حکومت فلیگ شپ پروگرام ہے جس میں ان کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل اور اصلاحات کے لیے عملی اقدامات، تجاویز اور اس کو عملی شکل دینے کے لیے راستہ بتایا گیا ہے۔

اس پروگرام میں غربت کے خاتمے، غریبوں کا احساس، صحت، تعلیم کا احساس، اداروں کی مضبوطی اور مساوات جیسے عوامی اصلاحات اور اقدامات شامل ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت یا تحریک کے کچھ منصوبے ہوتے ہیں جو ان کی پہچان یا منشور کہلاتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ عوام میں خود کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں اسی طرح احساس پروگرام پی ٹی آئی کا منصوبہ ہے اور وزیراعظم عمران خان کا بحیثیت لیڈر ان کے وژن کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:احساس پروگرام پاکستان کو فلاحی ریاست بنائے گا، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ 2019 کو اس پروگرام کا افتتاح کیا تھا اور سرکار کی جانب سے جاری اعلامیے میں اس پروگرام سے متعلق وزیراعظم کا پیغام بھی دیا گیا تھا جس میں پروگرام کے مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس کا مقصد عدم مساوات کو ختم کرنا، عوام پر خرچ کرنا اور پسماندہ اضلاع کو ترقی دینا ہے، اس پروگرام کو انہوں نے فلاحی ریاست کی جانب ایک قدم قرار دیا۔

احساس پروگرام کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:-

1-مساوات پر مبنی حکومتی نظام

پی ٹی آئی کی حکومت نے اس نکتے میں کہا کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے طبقے کو آگے لے آئے اور انہیں غربت سے نکالے، بااثر افراد کی من مانیوں سے عوام کی حفاظت کرے جس کے ثبوت ٹیکس کے نظام، پانی، زمین، لیبر قوانین اور دیگر شعبوں میں موجود ہیں، حکومت نے عدم مساوات کو ختم کرنے اور معاشرے میں پائی جانے والی تفریق کے خاتمے کے لیے اس پروگرام کے تحت قانون سازی سمیت تمام اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔

2-تحفظ

احساس پروگرام کے دوسرے نکتے میں حکومت نے ‘تحفظ نیٹس’ کے تحت غریبوں کی مدد، نادار افراد کی کفالت اور دیگر اقدامات کا عزم کیا، سرکاری بیان کے مطابق پاکستان میں 38 اعشاریہ 8 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں اور 24 اعشاریہ 4 فیصد کے پاس خوراک سمیت بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی استطاعت نہیں۔

تحفظ کے تحت مزید اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا جس میں:-

i) کفالت

اس کے تحت تقریباً 60 لاکھ خواتین کے مالی تعاون کو یقینی بنایا جائے گا جس کے لیے ایک خاتون ایک بینک اکاؤنٹ کی پالیسی اپنائی جائے گی، کفالت کے تحت تحصیل کی سطح پر 500 ڈیجیٹل مراکز قائم کیے جائیں گے جہاں سرکاری معلومات باآسانی دستیاب ہوں گی۔

ii) تحفظ

حادثات سے متاثرہ عوام کو تحفظ اور بیواؤں کی مالی مدد کے ذریعے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ 10 ہزار یتیموں کا احساس گھر، بڑے شہروں میں پناہ گاہیں اور غریبوں کے لیے ہاؤسنگ اسکیمیں بھی متعارف کروائی جائیں گی، معذوروں اور بزرگوں کے لیے بھی فلاحی منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

3- ہیومن کیپٹل ڈیولپمنٹ

پی ٹی آئی کے احساس پروگرام میں تیسرا بڑا قدم عوام پر خرچ کرنا ہے تاکہ امیر اور غریب میں پایا جانے والا فرق ختم کیا جاسکے جبکہ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور پروگرام کے تحت بچوں کے لیے صحت مند غذا، غریبوں کے لیے تعلیم اور صحت کے منصوبے اس میں شامل ہوں گے۔

4-روزگار

پی ٹی آئی نے اپنے احساس پروگرام میں روزگار میں اضافے کے لیے اقدامات کرنے کو بنیادی مقصد قرار دیا تھا اور اس وزیراعظم نے اپنے بیان میں عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ احساس پروگرام کے تحت مختلف اسکیمیں متعارف کروائیں گے اور عوام کو اپنا کاروبار شروع کرنے کی سہولیات دی جائیں گی حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے انتخابات سے قبل اپنی متعدد تقاریر میں کہا تھا کہ وہ حکومت میں آکر ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے منصوبے شروع ہوں گے جو معیشت کی مضبوطی سے ہی ممکن ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے یوں تو 27 مارچ 2019 کو فلاحی ریاست بنانے کے اس منصوبے کا افتتاح کیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کررہی ہیں لیکن اس سے قبل منصوبوں کی بنیاد شروع کردی تھی جبکہ اس کے بعد 2019 میں مزید منصوبے بھی شروع کیے گئے، گو کہ بے روزگاری کے خاتمے اور عدم مساوات میں کمی لانے کے اعلانات کے برعکس اثرات دیکھے گئے۔

یہاں پی ٹی آئی کی جانب سے 2019 میں شروع کیے گئے چند اہم منصوبوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔

صحت انصاف کارڈ

وزیراعظم عمران خان نے وفاقی حکومت کے پروگرام صحت انصاف کارڈ کا اجرا 4 فروری 2019 کو کیا تھا، جس کے تحت تقریباً 8 کروڑ افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ پہلا قدم ہے، جو بھی ہماری پالیسی بنے گی اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کیا ہم غربت ختم کر رہے ہیں، 'صحت کارڈ سے انشااللہ غربت کم ہوگی'۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے صحت انصاف کارڈ کا اجرا کردیا

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر یہ اسلام آباد اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں جاری کیا جائے گا تاکہ وہاں کے متاثرہ لوگوں کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے، اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اس کارڈ کو ایک کروڑ لوگوں تک پہنچائیں گی۔

اس وقت کے وفاقی وزیر قومی صحت عامر محمود کیانی نے پریس کانفرنس کے دوران 'صحت انصاف کارڈ' کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'صحت انصاف کارڈ رکھنے والے ہر خاندان کو سالانہ علاج معالجے کی سہولت کے لیے 7 لاکھ 20 ہزار روپے کی انشورنس کی سہولت حاصل ہوگی'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'صحت انصاف کارڈ میں انجیو پلاسٹی، اسٹنٹس، زچہ بچہ، ایمرجنسی اور تمام بیماریوں کا علاج ممکن ہو سکے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے مرحلے میں کارڈ کی چھپائی شروع ہوگی اور تین ماہ میں ایک کروڑ پاکستانیوں کو کارڈ جاری ہوں گے جبکہ 2020 کے اختتام تک انصاف صحت کارڈ کا دائرہ پورے ملک تک پھیلایا جائے گا'۔

عامر کیانی کا کہنا تھا کہ ایک خاندان میں 18 سال سے کم عمر کے 'ب' فارم پر موجود تمام بچے علاج کی سہولت حاصل کریں گے، صحت انصاف کارڈ کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اعداد و شمار استعمال کیے جا رہے ہیں جبکہ اس کے لیے نادرا سے معاونت بھی حاصل کی جا رہی ہے۔

وزیراعظم نے 30 دسمبر کو مخنث کے لیے انصاف صحت کارڈ کا اجرا کیا—فوٹو:پی ٹی آئی ٹویٹر
وزیراعظم نے 30 دسمبر کو مخنث کے لیے انصاف صحت کارڈ کا اجرا کیا—فوٹو:پی ٹی آئی ٹویٹر

انہوں نے کہا تھا کہ انشورنس کے لیے بولی کے بعد اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کا انتخاب کیا گیا۔

بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے 30 دسمبر 2019 کو مخنث کمیونٹی کے لیے صحت سہولت پروگرام کا افتتاح کیا اور کہا کہ 'غریب گھرانے پر جب مشکل وقت آتا ہے تو سارا پیسہ جمع کرا کے علاج کراتے ہیں، غریب افراد کینسر کے علاج کے لیے اپنا گھر اور زیور تک فروخت کر دیتے تھے، لیکن ہم تمام مخنث افراد کو صحت کی سہولیات اور مکمل تحفظ فراہم کریں گے جبکہ ہیلتھ کارڈ ہوگا تو انہیں مشکل وقت میں پریشانی نہیں ہوگی۔'

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ حکومت تمام افراد کو ضرورت کے مطابق صحت سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے، پاکستان کی 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ان افراد کو صحت کارڈ کی فراہمی حکومت کی ترجیح ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ 68 لاکھ مستحق خاندان صحت کارڈ کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں، 2020 کے آخر تک تمام مستحق خاندانوں کو صحت کارڈ دیں گے۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام

وزیراعظم عمران خان نے 17 اپریل 2019 کو نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کا افتتاح کیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ شروعات ہیں اور ہم 8 ماہ کی جدوجہد کے بعد اس مقام پر پہنچے ہیں کہ ملک میں ہاؤسنگ اسکیم کا آغاز کردیا ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ ہاؤسنگ پروگرام میں نجی شعبہ زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرے اور غیر ملکی سرمایہ کار ہاؤسنگ پروگرام میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہوں نے اعلان کیا تھا کہ حکومت غریب طبقے کو 5 ارب روپے کے بلا سود چھوٹے قرضے دینے جارہی ہے۔

پلانٹ فار پاکستان

یوں تو وزیراعظم عمران خان نے صاف و سبز پاکستان مہم کا افتتاح 13 اکتوبر 2018 کو کیا تھا اور اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے 18 اگست کو پی ٹی آئی کے اقتدار کے ایک سال کی تکمیل پر پلانٹ فار پاکستان ڈے کی مناسبت سے ملک بھر میں شجرکاری مہم شروع کی گئی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، صدر مملکت عارف علوی سمیت دیگر وزرا اور اداروں کے سربراہان نے پودے لگائے۔

18اگست کو پودے لگائے گئے—فوٹو:پلانٹ 10 بلیکن ٹری سونامی ٹوئٹر
18اگست کو پودے لگائے گئے—فوٹو:پلانٹ 10 بلیکن ٹری سونامی ٹوئٹر

وزیراعظم کی ہدایت پر منائے گئے پلانٹ فار پاکستان ڈے کو ملک بھر میں 2 کروڑ پودے لگانے کا ہدف دیا گیا تھا جس کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی اور پودے لگائے گئے۔

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے 5 اگست کو اسلام آباد میں مون سون شجرکاری مہم کا بھی آغاز کر دیا تھا اور تمام پاکستانیوں سے 18 اگست کو فی شہری کم از کم 2 پودے لگانے کی اپیل کی تھی۔

احساس سیلانی لنگر

مدینہ کی فلاحی ریاست کے طرز پر پاکستان کو ڈھالنے کی کوششوں کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے غریب افراد کے لیے سرکاری سطح پر لنگر خانے کھولنے کی مہم شروع کی اور اس حوالے سے مشہور سیلانی ٹرسٹ کے ساتھ اشتراک میں سرکاری لنگر خانہ ‘احساس سیلانی لنگر’ کا آغاز کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے 7 اکتوبر 2019 کو احساس سیلانی لنگر اسکیم کا افتتاح کیا۔

احساس سیلانی لنگر اسکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ہم نے غربت مٹاؤ احساس پروگرام کے تحت پہلے فیز میں 112 لنگر قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کوئی بھی بھوکا نہ رہے اور اس لنگر کو ہر علاقے تک توسیع دی جائے گی۔

سیلانی ٹرسٹ کو عوام کی فلاح و بہبود اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینے پر ان کی بے لوث کوششوں کو سراہا۔

—فوٹو:پی ٹی آئی ٹویٹر
—فوٹو:پی ٹی آئی ٹویٹر

انہوں نے کہا کہ ہم نے کمزور طبقے کی ذمہ داری لینی ہے، اس کے تحت اگر ریاست کے حالات برے ہوں اور پیسے نہ ہوں تو بھی ریاست کمزور لوگوں کا احساس کرتی ہے، پھر کامیابی اللہ دیتا ہے، ہم نے بھی اسی راستے پر چلنا ہے اور پھر ریاست میں اللہ برکت ڈالے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ جب لوگ بھوکے سوئیں گے تو ریاست سے برکت ختم ہوجاتی ہے، جب تک روزگار کے حالات بہتر نہیں ہوں گے لنگر کو ہر علاقے تک توسیع دی جائے گی۔

کامیاب جوان پروگرام، ہنر سے کاروبار تک

وزیراعظم کے 'کامیاب جوان پروگرام' کے تحت 'ہنر سے کاروبار' تک اسکیم کے سلسلے میں نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرض فراہم کیا جائے گا۔

اس پروگرام کے ذریعے پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کے عوام کو قرض مہیا کیا جائے گا جبکہ اس پروگرام کا مقصد خواتین انٹرپرینیورز کے لیے 25 فیصد قرض فراہم کرنا ہے۔

کامیاب جوان پروگرام کے تحت 10 ہزار سے لے کر 50 لاکھ روپے تک کا قرض فراہم کیا جائے گا، اس پروگرام کا مقصد بے روزگاری اور غربت جیسے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم نے ' کامیاب جوان پروگرام' کا افتتاح کردیا

اسلام آباد میں 17 اکتوبر 2019 کو کامیاب جوان پروگرام کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تھی جہاں وزیراعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری جماعت نے ملک کے نوجوانوں کو جو بااختیار بنانے کا وعدہ کیا تھا، کامیاب جوان پروگرام اس کی جانب پہلا قدم ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں نوجوانوں کے لیے اربوں روپے کا پروگرام شروع کرنے میں عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، عثمان ڈار نے واضح کیا تھا کہ یہ پروگرام مکمل طور پر اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی حمایت سے شروع کیا جارہا ہے اور اس میں عوام کے ٹیکسوں سے کوئی رقم شامل نہیں کی گئی۔

اس پروگرام کے تحت حکومت نوجوانوں کی مدد کے لیے ایک بہترین ڈیجیٹل پلیٹ فارم وضع کرے گی۔

اسٹریٹجک کمیٹیاں

وزیراعظم نے کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے 13 رکنی اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے چیئرمین خود وزیراعظم عمران خان ہوں گے اور کمیٹی میں معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت رزاق داؤد اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وفاقی وزیر تعلیم، وزیر اقتصادی امور اور آئی ٹی بورڈ کے سربراہ سمیت دیگر شامل ہیں۔

خصوصی کمیٹی کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں میں معاونت کرے گی جبکہ وزیراعظم نے کمیٹی کو اسٹریٹجک پلاننگ اور پروگرام کی نگرانی کا اختیار بھی دے دیا۔

احساس انڈر گریجویٹ اسکالر شپس

وزیراعظم عمران خان نے 4 نومبر 2019 کو انڈرگریجویٹ اسکالرشپ پروگرام کا اجرا کیا جس کا مقصد 4 برس میں 2 لاکھ طلبہ کو سالانہ 50 ہزار روپے کی شرح سے وظائف دینا ہے۔

وزیراعظم نے پروگرام کے باقاعدہ آغاز سے قبل ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ آج میں ضرورت مند نوجوانوں کے لیے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انڈرگریجویٹ اسکالرشپ پروگرام کا آغاز کروں گا جس کے تحت سالانہ 50,000 کی شرح سے 4 برس میں 2 لاکھ طلبہ کو وظائف دیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نے ملکی تاریخ کے 'سب سے بڑے' اسکالرشپ پروگرام کا اجرا کردیا

انہوں نے کہا کہ میرے احساس پروگرام کی چھتری تلے انسانی سرمائے کی ترقی کے پیش نظر ان وظائف کا 50 فیصد طالبات کے لیے مختص ہے۔

مقاصد

احساس پروگرام کے تحت اس انڈرگریجویٹ اسکالر شپ کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی طالب علم وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہے۔

کسی بھی سرکاری جامعہ میں میرٹ پر داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات، جو کم آمدنی والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں وہ احساس انڈرگریجویٹ اسکالرشپ کے اہلیت کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔

ڈیجیٹل پاکستان وژن

وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو ڈیجیٹل خطوط پر استوار کرنے کے منصوبے 'ڈیجیٹل پاکستان وژن' کا افتتاح 5 دسمبر کو اسلام آباد میں ایک منعقدہ تقریب میں کیا جس میں منصوبے کی سربراہ ڈاکٹر تانیہ ایدروس اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر سمیت دیگر شریک تھے۔

ڈیجیٹل پاکستان وژن کے تحت ہر پاکستانی تک انٹرنیٹ کی رسائی کو یقینی بنایا جائے گا بلکہ اسے بنیادی حق تسلیم کیا جائے گا، ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر تیار کیا جائے گا تاکہ لوگ روزمرہ کے کام اسمارٹ فون استعمال کرتے ہوئے محفوظ اور تیزی سے کرسکیں۔

اسی طرح ای گورنمنٹ آپریشنز کو فروغ دیا جائے گا تاکہ حکومتی عمل کے لیے کاغذی کارروائی کی ضرورت نہ رہے اور شہریوں کے لیے حکومتی خدمات کو ڈیجیٹل کیا جائے گا، ڈیجیٹل صلاحیتوں اور تعلیم کو فروغ دے کر نوجوانوں کے لیے متعلقہ شعبے میں روزگار کو یقنی بنایا جائے گا جبکہ کمپنیوں کو پھلنے پھولنے کے لیے سازگار مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

وزیراعظم نے منصوبے کو مستقبل کے لیے نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہماری پوری توجہ ڈیجیٹل پاکستان منصوبے پر ہو گی جس کے ذریعے ہم نوجوانوں کی صلاحیتیں دنیا بھر کے سامنے لائیں گے اور اس ایک چیز سے ہماری نوجوان آبادی ہمارے لیے طاقت بن جائے گی کیونکہ ہمارے پاس دنیا میں دوسری سب سے بڑی نوجوان آبادی ہے، یہ ہمارے لیے بہت بڑا موقع ہے اور ہم اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔

وزیراعظم نے ڈیجیٹل وژن پاکستان منصوبے کا افتتاح کیا—فائل/فوٹو:ڈان
وزیراعظم نے ڈیجیٹل وژن پاکستان منصوبے کا افتتاح کیا—فائل/فوٹو:ڈان

پی ٹی آئی نے اس منصوبے کی سربراہی کے لیے گوگل کے سنگاپور آفس میں ایک اہم عہدے پر خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر تانیہ ایدروس کو منتخب کیا ہے جنہوں نے امریکا کی برانڈیز یونیورسٹی سے بائیولوجی اور اکنامکس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی سے ایم بی اے کیا۔

بعد ازاں انہوں نے ایک اسٹارٹ اپ کلک ڈائیگنوسٹک کی بنیاد رکھی اور اس کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا اور گوگل کی جنوبی ایشیا کی کنٹری منیجر کے طور پر 2008 سے 2016 تک کام کیا اور پھر انہیں گوگل کے پراڈکٹ، پیمنٹ فار نیکسٹ بلین یوزر پروگرام کی ڈائریکٹر بنادیا گیا۔

ٹیکنالوجی پارک

وزیراعظم عمران خان نے 9 دسمبر کو نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں پاکستان کے پہلے ٹیکنالوجی پارک کا افتتاح کیا۔

ریڈیو پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پارک نسٹ کے نواح میں قائم کیا گیا ہے جسے ماحولیاتی نظام کے حوالے سے ملک کے سب سے بڑے جدت پر مبنی اور تحقیقی ادارے کے طور پر سراہا جارہا ہے اور مذکورہ پارک میں 40 سے زائد کمپنیوں کے دفاتر ہیں جن میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیاں شامل ہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے بیان کے مطابق یہ پارک ممتاز محققین، جدت پسندوں اور کاروباری اداروں کے لیے لانچ پیڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دے گا۔

اینٹی کرپشن ایپ کا افتتاح

وزیراعظم عمران خان حکومت میں آنے سے قبل کرپشن کے خاتمے پر زور دیتے رہے تھے اور ان کے اقتدار سنبھالتے ہی قومی احتساب بیورو (نیب) کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی لیکن وزیراعظم نے متعدد مرتبہ ان کی سرگرمیوں کو حدود قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرا بس چلتا تو سیکڑوں کرپٹ لوگوں کو جیل بھیج دیتا۔

وزیراعظم نے اسلام آباد میں 9 دسمبر 2019 کو پنجاب حکومت کی جانب سے تیار کی گئی اینٹی کرپشن ایپ کا افتتاح کیا تھا جس کے مقاصد کے حوالے سے انہوں نے بتایا تھا کہ عوام میں کرپشن کے حوالے سے آگاہی پھیلانا ضروری ہے اور یہ ایپ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

وزیراعظم نے 2019 میں سرکاری لنگر خانوں کا بھی افتتاح کیا—فائل/فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم نے 2019 میں سرکاری لنگر خانوں کا بھی افتتاح کیا—فائل/فوٹو: پی آئی ڈی

افتتاحی تقریب سے خطاب میں انہوں نے پنجاب حکومت کے محکمہ انسداد بدعنوانی کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے جو کارکردگی دکھائی اور پیسے برآمد کیے یہ انتہائی متاثر کن ہے، تقریباً 130 ارب روپے کی عوام کی زمین واگزار کروائی اور 5 ارب روپے کیش برآمد کیا یہ سب عوام پر خرچ ہوگا لیکن پاکستان میں مشکل یہ ہے کہ عوام کو سمجھ ہی نہیں ہے کہ کرپشن اور ان کی زندگی کا کیا تعلق ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ کرپشن ہوئی تو حکومت کا پیسہ چلا گیا اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے جو افسوس ناک ہے’۔

کرپشن کے حوالے سے آگاہی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک ملک کا پیسہ چوری ہوتا ہے تو اصل میں ساری قوم کو اس کا نقصان ہوتا ہے لیکن ہماری قوم کو عظیم بننے کے لیے کرپشن کے خلاف ہمارے جہاد میں شرکت کرنا پڑے گا’۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم عمران خان نے اینٹی کرپشن ایپ کا افتتاح کر دیا

اس کے علاوہ حکومت نے متعدد سود مند کام کرنے کے دعوے کیے جن میں معاشی حوالے سے تجارتی خسارے کو 19 فیصد کم کرنے کا دعویٰ بھی شامل ہے، حکومتی دعوؤں کے مطابق ایک سال کے دوران تجارتی خسارہ 19 فیصد کم ہوا ہے جو 37 ارب 60 کروڑ سے کم ہو کر 30 ارب 60 کروڑ ڈالر تک آگیا ہے، برآمدات بدستور 23 ارب ڈالر پر قائم ہیں جبکہ درآمدات میں 12 فیصد کمی آئی ہے جو 60 ارب 80 کروڑ سے کم ہوکر 53 ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

شیلٹر ہوم

24 نومبر 2018 کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کچھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ہدایت کی تھی کہ فٹ پاتھ پر سونے والے بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ کی تعمیر تک ٹینٹ کے انتظامات کیے جائیں۔

14 دسمبر 2018 کو وزیر اعظم عمران خان نے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پناہ گاہ (شیلٹر ہوم) کا افتتاح کیا تھا اور اس موقع پر صوبائی حکومت کے 100 روزہ منصوبے کے تحت پشاور میں 4 شیلٹر ہومز قائم کیے تھے۔

مذکورہ شیلٹر ہوم کے قیام کا مقصد بے گھر افراد کو چھت فراہم کرنا تھا اور حکومت کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا شیلٹر ہوم میں عام لوگوں کے لیے گھر جیسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی جہاں خصوصی افراد کے لیے بھی علیحدہ سے راستہ بنایا گیا تھا۔

بعد ازاں 22 دسمبر کو گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کراچی میں سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر کے قریب قائم کیے گئے شیلٹر ہوم (پناہ گاہ) کا افتتاح کیا تھا، قیام کا یہ عارضی انتظام ہسپتال میں شہر اور صوبے کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مریضوں کے ساتھ موجود خواتین اور بچوں کے لیے کیا گیا تھا۔

— فائل فوٹو: ڈان
— فائل فوٹو: ڈان

علاوہ ازیں 8 جنوری 2019 کو وزیراعظم عمران خان نے پشاور میں شلٹر ہوم کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے پناہ گاہ میں فراہم کیے جانے والی سہولیات کا جائزہ لیا تھا۔

15 دسمبر 2019 کو یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پناہ گاہ شیلٹر ہوم کے قیام کی سوچ کو ہر سطح پر بہت پذیرائی ملنے کے باوجود یہ پناہ گاہیں اپنی مدد آپ کے تحت چلائی جا رہی ہیں اور یہ شیلٹر ہومز مالی مسائل کا شکار مقامی حکام کے لیے انتظامی اور مالی بوجھ بن گئے ہیں۔

اس حوالے سے ایک بتایا گیا تھا کہ حکومت نے فنڈز مختص کیے بغیر وفاقی دارالحکومت اور دونوں صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پناہ گاہ قائم کردی تھیں اور یہ مانا جا رہا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے لیے فنڈز مختص نہ کیے تو ان گھروں کو طویل مدت تک چلانا مشکل ہو گا۔

رواں سال کے اختتام پر 29 دسمبر 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو سرد موسم میں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

ٹوئٹر پر ایک پیغام میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ پناہ گاہ کی فراہمی یقینی بنائیں اور 'انتظامیہ بے گھر افراد کے لیے فوری طور پر کھانے کا انتظام بھی کرے'۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ 'جن کے لیے پناہ گاہوں میں جگہ نہیں ان کے لیے عارضی بندوبست کیا جائے'۔

دیگر اقدامات

پی ٹی آئی حکومت نے سیاحت کے شعبے میں بھی خاطر خواہ اقدامات کے دعوے کیے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے تحت نیشنل کوآرڈی نیشن بورڈ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد ملک میں سیاحت کو فروغ دینا ہے۔

اسی طرح 29 جولائی 2019 کو پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کردی گئی اور اس سے متعلق پولی تھین بیگز ریگولیشنز 2019 متعارف کروایا گیا اور خلاف ورزی پر کارروائی کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایک ریسٹورنٹ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔

حکومت نے 2019 میں اہم عہدوں پر بڑی تبدیلیاں بھی کیں جس میں سب سے بڑی تبدیلی اپریل میں اسد عمر کو وزارت خزانہ سے الگ کرنا تھا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور میں وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں نبھانے والے عبدالحفیظ شیخ کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی جنہوں نے عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض کے لیے مذاکرات کیے اور بالآخر قرض بھی حاصل کرلیا جس کی پہلی قسط پاکستان کو موصول ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے سربراہ کے طور پر رضا باقر کو آئی ایم ایف سے لاکر ذمہ داری دی گئی جو وہاں پر اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، ان کے آنے کے بعد ملک میں ڈالر کی قدر میں ایک دم سے کمی آئی اور ملک کی کاروباری برادری نے پریشانی کا اظہار بھی کیا تاہم وہ اس ایک حد میں جا کر روکنے میں کامیاب ہوئے اور گزشتہ کئی ماہ سے ڈالر کی قیمت میں بڑی تبدیلی نہیں آئی۔

وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی مدت میں عوام کے ان توقعات کو پورا کرنا، جس کی امید انہوں نے 2011 سے 2018 کے انتخابات تک دکھائی تھی، جو مشکل ضرور ہیں لیکن انہیں اپنے عزم سے اس کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا وگرنہ عوام دیگر حکومتوں کی طرح انہیں بھی اگلے انتخابات میں مشکلات سے دوچار کردیں گے۔

وزیراعظم عمران خان خود کہتے ہیں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں بلکہ دنیا کے زیادہ وسائل رکھنے والے ممالک میں پاکستان شامل ہے تو ایسے میں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان وسائل کو بروئے کار لا تے ہوئے ملک کی معاشی قسمت کو بدل دیں اور زندگی کے ہر شعبے میں خوشحالی لاکر اصلاحات کے اپنے دعووں کو درست ثابت کریں جس کے لیے ابھی ان کے پاس مزید ساڑھے 3 سال ہیں۔


مرتب و تحریر: عبدالرشید اور محمد یوسف