ایٹمی حملے کی یاد میں بنایا گیا دُکھ اور کرب کا میوزیم
جاپان، ابھرتے سورج کی سرزمین، جہاں معمول کے مطابق خوشگوار صبح بیدار ہو رہی تھی اور ’ہیروشیما‘ نامی شہر بھی اسی سورج سے زندگی کی چمک وصول کر رہا تھا۔
شہری روزمرہ کے کاموں میں حسبِ عادت مصروف تھے۔ طلبا کو وقت پر اسکول پہنچنا تھا، دفاتر میں کام کرنے والے افراد اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن تھے، کوئی پیدل جا رہا تھا تو کوئی سائیکل پر، کسی نے موٹر سائیکل اور کسی نے ٹرین کے ذریعے اپنے فاصلے کو کاٹنے کا فیصلہ کیا تھا، گاڑیاں اور بسیں بھی سڑکوں پر رواں دواں تھیں۔ وہاں ہر طرف زندگی کسی معصوم بچے کی طرح مسکرا رہی تھی۔
اس مظلوم شہر کے کئی گھر ایسے تھے، جن کے باورچی خانوں میں اب تک ناشتہ بنانے کی لذیذ سرگرمی جاری تھی اور چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ شہر کے بیچوں بیچ بہنے والے دریا کی موجیں بھی خراماں خراماں بہہ رہی تھیں۔
شہر کی ایک معروف عمارت صوبائی صنعتی معاملات کے فروغ کا تجارتی مرکز تھی، جس کی گنبد نما عمارت کے مرکزی دروازے کو کھولنے کے لیے چوکیدار نے پوری تیاری کر رکھی تھی۔ ایک بینک کے باہر متعلقہ شخص بینک کھلنے کا منتظر تھا، جس کی مالی ضرورت اسے شاید وقت سے پہلے ہی وہاں لے آئی تھی۔
شہر کے سب طے شدہ مناظر اپنے ہونے کی سرگرمی میں متحرک تھے۔ ایسے میں شہر بھر کی گھڑیاں 8 بج کر 14 منٹ بجا رہی تھیں اور پھر ٹھیک ایک منٹ بعد، وہ قیامت اس شہر پر ٹوٹی، جس پر آج تک انسانیت دکھی ہے۔ تاریخ کے صفحات وہاں سے اٹھنے والی راکھ سے سیاہ ہیں۔
زندگی سے دھڑکتے ہوئے اس شہر میں 37 سالہ مقامی صحافی، جس کا نام ‘ناکامورا’ تھا، وہ برق رفتاری سے اپنے روزمرہ معمول کے مطابق، سائیکل کے ذریعے شہر سے باہر جا رہا تھا۔ گردونواح کی علاقائی خبروں کے حصول کے سلسلے میں یہ فریضہ وہ تقریباً روز ہی انجام دیتا تھا۔ اسی کام کی خاطر وہ 6 اگست 1945ء کو بھی اپنے مقررہ وقت پر شہر سے باہر آگیا، لیکن جب واپس پلٹا، تو سب کچھ پلٹ چکا تھا۔ اس کے شہر میں موت کا سناٹا تھا، زندگی سفاکی کے تابوت میں رکھی ہوئی تھی اور وہ باہر سے آنے والوں میں پہلا شخص تھا جس نے اس قیامت کا مکمل چہرہ دیکھا۔
کرہ ارض پر شاید ہی کسی انسان کے لیے اس سے بڑا کوئی صدمہ ہو کہ اس کی آنکھوں کے سامنے انسانوں سے بھرا ہوا پورا شہر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے۔ وہ جاپانی صحافی اس شہر سے کئی کلومیٹر دُور ہونے کے باوجود متاثر ہوا۔ جب یہ ایٹمی دھماکہ ہوا تو اس کی لرزش سے وہ بھی زمین پر گر پڑا، جس سے اس کے چہرے پر چوٹ بھی آئی۔ اسی نے سب سے پہلے اپنے اخبار کے مرکزی دفتر میں، جو دوسرے شہر میں تھا، یہ اذیت ناک خبر دی، لیکن اس خبر پر کوئی دفتری ساتھی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پھر اگلے چند ثانیوں میں امریکی صدر کے مطلع کرنے پر جاپانی فوج بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھی، ہرچند کہ ایک جاپانی فوجی جہاز نے ٹوکیو سے پرواز بھر کر ہیروشیما کی تباہی کا قیامت خیز منظر دیکھ نہ لیا۔ ایک ایسا شہر جہاں تمام بدن دریدہ اور روحیں زخمی تھیں۔
دوسری جنگِ عظیم میں یہ دھماکہ کیوں کیا گیا، کیسے ہوا، ان باتوں سے ہم سب واقف ہیں۔ مجھے اس کے صحافتی بیانیے میں بھی نہیں جانا، میں تو یہ سوچ کر ہی لرز جاتا ہوں کہ دنیا میں ایک ایسا بم استعمال ہوا، جس میں محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ لوگ بیک جنبش ہلاک کردیے گئے، اس سے زیادہ زخمی اور متاثر بھی ہوئے۔ پھر یکے بعد دیگرے ایک اور ایسا ہی ایٹمی دھماکا جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی میں ہوا، وہاں بھی لاکھوں افراد کی جان گئی۔ اس سانحہ کو 75 برس گزر چکے ہیں، لیکن اذیت کا کرب تاحال برقرار ہے۔
آج ہیروشیما اس راکھ کے ڈھیر سے نمودار ہوکر ایک نئے اور ترقی یافتہ شہر میں تبدیل ہوچکا ہے، جب اس کے اسٹیشن پر بلٹ ٹرین آکر رکتی ہے اور آپ اس میں سے اتر کر شہر میں داخل ہوتے ہیں تو یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کا نشانہ بننے والا شہر ہے۔
یہاں آج بھی لوگ اسی طرح اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں، سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں، چائے خانوں میں خوش گپیوں کے دور جاری ہیں، لیکن اس شہر میں، اس قیامت کے گزر جانے کی یادگار کے طور پر ’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ کی عمارت ایسی ہے، جہاں تاریخ ابھی تک سسکیاں لے رہی ہے۔ بقول جون ایلیا
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
اس شہر کے مختلف میئرز نے احتجاجی خط لکھے اور پوری دنیا سے اپیل کی، جن ممالک نے ایٹم بم بنا لیے، ان سب ملکوں کو ایٹمی قوت بننے اور اس کے استعمال کے ارادے سے باز رکھنے کی درخواست کی۔ حوالے کے طور پر ہیروشیما کے معصوم بچوں کے جلے ہوئے کپڑے، بدن سے پھسلتی ہوئی انسانی کھال، چہرے پر آنکھوں کی جگہ صرف سوراخ، لاکھوں لوگوں کے پگھلے ہوئے لاشے اور درد کی مجسم تصویر بننے والے ’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ کو دیکھنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس ایٹمی خبط کی ہولناک تباہی سے عبرت حاصل کریں اور بعض رہیں۔ یہ دنیا کا واحد میوزیم ہے، جس کو کبھی بھی، کہیں بھی، دوبارہ کسی بھی ملک میں، کبھی نہیں بننا چاہیے۔
عام جاپانیوں کی اکثریت کا بھی یہ خیال ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہ اگر اس جنگ میں ہتھیار نہ ڈالتے، تو مزید جانی نقصان ہوتا اور اگر ان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو شاید جواب میں استعمال کرتے، لیکن اب جنگ ختم ہوچکی، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ سب نفرتیں بھلا کر امن کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔
یہ جنگ نہ تھمتی تو مزید خون کی ندیاں بہتیں، کمال یہ ہے کہ اسی ایٹمی راکھ سے جدید جاپان نے جنم لیا۔ وہ جاپان جو دنیا کی نمبر وَن معیشت ہے، جس کا پاسپورٹ رواں سال کے ایک جائزے کے مطابق، دنیا کا سب سے محفوظ اور قیمتی پاسپورٹ ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، ثقافت و ادب اور دیگر شعبوں میں نوبیل انعامات سمیٹتا ہوا یہ ملک، جہاں آج بھی، پرائمری اور ہائی کلاس کے بچوں کو ’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ کا دورہ کرایا جاتا ہے، تاکہ وہ جدید دنیا کا شعور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ اور قومی سانحہ سے واقف ہوسکیں۔
‘ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ میں ایک طرف تصاویر کے ذریعے ایٹم بم کے حملے سے پہلے شہر کے مناظر اور پھر بعد کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ جیسے ایک بینک کے باہر، بینک کھلنے کے انتظار میں بیٹھا شخص اس بم دھماکے بعد دھواں بن کر اڑ گیا، بینک کے دروازے کے سامنے پتھر پر بیٹھے ہوئے اس شخص کی صرف شبیہ باقی رہ گئی، وہ پتھر بھی اس میوزیم میں موجود ہے۔ اسکول کے بچوں کے پھٹے ہوئے یونیفارم اور دیگر اشیا، لاتعداد تصاویر بھی دل کو لرزا دیتی ہیں۔
اس قیامت کی گواہی دینے والوں کے لہجے درد سے لرزتے ہیں۔ اس میوزیم میں ایٹم بم سے ٹوٹنے والی قیامت کے مناظر آج بھی رُکے ہوئے ہیں۔ پاکستان و بھارت سمیت دیگر ایٹمی قوتوں کے حامل ممالک کے سربراہان کو لکھے ہوئے خطوط بھی میوزیم میں آویزاں ہیں۔
دنیا کی چند منتخب زبانوں میں میوزیم کے بارے میں جانا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اردو زبان بھی ان چند زبانوں میں شامل ہے، جس کی وجہ وہ جاپانی دوست ہیں، جو پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور جاپان میں اردو زبان کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کی کوششوں سے یہ ممکن ہوسکا کہ اردو بھی میوزیم میں شامل چند زبانوں میں سے ایک ہے۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر جتنا لکھا، پڑھا اور بولا جائے کم ہے۔ ایک تشنگی اور خلا ہے، جس کا اظہار پوری طرح کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے جاپان کے ایک ادیب ’ماسوجی ایبوسے’ کے ناول ’کالی بارش’ کو پڑھیں تو اس سانحہ سے قبل اور بعد کے مناظر کو تفصیلی طور پر جاننے کا موقع ملتا ہے۔
اس ناول کا اردو ترجمہ پاکستان میں معروف مترجم اجمل کمال نے کیا اور مشعل بکس نے شائع کیا۔ اس ناول سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے، جو اس قیامت کی جامع تصویر پیش کرتا ہے۔ جاپانی ادیب نے اس ناول کو لکھنے کے لیے ایک متاثرہ بزرگ شخص کی روز لکھی جانے والی ڈائری سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے متن حقیقت سے قریب تر اور فکشن سے دُور ہے۔ اقتباس پڑھیے۔ ایٹم بم دھماکے کے فوری بعد کا ایک منظر ہے کہ
‘ایک بار یاسوکو نے کسی چیز سے ٹھوکر کھائی اور مجھے پکارتی ہوئی آگے کو گر پڑی۔ جب دھواں چھٹا تو ہمیں پتہ چلا کہ اس کے پیروں سے ٹکرانے والی چیز ایک عورت کی لاش تھی، جس کے بازوؤں میں ایک مردہ بچہ تھا۔ اس کے بعد سے میں آگے آگے چلنے لگا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا کہ کہیں کوئی سیاہ چیز تو راستے میں نہیں آرہی۔ اس کے باوجود کئی بار ہم لاشوں سے ٹھوکر کھا کر گرے۔ ہوا کا زور رفتہ رفتہ تھم گیا اور دھواں بھی ساکت ہوگیا، جس سے سانس لینا زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا گیا۔ شاید میری بے وقوفی تھی کہ میں اپنی بیوی اور بھتیجی کو لے کر اس حدّت میں نکل آیا۔ مجھے اس کا پورا یقین نہیں تھا کہ ہم زندہ وہاں سے نکل سکیں گے۔‘
میری اس تحریری روداد میں آخری منظر 2019ء کو جون کے مہینے کا ہے، جب میں ‘ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ کے نزدیک معروف امریکی کافی شاپ پر اپنی دو جاپانی میزبانوں کے ساتھ بیٹھا ہوا کافی پی رہا تھا اور اس شہر کے ماضی اور حال سے مطابقت کرنے کی تفہیمی کوشش کررہا تھا، لیکن مجھے تو ناکامی ہوئی، کیونکہ میں اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا، کیا اتنی بڑی قیامت گزر جانے کے بعد، سب کچھ بھلا کر، زندگی کو اسی طرح دوبارہ سے شروع کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی بالکل عین اسی جگہ سے، جہاں یہ قیامت ٹوٹی تھی؟ مجھے اپنے سوال کا جواب ملتا ہے کہ نہیں، لیکن جب اپنے مقابل بیٹھی مہربان جاپانی میزبانوں کے مطمئن چہرے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شاید۔۔۔
لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جاپانیوں نے اپنے غصے کا رخ موڑ دیا ہے، وہ بحیثیت قوم، انتقام کی بجائے، کام، کام اور کام میں اتنے مگن ہوگئے ہیں کہ وہ کچھ یاد نہیں رکھنا چاہتے۔ اسی لیے اس ایک میوزیم کے سوا انہوں نے پورے ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس میوزیم سے دُکھ کی اٹھنے والی لہریں تو جاپانیوں کی آنکھوں میں تیرتی ضرور دکھائی دیتی ہیں، جب وہ خاص طور پر ‘ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ میں موجود ہوتے ہیں اور کون ہوگا ایسا انسان، جو اس میوزیم میں موجود ہو اور اشکبار نہ ہو، کوئی روبوٹ ہی شاید اس اثر سے بچ نکلے، انسان تو اس کیفیت میں شرابور ہوگا۔ میں نے میوزیم میں رکھی تاثرات کی کتاب میں یہی لکھا کہ ’جنگ صرف دُکھ دیتی ہے‘۔
مجھے ’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ میں دکھائی دینے والے مناظر، جدید جاپان کے سارے گلیمر پر بھاری محسوس ہوئے، اس کیفیت کو مرزا اسد اللہ خاں غالب نے اپنے تمام بچوں کی موت کے بعد اذیت سے پھوٹنے والی جان لیوا کیفیت میں کچھ یوں بیان کیا تھا
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
حوالہ جات:
- آفیشل ویب ساءٹ۔ ہیروشیما پیس میموریل میوزیم
- بی بی سی انگریزی۔ بی بی سی اردو
- کلام ِمرزا اسداللہ خاں غالب۔ کلامِ جون ایلیا
- جاپان ٹائمز۔ انگریزی ایڈیشن
- کیودو نیوز۔ انگریزی ایڈیشن
- سی این این ٹریول ویب ایڈیشن
بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
تبصرے (8) بند ہیں