شراب لائسنس کیس: نیب کی تفتیش کا دائرہ وسیع، وزیراعلیٰ پنجاب مشکل میں
قومی احتساب بیورو (نیب)، شراب کا لائسنس جاری کرنے سے متعلق کیس میں ایک وعدہ معاف گواہ کے مل جانے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف جنوبی پنجاب میں رشتہ داروں کے نام پر جائیدادوں حاصل کے بارے میں مزید تحقیقات کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار نیب کے ٹھوکر نیاز بیگ دفتر میں کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے جہاں ان سے قواعد کے خلاف ایک ہوٹل کو شراب کا لائسنس جاری کرنے کے لیے ایکسائیز اور ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کو مجبور کرنے کے لیے مبینہ 5 کروڑ روپے کی رشوت لینے کے بارے میں سوال جواب کیے گئے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ عثمان بزدار سے 100 منٹ تک سوالات کیے گئے اور اس دوران ان سے 60 سوال پوچھے گئے لیکن مشکل سے ہی انہوں نے کسی ایک سوال کا جواب دیا ہو۔
ذرائع کا کہنا تھا وزیراعلیٰ پنجاب کا اصرار تھا کہ انہیں تحریری طور پر سوالات دیے جائیں جس کے وہ جوابات بعد میں جمع کروادیں گے، انہوں نے کہا کہ وہ ایک وزیراعلیٰ ہیں اور ان کا ہر لفظ اہم ہے اس لیے انہیں تحریری طور پر جواب دینا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شراب کے لائسنس کا غیرقانونی اجرا: دامن صاف ہے، ڈرنے کی ضرورت نہیں، عثمان بزدار
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ عثمان بزدار سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے سابق سربراہ اشرف گونل کو ایک زیر تعمیر ہوٹل کے لیے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شراب کا لائسنس جاری کرنے کے لیے کیوں مجبور کیا۔
اس کے علاوہ ان سے سابق چیف سیکریٹری راحیل صدیقی کے ساتھ تعلقات اور ان کے تقرر کے پیچھے وجوہات، اشرف گوندل اور راحیل صدیقی کے درمیان لائسنس کے معاملے پر ہونے والی لڑائی، اس معاملے پر وزیراعلیٰ کا خصوصی اجلاس، ان کی جانب سے رشوت لینے میں ان کے انکل کا کردار اور ہوٹل مالک سے ان کے تعلقات کے ساتھ دیگر سوالات بھی کیے گئے۔
اس موقع پر انہیں یاد دلایا گیا کہ حال ہی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ نیب کو جواب دینے کے لیے بالکل تیار ہیں جس پر عثمان بزدار نے اصرار کیا کہ وہ تحریری جواب دیں گے۔
وزیراعلیٰ کے تعاون نہ کرنے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی افسر نے ان کی درخواست پر عمل کیا اور انہیں 12 صفحات پر مشتمل سوالنامہ دے دیا جس میں ان کے رشہ داروں کی جائیدادوں کے ریکارڈ اور شراب کے لائسنس سے متعلق سوالات تھے۔
نیب نے انہیں 18 اگست کو جواب جمع کروانے کا کہا، جس پر عثمان بزدار نے مزید وقت مانگا تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی۔
مزید پڑھیں: شراب کے لائسنس کا غیرقانونی اجرا: نیب نے عثمان بزدار کو طلب کرلیا
ذرائع کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے خود وزیراعظم عمران خان نے منتخب کیا تھا جو اشرف گوندل کی جانب سے نیب میں دیے گئے اس بیان کے بعد سے خاصی مشکل میں ہیں کہ انہیں وزیراعلیٰ کے دفتر سے شراب کا لائسنس جاری کرنے کے لیے ’زبانی‘ مجبور کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اشرف گوندل نے حال ہی میں نیب کے سامنے پیش ہو کر عثمان بزدار کے خلاف شراب کا لائسنس جاری کرنے کے کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اس سے ایک روز قبل ہی عثمان بزدار نے وزیراعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی جس میں رپورٹس کے مطابق نیب کی تفتیش پر بھی بات کی گئی تھی۔
اس ضمن میں حکمراں جماعت کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ’حالانکہ وزیراعظم اب بھی ڈی جی خان سے اپنے انتخاب کی حمایت کررہے ہیں لیکن نیب کی جانب سے وزیراعلیٰ کے گرد گھیرا تنگ ہونا وزیراعظم کو ’وسیم اکرم پلس‘ کو تبدیل کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب نے نیب میں پیشی کے بعد ٹوئٹر پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ قوم نے کل قانون شکنی اور آج قانون پسندی کا مظاہرہ دیکھا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ آج قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں نیب کے سامنے پیش ہوا اور اپنا مؤقف پیش کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے پاکستان میں کوئی قانون سے بالاتر نہیں، انکوائری کے معاملے پر نیب کو حقائق سے آگاہ کیا اور ابہام دور کرنے کے لیے حقائق سامنے رکھے۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ پنجاب میں قانونی قواعد و ضوابط کے مطابق امور حکومت چلا رہے ہیں، غلط کام نہ کیا ہے نہ کرنے دیں گے۔
خیال رہے کہ نیب نے 8 اگست کو وزیراعلیٰ پنجاب کو شراب کے لائسنس کے اجرا کے حوالے سے تفیش کے لیے طلب کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عثمان بزدار کے خلاف شراب کیس پر پیپلز پارٹی کا اعتراض
نیب ذرائع نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے لائسنس کے اجرا میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جبکہ مذکورہ حق صرف ڈی جی ایکسائز کو تفویض ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور کے یونیکورن ہوٹل نے محکمہ سیاحت سے رجسٹریشن اور لائسنس کے بغیر ہی ایکسائز میں ایل ٹو شراب کی فروخت کے لیے لائسنس کی درخواست جمع کرائی تھی جو صرف 4 یا 5 اسٹار ہوٹل میں پیش کی جاتی ہے۔
یونیکورن ہوٹل نے پاکستان ہوٹلز اینڈ ریسٹورنٹ ایکٹ 1976 اور رولز 1977 کے تحت لائسنس کی درخواست دی اور محکمہ ایکسائز کے افسران نے سی ایم (وزیراعلیٰ) پالیسی 2009 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوٹل کو محکمہ سیاحت سے رجسٹریشن اور لائسنس کے بغیر ہی شراب فروخت کرنے کا لائسنس جاری کردیا۔
بعدازاں محکمہ ایکسائز نے معاملہ وزیراعلیٰ ہاؤس کو ارسال کیا لیکن اس پر متعلقہ حکام نے کوئی کارروائی نہیں کی، اس ضمن میں دعویٰ کیا گیا کہ ہوٹل یونیکورن نے شراب فروخت کرنے کے لائسنس کی مد میں 5 کروڑ روپے رشوت دی تھی۔