نیب نے خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی
قومی احتساب بیورو (نیب) نے پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ 20 جولائی کا اپنی تفصیلی فیصلہ واپس لے اور فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے پیراگراف 18 سے 48، 56 اور70 حذف کیے جائیں۔
مذکورہ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ کسی بھی اپیل یا درخواست پر حتمی فیصلہ تین رکنی بینچ جاری کر سکتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سعد رفیق اور سلمان رفیق کو ضمانت دی۔
درخواست کے مطابق عدالت نے لارجر بینچ کے وضع کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ضمانت کا فیصلہ مختصر لکھا جائے تاہم دو رکنی بینچ نے 87 صفحات کا فیصلہ لکھا جو عدالتی فیصلے کے خلاف ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا حکومت کو 3 ماہ میں نیا نیب قانون لانے کا حکم
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز سے ٹرائل کورٹ میں مقدمات متاثر ہوں گے، عدالتی فیصلے میں آبزرویشنز کو حذف کیا جانا چاہیے۔
اپنی درخواست میں احتساب کے ادارے نے مؤقف اپنایا کہ نیب نے خواجہ برادران کو شفاف ٹرائل کا موقع دیا۔
نیب کی درخواست کے مطابق فیصلے میں چند آبزرویش کی روشنی میں ٹرائل کورٹ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگا۔
مذکورہ درخواست کے مطابق وعدہ معاف گواہ قیصر امین بٹ کے خلاف سخت ریمارکس سپریم کورٹ کے اپنے ہی ایک فیصلے کی نفی ہیں، وعدہ معاف گواہ کا بیان عدالت میں ثابت بھی کیا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست کے مطابق نیب آرڈیننس ایک خصوصی قانون ہے جو ملک میں رائج عمومی قوانین پر فوقیت رکھتا ہے، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ میں ملزمان کی جانب سے شور شرابہ کرکے سماعت ملتوی کروائی گئی، استغاثہ اپنے مؤقف پر قائم رہا اور انکوائری پرسکون انداز میں مکمل ہوئی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں سال 17 مارچ کو مختصر فیصلے میں سابق وزیر ریلوے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو 30، 30 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مذکورہ کیس میں ضمانت منظور کرلی تھی۔
بعد ازاں 20 جولائی کو سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں پیراگون سٹی کرپشن کیس میں قومی احتساب بیورو کے طرز عمل کو قانون، عدل، انصاف اور معقولیت کی مکمل خلاف ورزی کا واضح اظہار قرار دیا تھا۔
پیراگون سٹی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کیس کے 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا تھا کہ ’موجودہ کیس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی سے غیرقانونی محرومی اور انسانی وقار کو مکمل طور پر اہمیت نہ دینے کی بدترین مثال ہے‘۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کا امتیازی سلوک بھی اس کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ اس کی صداقت اور غیرجانبداری پر لوگوں کے یقین کو دھچکا لگا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیراگون کیس: ’نیب ملک و قوم کی خدمت کے بجائے اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے‘
فیصلے میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’بیورو بڑے مالیاتی گھپلوں کی صورت میں بھی ایک جانب کے افراد کے خلاف کارروائی سے گریزاں نظر آتا ہے جبکہ دوسری جانب لوگوں کو بغیر کوئی واضح وجہ بتائے مہینوں اور سالوں کے لیے گرفتار کرلیا جاتا ہے جبکہ قانون کے تحت تفتیش تیزی سے اور ٹرائل 3 روز میں مکمل ہوجانا چاہیے'۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا تھا کہ حالانکہ لوٹ مار اور بدعنوانی سے لڑنا ایک نیک مقصد ہے لیکن اس کے لیے اختیار کیا جانے والا طریقہ، کارروائی اور میکانزم قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی تھی کہ ’کسی شخص کی گرفتاری ایک بڑا معاملہ ہے لیکن گرفتاری کے لیے طاقت کے غلط استعمال سے سنگین نتائج مرتب ہوئے ہیں اس لیے اسے بہت احتیاط اور حساس طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘۔