نئے کورونا وائرس کے خلاف کام کرنے والا جسم کا نیا ہتھیار سامنے آگیا
نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے دنیا بھر میں لاکھوں اموات ہوئیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر مریضوں میں اس کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے۔
اس حوالے سے طبی ماہرین کی جانب سے مسلسل کام کیا جارہا ہے کہ آخر کورونا وائرس کے شکار بیشتر افراد میں اس کی شدت معمولی یا معتدل کیوں ہوتی ہے۔
اب دریافت کیا گیا ہے کہ عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز قوت مدافعت کو نئے کورونا وائرس کی شناخت کرنے کی تربیت فراہم کرتے ہیں۔
طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مدافعتی خلیات جن کو ٹی سیلز کہا جاتا ہے، عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ نئے کورونا وائرس کے مخصوص مقامات بشمول اسپائیک پروٹین کو بھی شناخت کرلیتے ہیں۔
مدافعتی نظام کی اس 'یادداشت' سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ بیشتر افراد میں کووڈ 19 کی شدت معمولی یا معتدل کیوں ہوتی ہے۔
محققین نے زور دیا کہ فی الحال یہ قیاس آرائی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں ٹی سیلز کس حد تک کردار ادا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ٹی سیلز ان لاتعداد مالیکیولز اور خلیات کا محض ایک حصہ ہیں جن سے مل کر ہمارا مدافعتی نظام تشکیل پاتا ہے۔
امریکا کے لا جولا انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم اب ثابت کرسکتے ہیں کہ عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کے خلاف ٹی سیلز کی یادداشت اسے نئے کورونا وائرس کی شناخت میں مدد دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ مدافعتی نظام کی تحریک سے بیشتر افراد کو کووڈ 19 کے خلاف مختلف نوعیت کا تحفظ ملتا ہے۔
ان کے بقول مضبوط ٹی سیلز ردعمل یا ٹی سیلز کا بہتر ردعمل ممکنہ طور پر آپ کو زیادہ برق رفتار اور مضبوط ردعمل کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں ثابت کیا گیا تھا کہ 50 فیصد ایسے افراد جو کووڈ 19 کے شکار نہیں ہوئے، کے جسم میں ایسے ٹی سیلز موجود ہیں جو نئے کورونا وائرس کو شناخت کرسکتے ہیں۔
یہ صلاحیت دنیا بھر کے لوگوں میں دیکھی گئی اور محققین کا خیال ہے کہ یہ مدافعتی یا امیونٹی ممکنہ طور پر ماضی میں دیگر کورونا وائرسز کے اثر سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے، خاص طور پر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز۔
اس نئی تحقیق میں محققین نے 2015 سے 2018 کے دوران جمع کیے گئے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا، یعنی یہ نمونے اس وقت کے تھے جب کورونا وائرس سامنے نہیں آیا تھا۔
ان نمونوں میں ٹی سیلز کو دریافت کیا گیا جو نئے کورونا وائرس کے سو سے زائد مخصوص مقامات پر ردعمل ظاہر کرتے تھے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ایسے مضبوط مالیکیولر شواہد سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹی سیلز کی یادداشت عام کورونا وائرسز اور نئے کورونا وائرس کے ملتے جلتے جینیاتی سیکونسز کو دیکھ سکتی ہے۔
محققین نے نشاندہی کہ یہ ٹی سیلز وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز سے مختلف ہیں اور یہ مدافعتی نظام ایک اور ہتھیار ہے جو وہ کسی جراثیم کو خلیات سے متاثر کرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
عام نزلہ زکام کے وائرسز کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز ان وائرسز تک محدود ہوتی ہیںاور نئے کورونا وائرس کے خلاف متحرک نہیں ہوتیں۔