کراچی کے معروف ریگل چوک پر کیا کچھ بیتا؟ (پہلا حصہ)
ریگل چوک پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ چوک پاکستان کی مختلف سیاسی تحریکوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں اس چوک سے 2 ایسی تحریکیں وابستہ ہیں جو کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔
پہلی تحریک 60ء کی دہائی کی طلبہ تحریک تھی، دوسری 80ء کی دہائی میں صحافیوں کی تحریک تھی جس کا آغاز کراچی پریس کلب میں احتجاجی کیمپوں سے ہوا تھا، اور بعدازاں یہ تحریک ریگل چوک پر منتقل کردی گئی تھی۔
معروف طالب علم رہنما اور نامور صحافی حسین نقی کے مطابق طلبہ تحریک کے لیے اس چوک کا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا کہ 60ء کی دہائی میں یہ علاقہ کراچی کے پوش بازاروں میں شمار ہوتا تھا۔ یہاں پہنچنے کے لیے کراچی کے کسی بھی علاقے سے عوامی ٹرانسپورٹ کے ذریعے کم سے کم پیسوں میں باآسانی سے پہنچا جاسکتا تھا۔ ناظم آباد چورنگی سے ریگل چوک تک کا کرایہ 2 آنے تھا جبکہ نرسری (پی ای سی ایچ ایس) سے کرایہ ایک آنے تھا۔
طلبہ تحریک کی وجہ 3 سالہ ڈگری کورس کی فیسوں میں اضافہ تھا اور اسی کے ساتھ دیگر مطالبات کی حمایت میں ہر شام کو یہاں مظاہرے کیے جاتے تھے۔ ریگل چوک کے انتخاب کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ یہاں سے گورنر جنرل ہاؤس (موجودہ گورنر ہاؤس) بھی قریب تھا۔ اس کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں بسنے والے طلبہ بھی باآسانی یہاں پہنچ جاتے تھے۔ آخرکار ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں ایوبی آمریت نے گھٹنے ٹیک دیے اور طلبہ کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے۔
پاکستان کے ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرد سینیٹر تاج حیدر سے ہم نے درخواست کی کہ ریگل چوک پر احتجاجی مظاہروں اور اپنی سیاسی یادداشتوں کے حوالے سے ہماری رہنمائی فرمائیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ تاج حیدر میرے مطالعے میں آنے والے ان چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن سے آپ کسی وقت بھی رابطہ کرسکتے ہیں اور کوئی بھی فرمائش بلاجھجک کرسکتے ہیں۔ تاج حیدر نے ریگل چوک کے حوالے سے ہماری معلومات میں یوں اضافہ کیا:
’اب تو طویل عرصے سے ہر تنظیم اور ہر قسم کے احتجاج کا مرکز کراچی پریس کلب کے سامنے کی سڑک بنی ہوئی ہے لیکن پہلے یہ مرکز ریگل چوک ہوا کرتا تھا۔ لوگ بسوں میں سفر کرتے تھے اور کراچی شہر کے ہر کونے سے بسیں ریگل چوک سے ایمپریس مارکٹ کی سڑک کی پٹی تک پہنچتی تھیں، اس لیے لوگوں کو ریگل چوک پہنچنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
’چونکہ کراچی پریس کلب بھی نزدیک ہی تھا، اس لیے صحافی اور کیمرا مین دوست بھی آرام سے ریگل چوک پہنچ جاتے تھے۔ لیکن ہاں، اگر مظاہرے کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی جاتی تو پھر نہ صرف مظاہرین کو بلکہ صحافی حضرات کو بھی آس پاس کی گلیوں سے ہوکر ریگل چوک پہنچنا ہوتا تھا۔ اِدھر اُدھر کی گلیوں میں چھپے سیاسی کارکن شروع کے ایک دو نعروں کے بعد تیزی سے چوک پر جمع ہوتے تھے اور پھر پولیس مظاہرین اور صحافیوں پر ٹوٹ پڑتی تھی اور تھوڑی دیر کی مارا ماری کے بعد کچھ لوگ گرفتار ہوجاتے تو کچھ لوگ پتلی گلیوں سے فرار ہوجاتے تھے جبکہ کچھ سامنے ہی واقع ریگل اور اوڈین سنیماؤں کی لابیوں میں جاکر دیواروں پر آویزاں تصاویر کو دیکھنے میں یا ٹکٹ کی لائنوں میں لگ جاتے تھے۔ اور جن کی جیبوں میں چائے کے پیسے ہوتے تھے وہ قریبی ریسٹورنٹوں میں چائے پینے بیٹھ جاتے تھے، جیسے ان سب کا مظاہرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
’پولیس بھی 'امن و مان' قائم ہونے کے بعد گرفتار لوگوں کو ساتھ لے کر وہاں سے کھسک جاتی تھی۔ اگلے دن کے اخبارات میں خبر لگے نہ لگے لیکن ہمارا مظاہرہ ہوجاتا تھا۔ یہ بھی مزے کی بات ہے کہ پکڑے جانے والوں میں بیشتر لوگ بے گناہ راہ گیر ہوتے تھے، جن کو بعد میں تھانوں سے کچھ لے دے کر رہائی ملتی تھی۔ اب چونکہ جو تجربہ کار سیاسی کارکنان ہوتے تھے انہیں ریگل پر مظاہروں میں شرکت کے لیے آنے اور اس کے بعد پولیس کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے جانے والے راستے بھی یاد ہوا کرتے تھے۔
’وکٹوریہ روڈ (موجودہ عبدللہ ہارون روڈ) پر واقع پوسٹ آفس کے پاس والے کونے پر پہلی منزل پر بھی دکانوں کے اوپر ایک ریسٹورنٹ تھا جس کی کھڑکیاں ریگل چوک پر کھلتی تھیں۔ یہاں سی آئی ڈی کے ایک بہت مشہور افسر بیٹھا کرتے تھے جنہیں ہم سیاسی کارکن 'صابر چچا' یا صرف 'چچا' کہتے تھے۔ صابر چچا کہتے وقت لفظ چچا کا تلفظ وہ نہیں ہے جو ہم عام طور پر اپنے والد کے چھوٹے بھائی کے لیے استعمال کرتے ہیں، بلکہ اس لفظ کو دو ٹکڑوں میں توڑ کر 'چچ چا' پکارا کرتے جو اس قربت کا آئینہ دار ہے جو ہم سب کو سی آئی ڈی کے ان افسر کے ساتھ تھی۔ یہاں تک کہ محترم حمید کاشمیری مرحوم نے پاکستان ٹیلی ویژن پر جو ایک بے مثال سیریز 'کافی ہاؤس' کے ٹائٹل سے لکھی ہے اس میں بھی صابر چچ چا کا کردار لکھا گیا ہے۔ شوٹنگ کے وقت اداکاروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس کردار کے نام کا تلفظ چچ چا کریں۔ نامور اداکار محمد یوسف مرحوم نے حمید کاشمیری صاحب کے اس سیریل میں انتہائی مہارت کے ساتھ یہ کردار ادا کیا تھا۔
’چچ چا روز اس کونے کی پہلی منزل والے ریسٹورنٹ میں تشریف لاتے تھے۔ ان کے ایک دو نائبین بھی وہیں ہوتے تھے جو ریسٹورنٹ میں اِدھر اُدھر کی میزوں پر بیٹھے ہوتے تھے یا پھر ریسٹورنٹ میں آتے جاتے رہتے تھے۔ ریگل چوک پر ہونے والے مظاہروں کا جائزہ صابر چچ چا ریسٹورنٹ کی کھڑکیوں سے لیتے تھے۔ اس آبزرویشن پوسٹ سے ان کو ہر سمت سے آنے والی سڑکیں دُور تک نظر آتی تھیں۔ پھر وہ ریسٹورنٹ میں ہی سب کے سامنے بیٹھ کر چائے پیتے اور سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے اپنی رپورٹ لکھتے تھے۔ اس دور میں جب موجودہ جدید ذرائع کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے افسرانِ بالا تک جلدی سے جلدی مظاہرے کی رپورٹ پہنچانے کا یہی واحد طریقہ تھا۔ افسرانِ بالا صابر چچ چا کی فرض شناسی کی وجہ سے ان پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت تک جب میں پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کا صدر اور سینیٹ کا رکن بن چکا تھا، وہ اپنے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔
’میرے زمانہ طالبِ علمی سے لے کر سینیٹ میں پہنچنے تک چچ چا کراچی میں ہم شرپسندوں کے سلسلے سے اپنی ڈیوٹی نبھاتے رہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ آخر کے دنوں میں وہ فیلڈ میں کم اور اپنے آفس میں زیادہ ہوتے تھے۔ ان کے رینک کے بارے میں کبھی پتا نہ چلا لیکن وہ کم از کم ڈی ایس پی کے رینک تک ضرور پہنچ چکے ہوں گے۔ وہ بلا تکلف ٹیلیفون کرکے یوسف پیرزادہ سے میری دن بھر کی مصروفیات کے بارے میں تفصیلات پوچھ کر اپنی رپورٹ مرتب کرلیتے تھے۔ مجھے یوسف پیرزادہ بھائی نے یہ بھی بتایا کہ تین تلوار پر میرے دفتر کے سامنے جو چائے والا ٹھیلے پر چائے بیچتا تھا اس کو ان کی سفارش پر 400 روپے ماہوار پر چچ چا نے اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔ یہ ایک بہترین فیصلہ تھا۔ مجھ سے دفتر میں پارٹی کے جو دوست بھی ملنے آتے تھے اور جن کی تواضع کے لیے چائے وہ ٹھیلے والا لاتا تھا، مجھ سے ملنے والوں کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے چچ چا کی وہ بہترین سورس تھا۔
’وہ اپنے فرائض کے سلسلے میں ہمارے خلاف جو بھی کارروائی کرتے رہے ہوں ہم نے کبھی کسی کی زبان سے چچ چا کے لیے چھوٹی سے چھوٹی بدعنوانی کا الزام بھی نہیں سنا۔ کامریڈ ممتاز مہکری کو بھٹو شہید ویٹ کانگ کہتے تھے۔ ایوب کے خلاف تحریک کے دوران ممتاز نے کراچی میں بسیں جلانے کا ریکارڈ قائم کیا یہاں تک ایک گیت بن گیا تھا جس کا پہلا مصرعہ ’مہکری نے بس جلائی‘ تھا۔ چچ چا کو مہکری سے شکایت تھی، اس لیے نہیں کہ وہ ایوب مخالف تحریک میں بسیں جلاتے تھے، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے ایک مرتبہ چچ چا کو دھوکہ دیا تھا۔
’ہوا یوں تھا کہ مہکری گرفتاری سے بچنے کے لیے ناظم آباد میں اپنے گھر کی پچھلی گلی سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے، جہاں چچ چا پہلے سے موجود تھے۔ چچ چا نے آواز دی کہ مہکری رُک جاؤ۔ مہکری نے اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا کہ چچ چا ہٹ جائیں، مجھ سے گولی چل جائے گی۔ چچ چا نے راستہ دے دیا اور مہکری فرار ہوگئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مہکری ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی نہتے تھے اور بعد میں وہ سب کو بتاتے پھرے کہ انہوں نے چچ چا کو کیسے بے وقوف بنایا۔ ایک بی اے کا نوجوان طالب علم سی آئی ڈی کے ایک انتہائی تجربہ کار افسر کو اس طرح بے وقوف بنا جائے اور پھر پورے شہر میں اس بات کو مشہور کرتا پھرے تو یہ چچ چا کی پیشہ ورانہ مہارت کی بے عزتی تھی اور مہکری سے ان کے شکوے کی ایک انتہائی جائز وجہ بھی۔ چچ چا اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ایسے فرض شناس اور دیانتدار افسر کم ہوتے ہیں لیکن انہیں زندگی بھر اس بات کا افسوس رہا کہ انہوں نے مہکری کو جانے دیا لیکن وہ مزے لے لے کر سب کو بتاتا تھا کہ اس نے نہتے ہوکر چچ چا کو کیسے بیوقوف بنایا۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ اسے اس بات سے روکو، میں نے تو مہربانی کی تھی لیکن لوگ اس بات کو میری بیوقوفی سمجھتے ہیں‘۔
ریگل چوک پر ایک ایرانی ہوٹل جس کا نام 'فریڈرک کیفے ٹیریا' ہے اب صرف اس کے نام کی تختی رہ گئی ہے۔ یہ کیفے ٹیریا بند ہوچکا ہے۔ ہمارے بھائی، دوست اور مہربان فرشید روحانی کے مطابق اس کیفے ٹیریا کا افتتاح ایوب خان نے کیا تھا۔ یہ کراچی کا پہلا روف ٹاپ ریسٹورنٹ تھا، جس میں ایک مے خانہ بھی تھا۔ اس کیفے ٹیریا کے حوالے سے تاج حیدر یوں فرماتے ہیں کہ:
’سہ پہر میں فریڈرک کیفے ٹیریا کی رونق علی مختار رضوی بھائی کی ٹیبل ہوتی تھی۔ علی مختار بھائی کو سب لوگ پیار سے علامہ کہتے تھے۔ وہ ایک سرکردہ طالب علم لیڈر تھے جنہیں جوہر بھائی کے ساتھ ملٹری کورٹ سے ایک سال کی قید اور بعد میں کراچی بدری کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔ میں علی مختار بھائی کے ساتھ ایک کپ چائے پی کر ٹھیک 4 بجے ٹینس کھیلنے کے لیے اٹھ جاتا تھا۔
اس معمول میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔ جوہر بھائی کو ہمیشہ مجھ سے شکایت رہی کہ ہر وقت میری نظر گھڑی پر رہتی تھی۔ یہاں تک کہ جب میں سینیٹ میں تھا اس وقت بھی اکثر وہ مجھ سے کہا کرتے تھے 'Senator you are too organized. Leave your mind free if you want to do something creative' (سینیٹر آپ کچھ زیادہ ہی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ذہن کو آزاد رکھیے۔)
جولائی کی ایک ایسی ہی سہ پہر تھی۔ میں علامہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سہراب نے مجھے اشارہ کیا کہ ٹیلیفون پر آکر بات کرلوں۔ دوسری جانب قائدِاعظم کے دیرینہ رفیق جناب ایم اے ایچ اصفہانی تھے، جنہوں نے فریڈرک کیفے ٹیریا فون کرکے کہا تھا کہ کسی اسٹوڈنٹ سے ان کی بات کروادیں۔ اصفہانی صاحب نے پہلی بات یہ کہی کہ خبر بُری ہے مادرِ ملت کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے علامہ کو اشارہ کیا کہ وہ آکر اصفہانی صاحب سے بات کرلیں۔ اصفہانی صاحب نے ہم سے کہا کہ ہم میت کو غسل دینے والی خواتین کا انتظام کرکے اور ان کو لے کر جلدی موہٹہ پیلس پہنچیں۔
’ہم خاموشی سے بغیر کسی کو کچھ بتائے کیفے ٹیریا سے نکلے۔ میری کار اس وقت درست حالت میں میرے ساتھ تھی۔ علی مختار بھائی نے کہا کہ ان کی والدہ میت کو غسل دینے والی ایک خاتون کو جانتی ہیں، جو ان کے گھر کے قریب ہی رہتی ہیں۔ لالو کھیت سی ون ایریا میں ہم علی مختار بھائی کے گھر پہنچے۔ 10 منٹ کے اندر اندر ان کی والدہ غسل دینے والی 2 خواتین کے ساتھ میری گاڑی میں بیٹھی تھیں اور ہم موہٹہ پیلس کی جانب رواں تھے۔
’جب ہم وہاں پہنچے تو لوگ موہٹہ پیلس میں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اصفہانی صاحب موہٹہ پیلس کے ہال کے سامنے والی سیڑھیوں پر کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے خواتین کو اوپر پہنچوایا اور علی مختار بھائی اور میں باغ میں فوارے کے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں معروف سیاسی شخصیات کی موہٹہ پیلس میں آمد شروع ہوگئی۔ مادرِ ملت کی میت کے غسل و کفن کے بعد جب ہم ان کی میت کو غسل دینے والی خواتین کو واپس لالو کھیت میں ان کے گھر چھوڑنے جا رہے تھے تو ان میں آپس میں باتیں ہورہی تھیں اور وہ اس بات پر حیرانی کا اظہار کررہی تھیں کہ انہوں نے مادرِ ملت کے گلے پر پڑے ہوئے نیل کے نشانات دیکھے تھے۔ اس وقت ہمیں دُور دُور تک ان باتوں کا شائبہ تک نہیں تھا جو اب سامنے آرہی ہیں کہ مادرِ ملت کو ان کا گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ شاید ان کا اور ان کے بھائی کا گناہ یہی تھا کہ وہ ہمیں ایک آزاد ملک دے گئے تھے۔ شاید دونوں بہن بھائی اسی سلوک کے مستحق تھے جو ہم پاکستانیوں نے ان کے ساتھ کیا‘۔
خواتین کے حقوق کے حوالے سے پاکستان میں ایک بہت بڑا نام محترمہ انیس ہارون کا رہا ہے۔ انیس ہارون صرف خواتین کے حقوق کی ہی علمبردار نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں کسمپرسی کا شکار ہونے والے ہر فرد کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ نہ صرف وہ بلکہ تقریباً ان کا پورا خاندان بھی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ رہا ہے۔ ان کے شوہر ڈاکٹر ہارون احمد نہ صرف ایک نفسیاتی معالج ہیں بلکہ پاکستان میں طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کے حوالے سے بھی ایک بہت بڑا نام ہیں۔ اسی طرح ان کی بیٹی نادیہ ہارون جن کے ساتھ مجھے ایچ آر سی پی میں کام کرنے کا موقع ملا وہ بھی انسانی حقوق کی بحالی کے لیے ایک طاقتور آواز تھیں۔ انیس ہارون ریگل چوک کے حوالے سے اپنی سرگرمیوں اور اس دوران گرفتاری کا ذکر یوں کرتی ہیں:
’ریگل چوک ایک تاریخی جگہ ہے، پہلے تو یہ صرف اور صرف بسوں کا ایک بڑا جنکشن ہوتا تھا جہاں سے کراچی کے چاروں اطراف جانے والی بسوں کا جال بچھا ہوتا تھا۔ کراچی یونیورسٹی جو شہر سے 12 میل پرے ہوتی تھی وہاں چلے جائیں، کلفٹن، کیماڑی جائیں یا پھر لانڈی، ملیر جائیں ہر جگہ کی بس مل جاتی۔ برنس روڈ، فرئیر روڈ، پاکستان چوک بھی اطراف ہی میں پڑتے۔ پہلے تو یہاں ٹرام بھی چلتی تھی، جس کی یادگار ٹرام پٹہ رہ گیا تھا۔ چونکہ میں شہر کی دوسری طرف رہتی تھی، اس لیے میں ان راستوں سے زیادہ واقف نہیں تھی۔
کالج کا زمانہ میں نے حیدرآباد میں گزارا تھا۔ جب ریڈیو پروگراموں میں شرکت کے لیے ریڈیو اسٹیشن جانا ہوتا تو اس علاقے میں آنا پڑتا۔ پھر بھی ریگل چوک کے نام سے واقفیت کی وجہ وہاں ہونے والے جلسے، جلوس تھے۔ شہر کے مشہور کالج ایس ایم سائنس کالج، لا کالج، آرٹس ڈی جے اور ڈاؤ میڈیکل کالج اور ان کے ہاسٹل قریب و جوار میں واقع تھے، اس لیے یہ طلبہ تحریکوں کا گڑھ تھا۔ سیاسی جماعتوں کے جلسے، جلوس بھی شہر کا مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں شروع ہوتے یا اختتام پذیر ہوتے۔ اس زمانے میں طالب علموں کے پاس اکا دکا ہی گاڑیاں ہوتیں تو بسوں کی وجہ سے آنا جانا آسان ہوتا۔
’میں 1965ء میں کراچی یونیورسٹی آئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کا بہت زور تھا۔ این ایس ایف دل و جان سے ایوب خان کے خلاف محترمہ کی حمایت کر رہی تھی۔ میں بھی طلبہ کے اس وفد میں شامل تھی جو مہوٹہ پیلس کلفٹن میں محترمہ سے اظہار یکجہتی کے لیے گیا تھا۔ اب ایوب کے خلاف طلبہ کی تحریک میں بہت تیزی آ چکی تھی۔ ہمیں اکثر ریگل چوک جانا پڑتا تھا۔ گوکہ لڑکیاں زیادہ نہیں ہوتیں، لیکن ہم اپنا حصہ ضرور ڈالتے۔ حسین نقی، فتحیاب، معراج، رشید حسن خان، باقر عسکری سمیت کئی سینئر لیڈران تھے جو ہمیں پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس سے بچانے کی پوری کوشش کرتے۔ بڑا جوش و جذبہ ہوتا تھا۔ ہم ریگل چوک سے کافی مانوس ہوگئے تھے۔ وہ ہمارا ہائیڈ پارک بن گیا تھا۔ اپنے لیڈران کو گرفتار ہوتے دیکھتے تھے مگر خود کبھی گرفتار نہیں ہوئے۔ یہ شرف ہمیں نومبر 1981ء میں حاصل ہوا جب ضیاالحق کا آمرانہ دور تھا۔
’یہ بہت بُرا وقت تھا کیونکہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1979ء میں پھانسی دی جاچکی تھی۔ سیاسی جماعتوں، طلبہ اور مزدور یونین پر پابندی لگائی جاچکی تھی۔ اخبارات پر سخت سنسرشپ لگی ہوئی تھی۔ سیاستدان جیلوں میں تھے۔ کارکنوں اور صحافیوں کو کوڑے لگائے جا رہے تھے۔ سرِعام پھانسیاں ہو رہی تھیں۔ ہر طرف سناٹا اور خوف و ہراس کا عالم تھا۔ انہی دنوں بیگم نصرت بھٹو شدید علیل تھیں۔ بینظیر بھٹو سکھر جیل میں تھیں۔ بیگم بھٹو علاج کی غرض سے باہر جانا چاہتی تھیں مگر انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔ ہمیں ان کی زندگی کے بارے میں سخت تشویش تھی۔ نومبر 1983ء کی بات ہے۔ پیپلز پارٹی کی ویمن ونگ نے ریگل چوک پر مظاہرے کا خفیہ پروگرام بنایا۔ مجھے بھی دعوت دی گئی۔ گوکہ بھٹو صاحب معراج گروپ کو پہلے ہی الگ کرچکے تھے اور ویمن ونگ کی تنظیمِ نو ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر شمیم زین الدین اور مجھے اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا مگر میں نے پارٹی کی پہلی ویمن ونگ کی سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بیگم صاحبہ کے ساتھ بہت کام کیا تھا۔ میرے دل میں ان کے لیے بہت عزت تھی، میں نے مظاہرے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ پروگرام بہت خفیہ رکھا گیا۔ بڑے کوڈ ورڈز بنائے گئے۔ مگر ایجنسیوں کو ساری خبریں پہنچ چکی تھیں۔
’پروگرام کے مطابق ٹھیک 2 بجے ہم ریگل چوک پر جمع ہوگئے۔ ایک لال رومال کے لہرائے جانے پر ہمیں ایک ساتھ باہر آکر نعرے لگانے تھے۔ سو وہ ہم نے کیا۔ 15 سے 20 منٹ نعرے لگا کر ہم نے پمفلٹ بانٹے۔ اس وقت ریگل چوک پر بہت رش ہوتا ہے۔ وہاں سے نکل کر ہمیں گورنر ہاؤس جانا تھا، جہاں بیگم بھٹو کی دوست خواتین جمع تھیں۔ اچانک ایک سوزوکی وین وہاں رُکی، کسی نے پوچھا ہمیں گورنر ہاؤس چھوڑ دو گے! جیسے ہی ڈرائیور نے سر کے اشارے سے ہاں کہا، تو ہم 12 خواتین سوزوکی میں لد گئیں۔ ریگل چوک سے نکلتے ہی ہم میں سے کسی نے کہا کہ گورنر ہاؤس چلو لیکن ایک زوردار آواز آئی 'پریڈی تھانے چلو'۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا تو بالکل پیچھے ایک موٹا انسپکٹر اور 2 پولیس والیاں براجمان تھیں۔ کیوں؟ ہمارے پوچھنے پر بتایا 'آپ لوگ انڈر اریسٹ ہیں‘۔ 'اچھا!' ہم نے حیران ہو کر پوچھا 'تم لوگوں کو معلوم تھا؟' جواب ملا 'ہم تو بڑی دیر سے انتظار کر رہے تھے'۔ یوں ہم گرفتار ہوگئے اور 2 دن 2 راتیں پریڈی تھانے میں گزاریں۔ بڑا مزا آیا۔ ہم گاتے بجاتے رہے۔ سیاسی لیڈروں، کارکنوں، وکیلوں اور صحافیوں کا سارا دن تانتا بندھا رہتا۔ اتنے کھانے اور پھل وغیرہ آئے کہ ہم ایک ہفتے میں بھی ختم نہیں کرسکتے تھے۔ فتحیاب علی خان صبح سویرے ہی آگئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارا مقدمہ لڑیں گے۔ مارشل لا ریگولیشن کے تحت ریاست سے بغاوت کا الزام لگ سکتا ہے۔ 3 سے 6 مہینے سزا ہوسکتی ہے۔ ہوا یوں کہ تیسرے دن صبح ہمیں قیدیوں کی گاڑی میں بٹھا کر کورٹ لے جایا گیا۔ معلوم ہوا کہ چونکہ ساری دنیا میں بہت شور مچ گیا ہے اس لیے ضمانت پر رہائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کسی لڑکے نے اپنی موٹر سائیکل کے کاغذات رکھوا کر ضمانت کروائی۔ 1983ء سے لے کر 1988ء تک ہم نے پیشیاں بھگتیں۔ نہ پولیس نے چالان پیش کیا نہ کیس چلا۔ جانا ضروری ہوتا ورنہ گرفتاری کے وارنٹ نکل آتے۔ بی بی وزیرِاعظم بنیں تو ہمیں نجات ملی۔ پھر کیسے میں ریگل چوک کو بھول سکتی ہوں؟‘
(جاری ہے)
اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں