'بھارت کے اتحادی ممالک کشمیری ریاست کی بحالی کیلئے اس پر دباؤ ڈالیں'
واشنگٹن: انٹرنیشنل کرائسس گروپ (آئی سی جی) نے ہندوستان کے بین الاقوامی اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسے 'ریاست کشمیر کی بحالی، نظر بند سیاستدانوں کو آزاد کرنے اور سیکیورٹی فورسز کی عام شہریوں سے ہونے والی زیادتیوں کے خاتمے کے لیے اس پر دباؤ ڈالے'۔
عالمی تھنک ٹینک آئی سی جی نے اپنی نئی رپورٹ میں بھارت کو مشورہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی طبقے سے دوبارہ بات چیت کرے اور مقبوضہ وادی میں سیکیورٹی فورسز کی بدانتظامیوں کو ختم کریں اور نئی دہلی کے بین الاقوامی شراکت داروں اور اتحادیوں پر زور دیا کہ انہیں اس کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: بھارت: راجستھان میں پاکستانی مہاجر خاندان کے 11 افراد ہلاک
'جموں وکشمیر داؤ پر لگتا جا رہا ہے' کے نام سے جاری رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ہندوستان کے حالیہ اقدامات نے خطے کی دو جوہری طاقتوں کے مابین فوجی اشتعال انگیزی کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
آئی سی جی نے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جارحانہ طرز عمل سے باز رہیں اور 2003 میں باہمی رضامندی سے ہونے والی سیز فائر کا احترام کریں۔
آئی سی جی نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ کشمیر اور پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام کے لیے 07-2003 کے دوران اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کی ترغیب دیتی ہے جس میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: کورونا کے مرکز میں آتشزدگی سے 11 افراد ہلاک
اسی عرصے کے دوران عسکریت پسندی کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان اور پاکستان نے باہمی بات چیت اور اعتماد پیدا کرنے کے متعدد اقدامات کا انتخاب کیا جس میں ایل او سی کا افتتاح بھی شامل تھا تاکہ دونوں ممالک میں کشمیری آزادانہ طور پر سفر اور تجارت کر سکیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان کوششوں میں نئی دہلی اور کشمیریوں کے بڑے اسٹیک ہولڈرز کے مابین بات چیت کی راہیں کھل گئیں جس میں آل پارٹیز حریت کانفرنس بھی شامل ہے جسے مقبوضہ کشمیر میں سب سے زیادہ نمائندگی کی حامل سیاسی قوت سمجھا جاتا ہے۔
اس میں نوٹ کیا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران کانگریس پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق کی بنیاد پر سیاسی منظرنامے کے دو مختلف کونوں سے تعلق رکھنے والے بھارت کے یکے بعد دیگرے دو وزرائے اعظم نے بھی سیاسی ذرائع سے کشمیریوں کی شکایات کو دور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں یک طرفہ تبدیلی غیر قانونی، غیر مؤثر ہے، چین
تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ مئی میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد مودی حکومت نے دوطرفہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے سے متعلق پاکستان کی پیش کش کو مسترد کردیا اور گزشتہ سال 5 اگست کے بعد جب نئی دہلی نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقوں کو ضم کردیا تو پاکستان اس پیشکش سے دستبردار ہو گیا تھا۔
آئی سی جی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو ضم کرنے کے بھارت کے غیرقانونی اقدام کے خلاف پاکستان کا رد عمل بڑی حد تک نئی دہلی کے اقدامات کے خلاف بین الاقوامی رائے کو ہموار کرنے کی کوشش تک محدود ہے۔
لیکن گزشتہ سال سے بھارت نے مقبوضہ وادی میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں جس نے صرف کشمیریوں کی بیگانگی کو بڑھاوا دیا اور پاکستان کے ساتھ تناؤ بڑھایا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس سے مقامی سطح پر عسکریت پسندی میں بھی اضافہ ہوا جو ضروری نہیں کہ سرحد پار سے آنے والے احکامات پر انحصار کرے۔
یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی نے بابری مسجد کی متنازع اراضی پر رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھ دیا
آئی سی جی نے نوٹ کیا کہ پچھلے سال فروری کے پلوامہ حملے کے پیچھے خودکش بمبار بھی ایک مقامی تھا جہاں مذکورہ واقعے نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین تناؤ کو جنم دیا تھا۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ ان مقامی عسکریت پسندوں کے ایک اور حملے سے دونوں ممالک کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ بھارت یقینی طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائے گا جس سے محاذ آرائی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ سن 2020 کے اوائل میں ہندوستانی حکومت نے ایک نیا ڈومیسائل قانون پاس کیا جس کے تحت ہندوستان کے شہریوں کو پہلی مرتبہ ملک کے دیگر مقامات سے جموں و کشمیر کا مستقل رہائشی بننے کا حق دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غیر قانونی اقدامات، پاکستان کا سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ اس طرح کے اقدامات سے کشمیریوں میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پھیل گیا ہے جو انہیں خطے کے نسلی، معاشرتی اور مذہبی تنازعات کو تبدیل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بدامنی کی مسلسل وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے آئی سی جی نوٹ کرتا ہے کہ یہ علاقہ جمہوری نگرانی یا مقامی سیاسی نمائندگی سے خالی ہے، کشمیر کے پورے سیاسی طبقے کی گرفتاری کے ایک سال بعد بھی اس کے کچھ نامور سیاستدان تاحال نظربند ہیں جبکہ جنہیں رہا کیا گیا ہے، انہوں نے ابھی تک مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
یہ خبر 10 اگست 2020 بروز پیر ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔