چیئرمین نیب کی چینی اسکینڈل کی تحقیقات پیشہ ورانہ انداز میں مکمل کرنے کی ہدایت
قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ چینی سبسڈی وصول کرنے والے ہر شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
نیب اعلامیے کے مطابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت چینی اسکینڈل پر اجلاس ہوا جس میں شوگر کمیشن کی رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
چینی اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم میں 2 انویسٹی گیشن افسران، فنانشل ایکسپرٹ سمیت لیگل کونسل اور شوگر انڈسٹری کے ماہر بھی شامل ہوں گے۔
اس ضمن میں چیئرمین نیب نے تحقیقاتی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ چینی سبسڈی تحقیقات کو شفاف، میرٹ اور پروفیشنل انداز میں مکمل کریں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ تحقیقات میں تمام متعلقہ افراد اور محکموں کو اپنی صفائی کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا اور غیر قانونی طریقے سے چینی سبسڈی وصول کرنے والے ہر شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں فرانزک ایکسپرٹ، ایڈیشنل ڈائریکٹر اور متعلقہ ڈائریکٹرز شامل ہوں گے۔
علاوہ ازیں اعلامیہ میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر، پراسیکیوٹر جنرل، ڈی جی آپریشنز تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا نیب ہیڈ کوارٹرزمیں ہر ماہ جائزہ لیں گے۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تحقیقات کو شفاف، غیر جانبدارانہ اور میرٹ پر کام مکمل کرنے کے لیے تمام صوبوں سے چینی پر دی جانے والی سبسڈی سے متعلق مکمل تفصیلات معلوم کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ایس ای سی پی سے متعلقہ کمپنیوں کی قانونی، مالی اور آڈٹ رپورٹس اور دیگر متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کرکے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
واضح رہے ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی عرفان منگی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کریں گے۔
عرفان منگی سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی گئی اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے اراکین میں سے ایک تھے جس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مشہور پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
اس کے علاوہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری سمیت پاکستان پیپلزپارٹی ( پی پی پی) کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ہونے والی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے سربراہ بھی ہیں۔
واضح رہے کہ 28 جولائی کو وفاقی حکومت نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ چینی مافیا کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کریں اور 90 روز میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان، مسابقتی کمیشن پاکستان اور پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ کے چیف سیکریٹریز کو الگ الگ خط لکھا تھا اور ان سے فرانزک آڈٹ کی رپورٹ کی روشنی میں چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا کہا تھا۔
چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ
یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: چینی مافیا-سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ، صارفین اور کسانوں کو دھوکا دینے میں ملوث
بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔