• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر پر پاکستان کا اظہار مذمت

شائع August 5, 2020
مندر کا سنگِ بنیاد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثییت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہونے پر رکھا گیا — فوٹو: اے پی
مندر کا سنگِ بنیاد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثییت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہونے پر رکھا گیا — فوٹو: اے پی

پاکستان نے بھارتی شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی اراضی پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی سخت مذمت کی ہے۔

واضح رہے کہ آج (5 اگست) کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں بابری مسجد کی متنازع اراضی پر رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھ دیا ہے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کی زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث بڑے ہجوم کو محدود کرنے کے باوجود ہندوؤں نے مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کا جشن منایا۔

اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بابری مسجد کی اراضی پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی مذمت کی گئی۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ تاریخی بابری مسجد پانچ صدیوں سے موجود تھی لیکن بھارت کی سپریم کورٹ کے ناقص فیصلے کے نتیجے میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ فیصلے سے نہ صرف عدالتی نظام پر یقین اٹھ گیا بلکہ بھارت میں موجود اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر تیزی سے حملے ہو رہے ہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی عجلت میں تعمیر، مسلمان مخالف شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) اور شہریوں کو آزادی سے محروم کرنے کے لیے قومی شہری رجسٹرڈ (این آر سی) کے علاوہ نئی دہلی میں مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ریاستی شمولیت اور دیگر مسلم مخالف اقدامات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کس طرح بھارت میں مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد تنازع حل نہ ہونے پر بھارت میں خانہ جنگی کا خطرہ، ثالث کی تنبیہ

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مقبوضہ علاقے کی آبادکاری کو تبدیل کرنے کے بی جے پی کے مذموم ارادے دراصل تفرقہ انگیزی اور انتہا پسندانہ نظریہ کی بڑھتی ہوئی لہر کی عکاسی ہیں جس سے بھارت اور علاقائی امن کے لیے مذہبی خطرہ لاحق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس-بی جے پی اتحاد منظم انداز میں بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسلسل نشانہ بنانے اور انہیں ختم کرنے کے لیے ذمہ دار ہیںاور مساجد پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے بدستور جاری ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ کورونا وائرس کو پھیلانے کے لیے نہ صرف مسلمانوں کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا بلکہ ان کی مذہبی آزادی پر بھی بی جے پی - آر ایس ایس کے پیروکار حملہ آور ہوئے ہیں جو اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔

پاکستان نے بھارتی حکومت سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں اور دیگر اسلامی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کیلئے انتہا پسند ہندوؤں کو جمع ہونے کی کال

واضح رہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے آغاز سے پہلے، نریندر مودی نے ہندو قوم پرستوں کی جانب سے قائم کیے گئے عارضی مندر میں رکھے رام (ایک چھوٹے سے بت) کے آگے ماتھا ٹیکا جہاں اسی جگہ 1992 میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ ایودھیا میں مندر کا سنگِ بنیاد، بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثییت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہونے پر رکھا گیا ہے۔

بابری مسجد کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا تھا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔

جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کیلئے انتہا پسند ہندوؤں کو جمع ہونے کی کال

ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے سے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں جمع کروا رکھی تھیں جس کے بعد اس معاملے پر اُسی سال 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔

مسلمان فریقین کا مؤقف

بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں کا مؤقف ہے کہ یہ سال 1528 سے موجود مذکوہ مقام پر قائم ہے، مسجد کی موجودگی کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے خلاف 1855، 1934 اور 1949 میں کیس کیے گئے تھے۔

برطانوی راج نے بابر کی جانب سے دی گئی امداد کو منظور کر لیا تھا جس کے بعد اس امداد کا سلسلہ نوابوں کی جانب سے جاری رہا۔

1885 کے مقدمے کی دستاویزات سے مسجد کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، مسلمانوں کے پاس اس جگہ کی ملکیت تھی اور وہ 22، 23 دسمبر 1949 تک یہاں عید کی نماز پڑھتے رہے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد تنازع کے حل کیلئے ثالثی پینل کی مدت میں 3 ماہ کی توسیع

مسلمانوں کا اصرار ہے کہ مسجد کی موجودگی کے حوالے سے تاریخ دانوں کے متنازع دلائل انتہائی کمزور ہیں اور ان کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

ان کے دلائل کے مطابق بھارتی محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی رپورٹ میں مسجد کے نیچے مندر کی بات 'محض ایک دعویٰ' ہے جس کے سائنسی حقائق موجود نہیں۔

ہندو فریقین کا مؤقف

ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ یہ مندر صدیوں پہلے بنایا گیا جسے ممکنہ طور پر راجا وکراما دتیا نے بنایا ہوگا اور پھر 11ویں صدی میں اسے دوبارہ بنایا گیا، اس مندر کو 1526 میں بابر نے یا پھر 17ویں صدی میں ممکنہ طور پر اورنگزیب نے گرا دیا تھا۔

تاریخی دستاویزات جیسے سکاندو پرانا یا اس کے بعد میں آنے والے ایڈیشنز، سفرناموں اور دیگر کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔

عینی شاہدین کے ثبوتوں کے مطابق لوگوں کا صدیوں سے ماننا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد: بھارتی سپریم کورٹ نے تنازع کے حل کیلئے ثالثی ٹیم بنادی

اے ایس آئی کی رپورٹ سے مندر کی موجودگی اور اسے ڈھائے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔

رواں برس بھارت کی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا تنازع حل کرنے کے لیے ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔

دسمبر 1992 میں ایودھیا - بابری مسجد کا تنازع اس وقت پرتشدد صورت اختیار کرگیا تھا جب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

گزشتہ 3 دہائیوں میں کشمیر میں بھارت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہزاروں کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ایودھیا میں 500 سال قدیم مسجد کو شہید کرنے کی وجہ سے ہونے والے فسادات میں 2 ہزار افراد قتل کردیے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

انتہا پسند ہندوؤں کے مطابق وہ اس مقام پر ہندو دیوتا 'رام' کا نیا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی جائے پیدائش ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ 16ویں صدی کی بابری مسجد، مسلم بادشاہوں نے ہندو دیوتا کا مندر گرانے کے بعد قائم کی تھی۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 اور 2019 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ انتہا پسند ہندوؤں کے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024