• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دفتر خارجہ

شائع August 6, 2020 اپ ڈیٹ August 7, 2020
فائل فوٹو:میڈیا ٹوڈے
فائل فوٹو:میڈیا ٹوڈے

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی بیک چینل ڈپلومیسی کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے پیش نظر بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال مسلسل بگڑ تی جا رہی ہے اور موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ترجمان نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کا ایک سال مکمل ہونے پر گزشتہ روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں یوم استحصال منایا گیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے گزشتہ ایک سال سے لاکھوں کشمیریوں کو فوجی محاصرے میں رکھا اور پوری وادی کو بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: او آئی سی، کشمیر پر اجلاس بلانے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے، شاہ محمود

وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پوری دنیا میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

ترجمان نے کہا کہ بدھ کو بھارت کی بھرپور مخالفت کے باوجود مسئلہ کشمیر ایک سال کے اندر تیسری بار سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا گیا، چین نے مسئلہ کشمیر پر بیان جاری کیا، مسئلہ کشمیر پر ایک سال کے اندر تین بار سلامتی کونسل میں بحث پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب ہے، سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث واضح کرتی ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوست ممالک اور عالمی برادری مسلہ کشمیر کے حل میں سنجیدگی دکھا رہے ہیں۔

ترجمان نے پاکستان کے سیاسی نقشے کے اجرا پر بھارتی بیان کو مسترد کیا اور کہا کہ سیاسی نقشے کے اجرا پر تمام ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا۔

انہوں نے گزشتہ روز دیر کےبن شاہی سیکٹر میں پاکستانی پوسٹوں پر دہشت گردوں اور افغان فورسز کی جانب سے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرحد پر کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے پرعزم ہے۔

ترجمان نے کہا کہ دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے کی بھی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بن شاہی میں افغان فورسز کی ہلاکت پر ردعمل میں افغان آرمی کو بن شاہی میں بارڈر فلیگ میٹنگ کا کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی

ترجمان نے بیروت دھماکے سے متعلق کہا کہ لبنان میں ایک اور پاکستانی خاندان بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، پاکستان دھماکے میں جانی نقصانات پر تعزیت کرتا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان او آئی سی کا بانی ممبر ہے جبکہ او آئی سی کشمیر کے معاملے پر مستقل طور پر پاکستان سے تعاون کر رہی ہے اور ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو یو این قراردادوں کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ 'ہمارے او آئی سی ممالک سے قریبی تعلقات ہیں، 5 اگست 2019 کے بعد پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے ساتھ تین اجلاس کیے اور او آئی سی نے کشمیر پر مضبوط بیانات دیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستانی عوام کی او آئی سی سے توقعات ہیں، چاہتے ہیں کہ او آئی سی اپنا قائدانہ کردار ادا کرے'۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی سے متعلق بیان اسی تناظر میں دیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بدھ کے روز غیر معمولی طور پر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔

اے آر وائی نیوز پر ایک ٹاک شو میں شرکت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔

کلبھوش یادیو معاملے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق پاکستان نے کلبھوشن معاملہ پر بھارت کو ایک اور موقع دینے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے بعد بھارت کو پیغام پہنچا دیا، اب ہمیں بھارت کے جواب کا انتظار ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024