• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

پاکستانی نژاد امریکیوں کا ٹیلی میڈیسن سے متعلق جدید نظام دنیا میں کیوں کامیاب ہورہا ہے؟

ٹیلی میڈیسن کا ایک ایسا نظام جو فوری علاج کے ضرورت مند مریضوں کا صرف 5 منٹ میں بذریعہ اسکرین ڈاکٹرز سے رابطہ ممکن بنادیتا ہے۔
شائع August 17, 2020

پاکستانی نژاد امریکیوں کے متعارف کردہ ٹیلی میڈیسن کے جدید نظام میں انوکھا کیا ہے؟

ذرا تصور کیجیے کہ صحرائے تھر میں کسی غریب گھرانے کی ایک حاملہ خاتون مقامی ہسپتال میں آئے اور ہر منٹ کے ساتھ ان کی حالت بگڑتی جارہی ہو اور وہاں موجود ڈاکٹروں نے جواب دیتے ہوئے شہر کے کسی بڑے ہسپتال میں جانے کا مشورہ دے دیا ہو۔ لیکن معاشی تنگی اور صحت کی بگڑتی حالت میں اس حاملہ خاتون کو آخر کس طرح میلوں دُور ہسپتال پہنچایا جائے؟

ایسے خیالات سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، مگر اس تحریر میں ہم ایسی سہولت کے بارے میں بات کریں گے جو دُور دراز علاقوں میں ایمرجنسی کے مریضوں کو بروقت اور اعلیٰ ڈاکٹروں تک رسائی کو ممکن بناتی ہے۔

یہ جدید سسٹم کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟

یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ کورونا وائرس کے موجودہ بحران میں ٹیلی ہیلتھ کا چلن زور پکڑ رہا ہے، لیکن اس بارے بہت کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ یہ تصور ترقی یافتہ ممالک میں عالمی وبا سے پہلے موجود تھا۔ ہم جس جدید ٹیکنالوجی کا تذکرہ کرنے جارہے ہیں وہ بھی ٹیلی ہیلتھ کے شعبے میں اٹھایا جانے والا ایک جدید اور غیر معمولی قدم ہے۔

اس جدید ٹیلی ہیلتھ سسٹم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 2 پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹروں نے 2016ء میں قائم ہونے والی اپنی وی میڈ نامی کمپنی کے توسط سے ٹیلی میڈیسن کا ایک ایسا نظام متعارف کروایا ہے جو صرف 5 منٹ میں بذریعہ اسکرین ایسے تمام مریضوں کا ڈاکٹرز سے رابطہ ممکن بنادیتا ہے جنہیں فوری طور پر علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

وی میڈ کمپنی کے ذریعے ٹیلی ہیلتھ کے اس جدید نظام کو متعارف کروایا گیا ہے
وی میڈ کمپنی کے ذریعے ٹیلی ہیلتھ کے اس جدید نظام کو متعارف کروایا گیا ہے

جس ہسپتال میں یہ نظام نصب ہوتا ہے اسے پرائمری اسٹروک سینٹر پکارا جاتا ہے۔

اس نوعیت کی سہولت کا پہلا تجربہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں انجام دیا گیا۔ دراصل یہ ایک ایسے نظام کی آزمائش تھی جس کے ذریعے مریضوں کا نہ صرف متعلقہ ڈاکٹروں سے رابطہ کروایا جاسکے بلکہ اسے اتنا اعلیٰ معیار کا حامل بھی بنایا جائے کہ سیکڑوں میلوں کی دُوری کے باوجود ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ اور ان کا علاج بالکل ایسے ہی انداز میں کرسکیں جس طرح وہ اپنی کلینک میں کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ نظام امریکا کے تقریباً 60 طبّی مراکز میں فعال ہے۔

ٹیلی ہیلتھ کے اس جدید سسٹم کے بانی کون ہیں؟

امریکی ریاست کیلی فورنیا میں کام کرنے والے پاکستانی نژاد ڈاکٹر ارشد علی اور اعجاز عارف ٹیلی میڈیسن کی امریکی کمپنی وی میڈ کے بالترتیب چیف ایگزیکٹو آفیسر اور صدر ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز عارف
ڈاکٹر اعجاز عارف

وی میڈ کے شریک بانی اور صدر اعجاز عارف ٹیکنالوجی کے شعبے کا پس منظر رکھتے ہیں۔ اس کمپنی کو جہاں ارشد علی نے اپنے کلینکل تجربات سے نوازا وہیں اعجاز عارف نے اس میں ٹیکنالوجی اور انٹرپرنیورشپ کے تجربات بخشے۔

اعجاز بتاتے ہیں کہ ابتدائی طور پر ہم فزیشن سروس فراہم کرنا چاہتے تھے لیکن جلد ہی انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ ہمیں ٹیکنالوجی میں ترقی کی ضرورت ہے لہٰذا ہم نے اس پر کام کرنا شروع کردیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے 2017ء میں اس پروجیکٹ پر کام شروع کیا اور 2018ء کے آخر تک اپنا پہلا پلیٹ فارم تیار کرلیا تھا۔ یہ انتہائی نگہداشت اور ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس وقت سے ہم اس ٹیکنالوجی کو فروخت کر رہے ہیں۔ سسٹم کی تیاری میں ڈاکٹر ارشد اور دیگر ان ڈاکٹروں نے کمال مدد فراہم کی جو ٹیلی میڈیسن سے وابستہ رہے۔ چنانچہ یہ سسٹم ٹیلی میڈیسن سے وابستہ ڈاکٹروں کے وژن کا حقیقی روپ ہے۔

دراصل ڈاکٹروں نے ٹیلی میڈیسن یا ٹیلی ہیلتھ میں موجود خامیوں کو بتایا جنہیں اس جدید سسٹم سے دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ارشد علی
ارشد علی

ڈاکٹر ارشد علی کہتے ہیں کہ ’میں ٹیلی میڈیسن میں 10 برس کا تجربہ رکھتا ہوں۔ اس دوران میں نے کچھ خامیاں پائیں۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ ماضی میں مریضوں کی نگہداشت ڈاکٹروں کی دستیابی کے گرد گھومتی تھی اور اس کا محور مریض اور اس کی نگہداشت نہیں تھا۔ چنانچہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہم مریضوں کو بہتر طبّی سہولت فراہم کریں جس کا محور مریض اور اس کا علاج ہو‘۔

طبّی شعبے میں اس جدید تصور کا عملی مظاہرہ پیش کرنے والے اعجاز عارف نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ یہ خیال ہمارے ادارے سے وابستہ سلیکون ویلی کے انجینئروں نے دیا اور عملی جامہ پہنایا لیکن اس کا سارا کام پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہی ہوا جو ہمارے لیے باعثِ فخر بات ہے۔

کیا پاکستان میں اس سسٹم کو متعارف کیا جا رہا ہے؟

عرب نیوز کے مطابق اب یہ کمپنی امریکا میں متعارف کردہ ٹیلی ہیلتھ کے جدید نظام کو مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں مریضوں کو ٹیلی ہیلتھ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے سیڈ نامی بزنس گروپ کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ اس شراکت داری کی وسعت مشرق وسطیٰ، پاکستان، شمالی افریقہ اور بھارت تک پھیلی ہے۔

اعجاز عارف نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں لوگوں کے لیے وہی سروسز دستیاب ہوں گی جو امریکا میں دستیاب ہیں کیونکہ ان دونوں عرب ممالک میں لوگوں کی قوتِ استطاعت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں ایسے نئے طریقوں اور ایسی جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروانا ہوگا جو وہاں کے عوام کی جیبوں پر بھاری نہ ہو۔

ڈاکٹر ارشد اس نظام کو پاکستانی ہسپتالوں میں نصب کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر ارشد کا کہنا ہے کہ اگرچہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر ٹیلی ہیلتھ و میڈیسن کے رجحان کو تقویت ملی ہے لیکن تاحال ہسپتالوں میں اس طرح کی خدمات دستیاب نہیں۔

مریض کے ایمرجنسی سیکشن میں داخل ہونے کے ساتھ محض 5 منٹوں میں ڈاکٹر سسٹم پر لاگ ان ہوجاتا ہے اور اس کا معائنہ اور علاج معالجہ اس انداز میں کرتا ہے جس طرح ڈاکٹر اسی کمرے میں موجود ہوں۔

ڈاکٹر اعجاز عارف کی خواہش ہے کہ یہ نظام پاکستان میں بھی فعال ہو۔ اس حوالے سے ان کی انڈس ہسپتال سے بات چیت بھی ہوئی ہے اور ان کی جانب سے ایک پراڈکٹ بھی تیار کرلی گئی ہے اور امید ہے کہ یہ جلد ہی فعال ہوجائے گی۔ چند غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے اس نظام کو پاکستان کے دُور دراز دیہی علاقوں میں بھی نصب کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں وی میڈ سے وابستہ جنید قاضی نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پاکستان میں ایسے نظام کی تنصیب میں سب سے بڑا مسئلہ کمیونیکیشن یا مواصلات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی انفرااسٹرکچر کا فقدان ہے لہٰذا وی میڈ اپنا نیٹ ورک متعارف کروانے کا عزم رکھتی ہے جو تیز ترین ہے اور بروقت معائنے اور علاج معالجے میں مدد فراہم کرسکے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے

  • طبّی خدمات کو آسانی سے انجام دیا جا سکتا ہے
  • علاج معالجے میں ہونے والے اخراجات میں کمی واقع ہوسکتی ہے
  • تمام مریضوں کے لیے صحت کی سہولیات میں بہتری لائی جاسکتی ہے
  • علاج کے دوران کسی بھی قسم کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا باآسانی پتا لگایا جاسکتا ہے۔

جنید قاضی کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے غریب مریضوں کو علاج کے لیے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا۔ شعبہ طب میں ٹیکنالوجی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نوع انسانی نے رابطے کے تیز اور جدید ذرائع کو دیگر شعبوں میں تو استعمال کیا لیکن شعبہ طب میں نہیں آزمایا، وقت آگیا ہے کہ طب کے میدان میں ٹیکنالوجی کی زیادہ سے زیادہ مدد لی جائے اور مریضوں کی مدد کی جائے کیونکہ اس سے افضل عمل اور کوئی نہیں۔

انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستانی حکومت ایسی پالیسیاں ترتیب دے جس کی مدد سے اس ٹیلی میڈیسن کے جدید طریقوں کے لیے راہ ہموار ہوسکے اور غربا کی صحت کا بہتر انداز میں خیال رکھا جاسکے۔

سسٹم کے فوائد

ڈاکٹر ارشد علی کے مطابق ایمرجنسی کے مریضوں کو متعلقہ ڈاکٹروں تک فوری رسائی میں دشواریاں پیش آتی ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے طبّی مراکز میں ڈاکٹر دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ اس مشاہدے کے بعد ہی انہیں مریضوں کو ڈاکٹروں کی فوری مدد دلوانے کا خیال آیا۔

اس جدید نظام کے بانیوں کا کہنا ہے کہ اس نظام کے تحت ہسپتالوں کو اچھی خاصی رقم کی بچت ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں اس بچت سے مریضوں کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔

اعجاز کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ممتاز مقام رکھنے والی انٹیل کمپنی نے ہمارے ساتھ شراکت داری کرلی ہے اور اب ہم مشترکہ طور پر اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ٹیلی ہیلتھ کے اس سسٹم کے ذریعے ایک ہی وقت میں ایک سے زائد ڈاکٹر بھی مریض کے معائنے اور علاج معالجے میں حصہ لے سکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ مریض کے اہل خانہ بھی اس سسٹم پر لاگ اِن ہوکر مریض کے حالات جان سکتے ہیں۔

ٹیلی ہیلتھ کے شعبے میں وی میڈ کا جدید نظام ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے
ٹیلی ہیلتھ کے شعبے میں وی میڈ کا جدید نظام ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے

گھر بیٹھے علاج معالجے کی سہولت حاصل کرنے کے لیے ٹیلی میڈیسن کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ بلاشبہ یہ سب موجودہ ہنگامی حالات میں ایک بہتر اور آسان طریقہ بن کر سامنے آیا ہے۔

اعجاز عارف کہتے ہیں کہ اس نظام کے حوالے سے پاکستانی حکومت سے معاملات طے پا رہے تھے کہ کورونا وائرس کے بحران نے جنم لے لیا اور یہ سلسلہ رک گیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پینل میں امریکا کے ساتھ ساتھ پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹیم بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر ارشد نے بتایا کہ امریکا اور دیگر ممالک میں اس نئی ٹیکنالوجی کا کامیاب استعمال جاری ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ امریکا کے کُل ہسپتالوں میں سے نصف ہسپتال اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کلینک جانے والے مریضوں کو دیکھنے کے لیے وی کلینک کے علاوہ گھر پر موجود مریضوں سے براہِ راست رابطے میں آنے کے لیے بھی سروس موجود ہے، جس کی مدد سے مریضوں کو دیکھا جاتا ہے اور بذریعہ ٹیلی سسٹم انہیں مانیٹر کیا جاتا ہے۔

وی میڈ کی سروس ٹیلی ہیلتھ کی دیگر سروسز سے مختلف کیوں ہے؟

اعجاز عارف کہتے ہیں کہ ہم نے وی میڈ کے ذریعے اس سوچ کو جنم دیا ہے کہ مریض کا علاج مرکزی نقطہ ہونا چاہیے نہ کہ ٹیکنالوجی، نہ رقم ادا کرنے والا، نہ طبّی سہولت فراہم کرنے والا۔ ہماری کمپنی کا فلسفہ ہے care on time یعنی بروقت نگہداشت۔

ٹیلی ہیلتھ کی دنیا میں کئی ٹیلی میڈیسن کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیاں موجود ہیں، لیکن ان سے خود مریض اپنی علامات کو دیکھتے ہوئے سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ڈاکٹروں سے رابطے میں آتا ہے، پھر معائنے اور علاج معالجے کے لیے کسی مخصوص دن پر کوئی مخصوص وقت دے دیا جاتا ہے، یوں یہ ٹیلی میڈیسن کو direct to consumer کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم ہمارا فرق یہ ہے کہ ہم تشویشناک حالات میں مبتلا اور ہسپتال لائے جانے والے مریضوں کو کم سے کم وقت میں متعلقہ ڈاکٹروں تک رسائی کو ممکن بنادیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہمارے صارفین ہسپتال ہیں لہٰذا ہماری ٹیکنالوجی ہسپتالوں میں مریضوں کو متعلقہ ڈاکٹروں تک رسائی دلوانے میں مدد کرتی ہے۔

اعجاز کہتے ہیں کہ صرف دیہی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹروں اور سہولیات کا فقدان پایا جاتا ہے اور نیورولوجسٹ اور آئی سی یو ڈاکٹروں کی تعداد محدود ہے۔ اس خلا کو ٹیکنالوجی کے ذریعے پُر کیا جاسکتا ہے۔ ہم کسی بھی ہسپتال جاکر انہیں کہیں گے کہ ہمارے پاس آپ کے لیے turnkey solution ہے اور آپ کو 2 مختلف شعبوں کی سروسز فراہم کرنے والے اداروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے، لیکن ہمارا ادارہ دونوں سروسز فراہم کر رہا ہے اور یوں ہم ہسپتالوں کو لاحق الف تا ی، ہر طرح کے مسائل حل کردیتے ہیں۔

ہمارے پاس عالمی معیار کا حامل ٹیکنالوجی پلیٹ فارم اور عالمی معیار کے حامل ڈاکٹر (مرد و خواتین) بھی ہیں۔ ہسپتالوں کو یہ ماڈل پسند آتا ہے کیونکہ اس طرح انہیں ایک سے زائد مختلف اداروں کی سروسز حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارا ادارہ ہسپتالوں کو کامیابی کے ساتھ گزشتہ 3 برسوں سے مطلوبہ تمام ضروریات ایک سروس میں شامل کرتے ہوئے پوری کر رہا ہے۔ ہماری کمپنی ایسے پہلے اداروں میں شامل ہے جو ہسپتالوں کو ایک ہی وقت میں ٹیکنالوجی اور ڈاکٹروں تک رسائی دے رہی ہے۔ اس سے قبل ایک ادارہ یا تو ٹیکنالوجی کی سہولت فراہم کرتا تھا یا پھر طبّی عملے کی خدمات فراہم کرتا تھا۔

ارشد ٹیلی میڈیسن پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک ہوتی ہے ٹیلی مانیٹرنگ اور دوسری ہوتی ٹیلی کنسلٹیشن سروسز۔ ہم اس وقت ٹیلی کنسلٹیشن کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ مثلاً آپ اگر کسی ایسے مریض کو جانتے ہیں جو بیمار ہے یا اسے ڈاکٹر کی ضرورت ہے تو وہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرسکتا ہے اور لاگ اِن کے ذریعے ڈاکٹر تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر یہی ضرورت کلینک میں پیش آئے تو صحت مرکز یا ہسپتال، یا پھر کلینک میں موجود مریض کو ٹیکنالوجی کے استعمال سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان عوامل کو ابتدائی کنسلٹیشن سروسز پکارا جاسکتا ہے۔

سب سے عام ٹیلی نیورولوجی ہے جو مارکیٹ کا 30 سے 40 فیصد حصہ ہے۔ دوسرے نمبر پر ٹیلی سائیکائٹری کو رکھ سکتے ہیں، میں صرف ماہرانہ سروس کی بات کر رہا ہوں نہ کہ بنیادی صحت کی سہولیات کی، اور اس کے بعد باری آتی ہے آئی سی یو، ٹیلی کارڈیولوجی، ٹیلی ہاسپٹلسٹ سروسز سمیت دیگر کی۔ انہیں آپ ٹیلی کنسلٹیشن سروسز کا حصہ قرار دے سکتے ہیں۔

اب آتے ہیں ٹیلی مانیٹرنگ پر، جس کی سہولت گھر یا ہسپتال میں فراہم کی جاسکتی ہے۔ گھر پر فراہم کردہ خدمات کو Remote Patient Monitoring پکارا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے تو ان کے پاس مریض کی نگرانی کا برقی آلہ یا خون میں گلوکوس کی مقدار جاننے کے لیے گلوکومیٹر موجود ہوگا، ڈاکٹر بذریعہ کلاؤڈ ان آلات یا ڈیوائسز کی مدد سے حاصل ہونے والے تمام ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکیں گے اور اگر کہیں کوئی فکر کی بات ہوئی تو وہ مریض کو فوری طور پر محتاط کرسکیں گے۔ Remote Patient Monitoring کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح مریضوں کو ہسپتالوں میں داخل ہونے کی ضرورت گھٹ جائے گی اور تشویشناک مریضوں کی بہتر انداز میں احتیاط برتی جاسکے گی۔

آپ اس کے ذریعے مریضوں کی حالت بگڑنے سے پہلے ان کی اسکریننگ کرسکتے ہیں یا پھر فوری طور پر طبّی تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں۔ تو یہ تھا اس کا ایک پہلو۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی مریض ہسپتال یا آئی سی یو میں آتا ہے اور اگر میں اس مریض کی ٹیلی مانیٹرنگ کرنے والا ڈاکٹر ہوں تو میں مریض کی نگرانی کے ساتھ ساتھ اس سے جڑی تمام اہم طبّی معلومات حاصل کرسکتا ہوں۔

یہ کچھ آئی سی یو مانیٹرنگ کی ہی طرح ہے جہاں مریض کے مانیٹر سے ضروری ڈیٹا کی نگرانی بھی کر رہا ہوتا ہوں۔ مریضوں کی صحت کا خیال رکھنے کے تناظر میں یہ دو اہم عناصر ہیں۔

اعجاز یہاں بات آگے بڑھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اب تک آپ کو یہ تو سمجھ آگیا ہوگا کہ ہم نے اعلیٰ معیار کی آزمودہ ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے۔ ہم نے جو بنیادی کلاؤڈ انفرااسٹرکچر تیار کیا ہے مختلف مواقع پر مختلف ضرورتوں کے لیے اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ہم جب یہ ٹیکنالوجی تیار کر رہے تھے اس وقت میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہم ایک ایسا ٹیکنالوجی ایکو سسٹم ڈیزائن کریں جس کی مدد سے گھر بیٹھے اور صحت مراکز میں موجود مریضوں کو طبّی سہولیات فراہم کی جاسکیں، مریضوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاسکے، فوری طبّی امداد کو ممکن بنایا جاسکے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طبّی سہولیات کے حوالے سے تمام طبّی تقاضوں کو ایک ہی ذریعے سے پورا کیا جائے۔ اور ہمیں فخر ہے کہ ہماری کمپنی یہ کام کر رہی ہے۔

پہلے ایک کمپنی کسی ایک سہولت میں مہارت حاصل کرلیتی تھی اور صرف اسی کو ہی اپنے پلیٹ فارم سے فراہم کرتی تھی جبکہ دوسری سہولت کے لیے کسی دوسری کمپنی سے رابطے میں آیا کرتی تھی، مگر ہم نے تمام سہولیات کو یکجا کرکے ایک ہی پلیٹ فارم کے ذریعے فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ ٹیلی ہیلتھ کی اہمیت اور ضرورت جلد ہی دنیا پر اجاگر ہوجائے گی اور موجودہ کورونا بحران میں ایسا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

حرفِ آخر

پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر اور ٹیکنالوجی ماہر کے متعارف کردہ اس سسٹم کو اگر پاکستان کے دُور دراز علاقوں میں نصب کردیا جائے تو غالب امکان ہے کہ سیکڑوں مریضوں کی جانیں بچ سکتی ہیں۔

امید ہے کہ تھر میں ایک دن بڑے ہسپتال کی گائناکولوجسٹ کی ورچؤل موجودگی ممکن ہوجائے گی اور ہمارے تصور میں موجود اس تھری عورت کو بروقت معائنے اور علاج معالجے کی سہولت اسی ہسپتال میں دستیاب ہوجائے گی۔

ایاز احمد لغاری
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔