جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی
یہ تحریر ابتدائی طور پر 5 اگست 2020ء کو شائع ہوئی۔
یاس، ناامیدی، نامرادی، ناکامی، ظلم وجبر، زباں بندی، جبری خاموشی، معاشی تنگدستی، تعلیمی تعطل، تجارتی جمود، سیاسی بے اختیاری، آئینی پامالی، حقوق کی نیلامی۔
اگر بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر کے گزشتہ ایک سال کے سفر کو مختصراً بیان کرنا ہو تو یہ الفاظ کافی ہیں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ آنے والے واقعات اپنی آمد کا اعلان پہلے ہی کردیتے ہیں، تو جموں وکشمیر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ دراصل دائیں بازو کی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) جب 2014ء میں برسرِ اقتدار آئی تب سے ہی کشمیر میں یہ وسوسے غالب ہونے لگے تھے کہ بچی کھچی نام نہاد اندرونی خود مختاری کا جنازہ نکالنے کے جتن بھی کیے جائیں گے کیونکہ بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ (آر ایس ایس) کا 1947ء سے ہی یہ نعرہ تھا کہ ایک ملک میں 2 آئین اور 2 پرچم نہیں رہ سکتے ہیں، لیکن چونکہ بھارتیہ جتنا پارٹی بیشتر عرصہ اقتدار سے باہر ہی رہی اس لیے انہیں اپنے خاکوں میں رنگ بھرنے کا موقع میسر نہ ہوا۔
اٹل بہاری واجپائی کی صورت میں ایک دفعہ اقتدار ملا بھی تو وہ لولی لنگڑی سرکار تھی اور اتحادیوں کی بیساکھیوں کے سہارے اپنا وقت نکال گئی تاہم اس دفعہ معاملہ بالکل مختلف تھا۔
نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے کشمیر، پاکستان اور مسلم معاملات کو لے کر انتخابی مہم چلائی اور ماحول کو کچھ ایسا بنادیا کہ ملک کی ہندو اکثریتی آبادی کو مودی اور اس کی جماعت بی جے پی نجات دہندہ نظر آنے لگی۔
پھر کیا تھا، ووٹوں کی برسات ہوئی اور ہر سو کنول ہی کنول کھلنے لگے اور اپوزیشن کے طویل سوکھے پر اقتدار کی برسات ہوئی اور ان علاقوں سے بھی کنول کھل اُٹھے جو صدا بھاجپا کے لیے بنجر ہی رہے تھے۔ یوں ہوا یہ کہ بھگوا جھنڈے کی جے جے کار ہوئی اور ہندتوا کے رتھ پر سوار ایک ایسی سرکار معرضِ وجود میں آئی جس کا اوڑھنا بچھونا پاکستان کو نابود کرنا اور کشمیر کو گھٹنوں پر لانا تھا۔
کشمیر چونکہ ہمیشہ تجربہ گاہ کے طور استعمال ہوتا رہا ہے تو اس بار بھی یہ تجربہ کشمیر میں ہی دہرایا گیا۔ پولرائزیشن کی ہوا کچھ ایسی چلی کہ ہندو جموں میں بی جے پی اور مودی ازم کے طوفان کے سامنے کانگریس خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے کل تک چند اسمبلی نشستوں تک محدود رہنے والی بی جے پی جموں میں 25 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی بلکہ ریاستی سطح پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے بعد دوسری بڑی پارٹی کے طور ابھر کر سامنے آئی۔
دامِ فریب میں لانے کا سلسلہ شروع ہوا اور بالآخر ایک کم سے کم مشترکہ پروگرام کے تحت مفتی محمد سعید کی گردن میں کانٹوں سے بھرے اقتدار کا طوق ڈالا گیا۔ یوں بی جے پی کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کا وہ خواب بھی پورا ہونے کی راہ ہموار ہونے لگی جو انہوں نے 1947ء میں کانگریس میں بھارتی وفاق میں مکمل طور پر ضم ہونے سے متعلق دیکھا تھا۔
پی ڈی پی کے ذریعے بی جے پی کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا اور 3 سال تک سول سیکریٹریٹ میں سرکاری فائلوں کی چھان پھٹک کرنے کے بعد جب بی جے پی کو لگا کہ خوابوں میں رنگ بھرنے کا وقت آچکا ہے اور پی ڈی پی اس میں رکاوٹ بن رہی ہے تو حمایت واپس لے کر مفتی محمد سعید کی لاڈلی محبوبہ مفتی کو عین اس وقت اقتدار سے الگ کردیا گیا جب وہ بحیثیت وزیراعلیٰ سرکاری میٹنگ میں تھیں۔
پھر کیا تھا۔ اُدھر دہلی تھا اور اِدھر دہلی کا نمائندہ۔ پھر اس مشن پر گورنر سے مل کر کام شروع ہوا جس کا ڈراپ سین 5 اگست 2019ء تھا۔
خصوصی حیثیت کو بھارتی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا۔ جموں وکشمیر کے اقامتی قوانین پر بحث شروع ہوئی اور ایک بیانیہ تیار کیا گیا جس میں بادی النظر میں ہر مرض کی دوا جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ ہی نظر آرہی تھی۔
اگست 2019ء کے آتے آتے افواہ گرم تھی کہ دہلی میں مودی حکومت جموں وکشمیر کے پشتینی باشندگی قوانین کو تحفظ فراہم کرنے والے آئین ہند کی دفعہ 35 ’اے‘ کو ختم کرنے والی ہے۔ آناً فاناً ہندو امر ناتھ یاترا اس بہانے بیچ میں ہی ختم کردی گئی کہ اس پر حملہ ہونے والا ہے۔
سیاحوں اور کشمیر میں کام کررہے باہری مزدوروں کے لیے ایڈوائزری جاری کردی گئی کہ وہ فوراً کشمیر چھوڑ دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کے سیاحتی مقامات پر ویرانی چھاگئی۔ ہوٹل خالی ہوگئی۔ جھیل ڈل کے خاموش پانیوں پر ٹھہرے ہاؤس بوٹ اداسیوں کی علامت بن گئے۔ راشن ذخیرہ کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ مختصراً ایک ایسا ماحول بنایا گیا جہاں لوگوں کو یہ لگنے لگا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے لیکن 3 اگست کی شام کو گورنر ستیہ پال ملک نے عوامی اضطراب کو یہ کہہ کر قرار بخشنے کی کوشش کی کہ کچھ ہونے والا نہیں ہے لیکن جیسا کہتے ہیں کہ کشمیر میں افواہیں ایسے ہی نہیں اڑتی ہیں بلکہ وہ جان بوجھ کر اڑائی جاتی ہیں اور یہ افواہیں بیشتر اوقات سچ ہوتی ہیں۔ ویسا ہی اس دفعہ بھی ہوا۔
تذبذب کے عالم میں جب 4 اگست اتوار کی رات کو لوگ اپنی خواب گاہوں کا رخ کرنے لگے تو بے چین کردینے والی خبریں سامنے آنے لگیں۔ نیم شب سے پہلے پہلے موبائل فون کی دھڑکنیں مدہم مدہم چل رہی تھیں۔ گوکہ انٹرنیٹ بند ہوچکا تھا لیکن کمزور نیٹ ورک کے سہارے ابھی ایس ایم ایس اور صوتی کال چل رہے تھے اور خبریں آئیں کہ ہند نواز لیڈران کی گرفتاری کا شبانہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
مواصلاتی نظام کی جان کنی طویل ثابت نہ ہوسکی اور کچھ ہی دیر میں نصف شب ہوتے ہوتے مواصلاتی نظام کی دھڑکیں رُک چکی تھیں اور رابطوں کے تمام ذرائع مکمل طور پر سلائے جاچکے تھے۔
5 اگست کی صبح بھیانک منظر کشی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ پورا کشمیر محصور ہوچکا تھا۔ راتو رات کرفیو لگ چکا تھا۔ پرندوں کو پر ہلانے کی اجازت نہ تھی۔ پُو پھٹتے ہی جس جس کی آنکھ کھلی، اس پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے۔
رات کی ظلمتوں سے ایک نئی صبح کا سورج طلوع ضرور ہوا لیکن یہ اپنے ساتھ کوئی نئی نوید لے کر نہیں آرہا تھا بلکہ اس کے بطن میں بدخبروں کا ایک طوفان امڈ رہا تھا۔ جوں جوں سورج کی تمازت بڑھنے لگی، کشمیر سے سیکڑوں کلو میٹر دُور دہلی کے پارلیمنٹ ہاؤس میں کشمیریوں کے لیے ایک نئے سیاہ باب کو رقم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
سورج جب عین شباب پر بالکل سروں کے اوپر تھا تو یہ اپنے ساتھ ایک قیامت بھی لے آیا اور یہ قیامت پارلیمنٹ کی وہ ہنگامی قانون سازی تھی جو ساری پارلیمانی روایات کو پھلانگتے ہوئے انجام دی جارہی تھی۔
1947ء سے بھارت کے آئین میں شامل دفعہ 370 کا جنازہ نکالا گیا اور اس کے ذریعے دفعہ 35 ’اے‘ بھی چلی گئی کیونکہ ایسے کئی قوانین دفعہ 370 کے راستے ہی کشمیر میں نافذ ہوئے تھے۔ دفعہ 370 گیا تو کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی گئی۔ اسی پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی ریاست کو ڈاؤن گریڈ کرکے مرکز کے زیرِ انتظام دے دیا گیا۔
جموں وکشمیر 2 لخت کیا گیا اور اس کے بطن سے لداخ کی صورت میں ایک اور مرکزی زیرِ انتظام علاقے کو جنم دیا گیا۔
اگرچہ اس عمل سے بی جے پی کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کی روح کو شانتی ملی ہوگی لیکن وہ لاکھوں روحیں بے چین ہوئیں جو کشمیر کی خود مختاری کا حسین خواب لیے آنکھیں موندے چلے گئے تھے۔ یہاں سے تاریکیوں کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سقوطِ کشمیر کا ایک سال ہوچکا لیکن اس ایک سال میں کشمیریوں کے ہاتھ ناکامیوں، مایوسیوں اور نامرادیوں کے سوا کچھ نہیں لگا۔
5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت پر شب خون مارتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ محرومیوں کی طویل سیاہ رات ختم ہوگئی اور اب ایک خوشگوار صبح کشمیریوں کی منتظر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اب کشمیر میں پیسوں کی ریل پیل ہوگی، تعمیر و ترقی کا دور دورہ ہوگا، غربت بھولی بسری کہانی ہوگی، بے روزگاری ایک بُرے سپنے کی طرح ختم ہوجائے گی، محروم طبقوں کو انصاف ملے گا، عسکریت ختم ہوگی اور آزادی پسند جذبہ منوں من مٹی تلے دفن ہوجائے گا۔
سرجیکل اسٹرائیک کے بعد 5 اگست کے اقدام کو آئینی اسٹرائیک قرار دینے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ تاریخی غلطیوں کو سدھارا گیا اور کشمیر کو بھارت کے مین اسٹریم میں ضم کردیا گیا، لیکن ایک سال ہونے کے بعد کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔
بندۂ مزدور کے اوقات بدلے نہ عام لوگوں کے حالات بلکہ الٹا یاس اور ناامیدی کے گھنگور بادل اس قدر گھنے ہوچکے ہیں کہ اب پورا کشمیر ہی ڈپریشن کا شکار ہوچکا ہے۔
سینہ ٹھونک کر جس عسکریت کو ختم کرنے کی باتیں کی گئی تھیں، وہ عسکریت تاحال زندہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کشمیری نوجوان بیابانوں کی راہ لیتے ہیں۔ آزادی کا جذبہ بھلے ہی لاٹھی کے زور پر دب چکا ہو لیکن ختم نہ ہوسکا۔
اس ایک سال میں اگر کچھ ختم ہوا تو وہ ہند نواز سیاست ہے کیونکہ ان کو اس قدر بے نیل مرام کردیا گیا کہ وہ اب اپنے لوگوں کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رکھے گئے ہیں۔ 5 اگست کا زخم اتنا گہرا ہے کہ اس کا ایک ساتھ علاج یا احاطہ ممکن نہیں ہے اور اگر اس زخم کی تہیں کھول دی جائیں تو شاید مشاہدین اور طبیبوں کو اندازہ ہو کہ یہ زخم کس قدر ناسور بن چکا ہے۔
کشمیر، ایک بڑا جیل خانہ
5 اگست 2019ء کے بعد سے کشمیر عملی طور ایک پولیس اسٹیٹ بن چکی ہے۔ زباں بندی کا جو دستور اس دن قائم ہوا تھا، وہ پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ حکومتی اقدامات کے خلاف بات کرنا اب گناہ اور جرم ٹھہر چکا ہے اور جو بات کرنے کی جرأت کرے، وہ حوالات پہنچ جاتا ہے۔ گھٹن کا ماحول ہے۔ زباں بات کرنے کو ترس رہی ہے۔ دل کا غبار نہیں نکل پارہا ہے۔
خود حکومت مانتی ہے کہ 5 اگست کے بعد کچھ 15 ہزار سے زیادہ لوگوں کو زینت زنداں بنایا گیا جن میں ابھی بھی چند ہزار پابند سلاسل ہی ہیں۔ جو رہا ہوئے ان سے ضمانتی بانڈ لیا گیا کہ وہ بات نہیں کریں گے بلکہ اندھوں، بہروں اور گونگوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔ دیکھ کر بھی اَن دیکھی، سن کر بھی اَن سنی کریں گے اور بات کرنے کا موقع آئے تو گونگے بنیں گے۔
اس دوران مغربی اور یورپی ممالک کے سفیروں کو بھی کشمیر لایا گیا تاکہ انہیں یہ دکھایا جاسکے کہ کشمیر پُرسکون ہے لیکن یہ خاموشی کوئی فطری خاموشی نہیں تھی بلکہ جبری خاموشی تھی اور عملی طور کشمیر کو ایک ایسے قبرستان میں تبدیل کردیا گیا ہے جو چلتی پھرتی زندہ لاشوں کا مسکن بن چکا ہے۔
سیاسی منظرنامہ
5 اگست کے اقدامات سے قبل ہی لگ رہا تھا کہ دہلی سرکار کسی بڑے پلاٹ پر کام کر رہی ہے۔ اس پلاٹ کے تحت سیاست کے دونوں پہلوؤں کو ہدف بنایا گیا۔ پہلے قومی تحقیقاتی ایجنسی، جسے عرفِ عام میں این آئی اے کہتے ہیں، کو ایک آلے کے طور استعمال کیا گیا اور آزادی نواز سیاست کو دیوار سے لگایا گیا اور خوف و دہشت کی ایسی فضا قائم کی گئی کہ کوئی بات کرنے سے بھی کترا رہا تھا کیونکہ ہر کسی کو لگ رہا تھا کہ اگر وہ بات کرے گا تو اگلے روز دہلی کے تہاڑ جیل کی کسی تاریک کوٹھری میں سڑ رہا ہوگا۔
یاسین ملک سے لے کر شبیر شاہ سمیت بیسیوں آزادی نواز لیڈران کو این آئی اے کے ذریعے جیل پہنچایا گیا۔
دوسرا تیر ان لوگوں پر چلایا گیا جو خود کے پالے ہوئے تھے۔ جن ہند نواز سیاستدانوں کو دہلی نے 70 برسوں سے پالا پوسا تھا، انہیں بھی این آئی اے کے خوف سے ڈرایا گیا۔ اس ضمن میں حاضر سروس ممبر اسمبلی انجینئر رشید کو دوسروں کے لیے نشانہ عبرت بناکر تہاڑ جیل پہنچایا گیا جو دوسروں کے لیے کھلا پیغام تھا کہ وہ یا تو لام بندھ ہوجائیں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
کرپشن کے کیس تیار کیے گئے اور پھر بلیک میلنگ کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا جو بڑے بڑوں تک پہنچ گیا اور یوں کسی کو این آئی اے کی لاٹھی سے ڈرایا گیا تو کسی کو حوالہ خوری کے جرم میں ممکنہ سزا کی نوید سنائی گئی۔ پھر ہونا کیا تھا، سب کے سب پیٹ کے بل سوگئے۔ باقی ماندہ دو زانو ہوکر جی حضوری کرنے لگے لیکن جب وقتِ نزاع آیا تو اپنے ہی پالے ہوئے ان سبھی سورماؤں کو بھیڑ بکریوں کی طرح جیلوں میں ہانکا گیا۔
70 سال تک بھارت کا پرچم تھامنے والوں کو جس طرح جیلوں کی ہوا کھلا کر ’عزت و وقار‘ بخشا گیا، وہ اب سب کے سب ظاہر ہوچکے ہیں اور اب سر چھپانے کی جگہ تلاش کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس اب بیچنے کو کچھ رہا ہی نہیں ہے۔
1947ء سے 2019ء تک کبھی رائے شماری تو کبھی اندرونی خود مختاری کا چورن بیچنے والی نیشنل کانفرنس کی نیم خود مختار سیاست کا جنازہ نکالا جاچکا ہے۔ اپنے قیام سے سال رفتہ تک ’سیلف رول‘ یا خود حکمرانی کے حسین خواب بیچنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس دکھانے کو اس کے سوا کیا ہے کہ جن کو اپنی بیساکھیاں دے کر انہوں نے کشمیر کے اقتدار میں شریک کیا تھا، انہوں نے ہی کشمیریوں کو بے اختیار کرکے رکھ دیا ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ مداریوں کا کھیل کھیلنے کے لیے کچھ رہا ہی نہیں ہے۔ نعرے رہے ہیں نہ جذباتی تقرریں۔ لوگوں کو ورغلائیں گے تو کیسے! ایک طرفہ تماشا ہے جو کل تک صاحب مسند تھے، وہ آج مجرموں کی صف میں کھڑے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف اپنے لوگوں کی نظروں میں جرم وار ہیں بلکہ دہلی بھی انہیں قصور وار مانتی ہے اور یوں ان کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن جیسی صورتحال پیدا ہوگئی۔
دہلی کے کچھ گماشتے میدان میں اتارے گئے ہیں لیکن ان کی عوامی قبولیت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سیاسی بے اختیاری ہے اور سیاست کے انسٹی ٹیوشن سے ہی کشمیریوں کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔
جموں وکشمیر کو عملی طور ایک بلدیہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس کے وسائل پر پکڑ تو حکومت کی ہی ہے لیکن اختیارات کے تعلق سے بے سرو پا ہے۔ فی الوقت کشمیر سیاسی طور بنجر ہوچکا ہے اور آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا کوئی نئی سیاست یہاں پروان چڑھے گی بھی یا نہیں۔
صحافتی منظر نامہ
5 اگست 2019ء کو خصوصی حیثیت کی تنسیخ اور ریاست کو 2 لخت کرنے کے ساتھ ہی کشمیر کی صحافت بھی شکار ہوئی۔ پہلے ٹیلی فون اور موبائل فون بند کردیے گئے اور ساتھ ہی انٹرنیٹ نیٹ ورک کا دم گھونٹ دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اخبارات خبر کو ترسنے لگے۔ اس پر سنسرشپ کی یہ انتہا تھی کہ مقامی اخبارات اپنے گرد ونواح کی خبروں سے انجان بن گئے۔ بس پھر وہی رپورٹ ہونے لگا جو ارباب بست و کشاد چاہتے تھے۔
ایسے میں عالمی میڈیا نے کمال حصہ زمینی حقائق کی رپورٹنگ کی لیکن وہ کام بھی اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ نہ ٹیلی فون تھا اور نہ خبروں و تصاویر کی ترسیل کے لیے انٹرنیٹ۔
لیکن جب دباؤ بڑھتا گیا تو پھر کہیں جاکر محض ساکھ کی بحالی کی خاطر ایک ہائی سیکیورٹی زون میں ایک میڈیا سینٹر کھولا گیا جہاں ایک فون اور انٹرنیٹ کے چند کنکشن دستیاب تھے لیکن وہاں قطاروں میں لگنا پڑتا تھا اور یہ سارا عمل کسی اذیت سے کم نہیں تھا۔
کئی ماہ تک یہی سلسلہ چلا۔ لینڈ لائن اور موبائل فون بند رہے اور انٹرنیٹ غائب رہا۔ پھر جب لینڈ لائن بحال ہوئی اور انٹرنیٹ بحالی کا مرحلہ آیا تو یہ تحریری ضمانت دینا پڑ رہی تھی کہ اس کا غلط استعمال نہیں ہوگا اور یہ کسی بھی طور پر حکومت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہوگا۔ یعنی یکطرفہ بیانیہ چلتا رہا اور حکومت کے ترجمان جو بتاتے تھے، وہ حرفِ آخر ٹھہرتا تھا۔
کچھ لوگ اس دوران آنسو گیس کے دھویں کی وجہ سے لقمہ اجل بھی بن گئے لیکن حکومت نہ مانی بلکہ صحافی مان گئے کہ ہاں، یہاں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
غیر اعلانیہ سنسرشپ کی یہ انتہا تھی کہ مقامی میڈیا تو جیسے حکومت کا اشتہاری پوسٹر بن گیا اور اخبارات میں وہی کچھ شائع ہورہا تھا، جو سرکار چاہتی تھی۔ یکایک اداریے غائب ہوگئے اور ادارتی صفحات کا کہیں دُور تک نام و نشان نہ رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ اخبار والے یہ سب جان بوجھ کر کررہے تھے بلکہ ان کی گردنوں پر حکومتی تلوار لٹک رہی تھی۔
2019ء کے اوائل میں جب این آئی اے نے مقامی صحافیوں کی طلبی شروع کی تو بڑا ہنگامہ ہوا۔ کئی صحافی ایک ایک کرکے دہلی بلائے گئے۔ ان سے پوچھ گچھ بھی ہوئی۔ ایک کثیرالاشاعت سرکردہ مقامی میڈیا ہاؤس کے مالک کو جب این آئی اے نے دہلی طلب کیا تو یہ این آئی اے کا سبھی کے لیے پیغام تھا کہ جب اتنے بڑے اخبار کے مالک کو طلب کیا جاسکتا ہے تو آپ کی کیا اوقات ہے۔
سیاحتی منظرنامہ
سیاحت، جس پر کشمیر کی معیشت کافی حد تک منحصر ہے، اگست سال رفتہ سے مکمل ٹھپ ہے۔ اب آنکھیں ترس رہی ہیں کسی سیاح کو دیکھنے کے لیے لیکن سیاح کہیں نہیں ہیں۔ تمام صحت افزا مقامات کے ہوٹل بند پڑے ہیں۔ ہاؤس بوٹ اب گرد آلود ہوچکے ہیں جبکہ شکار والے متبادل روزگار کی تلاش میں ہیں کیونکہ ڈل اور جہلم کے پانیوں پر شکارا کی سیر کرنے کے لیے کوئی دستیاب ہی نہیں ہے۔
کشمیر کی نمائندہ تجارتی انجمن ’کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے کچھ روز قبل ہی اس ایک سالہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کو 40 ہزار کروڑ روپے نقصان ہونے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ اس عرصے کے دوران نجی سیکٹر میں 3 لاکھ کے قریب لوگ روزگار سے محروم ہوگئے۔ لاکھوں کامگار نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں اور ذریعہ معاش کی عدم موجودگی میں ایک بڑی آبادی کے چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہیں۔
مواصلاتی منظرنامہ
گوکہ شدید عالمی دباؤ کی وجہ سے مرحلہ وار بنیادوں پر مواصلاتی سہولیات بحال کی گئیں لیکن یہ سہولیات بحال کرنے میں بھی 6 سے 8 ماہ لگ گئے لیکن شومئی قسمت انٹرنیٹ ابھی بھی ٹو جی (2G) اسپیڈ پر ہی ہے۔
4 اگست کی رات 4 جی انٹرنیٹ کی روح قبض کی گئی ہے اور تاحال اس کی روح قبض ہی ہے اور بحالی کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ انٹرنیٹ کی پہلے عدم دستیابی اور اس کے بعد سست رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے تجارتی اور تعلیمی شعبے کو بھی بے پناہ نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت اس بہانے انٹرنیٹ کی مکمل بحالی سے منکر ہے کہ پاکستان سے دراندازی ہورہی ہے اور پاکستانی حمایت یافتہ عناصر اس کو ملک دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
تعلیمی منظرنامہ
5 اگست کے بعد سے اب تک درس و تدریس کا عمل ٹھپ ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے بہت کوشش کی کہ تعلیمی ادراے کھل جائیں لیکن کھول نہ سکے اور بڑی مشکل سے کڑے حفاظتی پہرے میں سالانہ امتحانات منعقد ہوپائے جس کے بعد 3 ماہ تک سرمائی تعطیلات چلیں۔
28 فروری کو اسکول کھل گئے لیکن سرمنڈاتے ہی اولے پڑگئے کے مصداق کورونا لہر کو دیکھتے ہوئے انہیں دوبارہ بند کرنا پڑا اور تب سے اب تک تعلیمی ادارے مسلسل بند پڑے ہیں۔ درسگاہوں پر تالے ہیں۔ بچوں کے نالے ہیں لیکن زباں بندی ہے۔ بات نہیں ہوسکتی۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں بچوں کے جو قیمتی تعلیمی ماہ ضائع ہوئے، اس کا کوئی حساب دینے کو تیار نہیں ہے۔
ویسے بھی یہاں تعلیمی چھٹیاں معمول بن چکی ہے اور ان مخدوش حالات سے اگر کوئی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تو وہ تعلیم ہی ہے۔ یہی حال فی الوقت بھی ہے۔ اگست سے اگست تک تعلیمی اداروں کو بند ہوئے ایک سال ہوچکا ہے لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔
گزشتہ برس کے سیاسی لاک ڈاؤن میں کوئی آن لائن تعلیم نہیں تھی لیکن اب کے طبّی لاک ڈاؤن میں آن لائن کی خوب باتیں ہورہی ہیں لیکن یہ بھی لکھے من اور پڑھے خدا والا ہی معاملہ ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی رفتار بہت کم ہے۔ زوم اپلی کیشن پر آن لائن کلاسز کا اہتمام تو ہورہا ہے لیکن ویڈیو بفر ہوجاتی ہے۔ آواز رک رک کر آتی ہے۔ طلبہ کو میوٹ پر ڈالا جاتا ہے۔ پھر کیا ہے، استاد یکطرفہ طور پر آدھے گھنٹے کا لیکچر سنا کر چلا جاتا ہے اور طلبہ سے یہ پوچھا بھی نہیں جاتا ہے کہ ان کے پلے کچھ پڑا بھی کہ نہیں۔ اسے درد و تدریس کے ساتھ مذاق کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔
آبادیاتی منظرنامہ
جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ اور دو لخت کرنے کے پیچھے اصل منصوبے اب آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ ان منصوبوں کی پہلی کڑی اس وقت سامنے آئی جب پشتینی باشندگی قانون کی جگہ اقامتی قانون متعارف کرایا گیا۔
دفعہ 370 اور دفعہ 35 ’اے‘ کے طفیل جموں وکشمیر میں صرف یہاں کے پشتینی باشندوں کو ہی املاک خریدنے اور سرکاری نوکری کرنے کا حق میسر تھا لیکن جب پشتینی باشندگی قوانین کی جگہ نیا اقامتی قانون یا ڈومیسائل قانون لایا گیا تو کشمیر کی مقامی سرکاری نوکریوں کو پورے بھارت کے لیے کھول دیاگیا لیکن جب اس پر احتجاج ہوا تو ذرا سی ترمیم کرکے اقامہ کے حصول کے لیے جموں میں 10 سالہ قیام لازمی قرار دیا گیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ 2011ء کی مردم شماری میں جموں وکشمیر میں 25 لاکھ بیرونی مزدور تھے جبکہ 7 لاکھ فورسز اہلکار بھی یہاں تعینات تھے۔ اس کے علاوہ بھارت سرکار کے ہزاروں ملازمین بھی برسہا برس سے یہاں تعینات ہیں۔ نیز مغربی پاکستان سے آئے ہوئے 6 لاکھ سے زیادہ ہندو پناہ گزیں بھی یہاں مقیم ہیں۔ یہ سب اب جموں وکشمیر کے اقامت گزار پائیں گے جبکہ اس کے علاوہ جموں میں قائم ان کئی کالونیوں کے ہزاروں غیر مقامی ہندو بھی اب مقامی کہلائیں گے۔
یوں جموں وکشمیر کی آبادی میں یکایک لاکھوں کا اضافہ ہوگا جس کو مقامی آبادی بجا طور آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے تناظر میں دیکھ رہی ہے اور مسلم اکثریتی طبقے کو خدشہ ہے کہ اصل منصوبہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔
یہ خدشات بے جا بھی نہیں ہیں کیونکہ اس سے قبل جموں وکشمیر میں ایک دفعہ ایسا ہوچکا ہے۔ 1947ء میں تقسیم برِصغیر کے وقت جموں میں 4 لاکھ مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا اور اس مرتبہ عوامی حلقے مانتے ہیں کہ اگر قتلِ عام ممکن ہے تو چور دروازے سے لوگ یہاں بسائے جائیں گے اور ایک وقت آئے گا جب ہندو تعداد میں زیادہ ہوں گے اور مقامی مسلمان اقلیت میں ہوجائیں گے۔
کشمیر فلسطین تو نہیں بنے گا؟
کشمیر کی مسلم اکثریت کو خدشہ ہے کہ بھارت اسرائیلی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور منصوبہ بند طریقے سے کشمیر کو فلسطین بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اس ضمن میں اقامتی قانون بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے باہر سے لوگوں کو یہاں آباد کیا جائے گا جبکہ یہاں مقیم لاکھوں غیر مقامی مقامی کہلائے جانے کے حقدار ٹھہرا دیے جائیں گے۔ ہند نواز سیاستدان بھی ایسے خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں اور وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اصل منصوبہ ایک مذہبی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانا ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس کے سامان بھی کیے جارہے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کے علاوہ ہاؤسنگ قانون بھی بنایا گیا ہے جس کے تحت جھگی جھونپڑی والوں کے لیے 2 لاکھ گھر بنائے جائیں گے اور یہ 2 لاکھ گھر مقامی آبادی کو نہیں ملیں گے کیونکہ کوئی بھی مقامی کشمیری جھونپڑی میں رہائش پذیر نہیں ہے بلکہ جھونپڑیوں میں وہی بیرونی لوگ بود و باش اختیار کیے ہوئے ہیں جو برسہا برس سے یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
کل یہ 2 لاکھ گھر 2 لاکھ کنبے ہوں گے اور ان کنبوں میں مزید کئی لاکھ مکین ہوں گے جو سب کے سب غیر مقامی ہوں گے اور یوں آبادی کا تناسب تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
اسی طرح نئی انڈسٹریل پالیسی کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت اب غیر کشمیری صنعتکار یہاں کارخانے لگا سکتے ہیں اور اس کے لیے سنگل ونڈو سسٹم کے تحت حکومت ان کے لیے تمام سہولیات دستیاب رکھے گی۔
نئی صنعتی پالیسی کو بھی لوگ فلسطین اسرائیل پلاٹ کے ایک حصہ کے طور دیکھ رہے ہیں جس کا مقصد مقامی صنعتکاروں کو دیوار سے لگانا اور مقامی مسلم آبادی کو اصل میں باہر کے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے طفیلی بنانا ہے تاکہ وہ خود انحصاری سے نکل کر انحصاریت کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
اتنا ہی نہیں، اب تو فوج کو بھی اسٹریٹجک یا تذویراتی علاقوں کی نشاندہی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور ایک دفعہ فوج کسی علاقے کو اسٹریٹجک ایریا قرار دے دے تو وہاں اس کو کسی قسم کی بھی تعمیراتی سرگرمی انجام دینے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ 5 اگست سے قبل یہاں معمولی سی تعمیر کے لیے بھی فوج کو حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت تھی اور فوج زمین خریدنے کی اہل نہ تھی بلکہ صرف سرکاری زمین پٹے پر لینے اور نجی اراضی کرائے پر لینے کا اختیار رکھتی تھی لیکن اب یہ بندش نہیں رہی۔
اب فوج جہاں چاہے زمین لے سکتی ہے اور اس کے لیے اس علاقے کو محض اسٹریٹجک علاقہ قرار دینا ہے جس کے بعد وہاں فوجیوں کے لیے فیملی کوارٹرز بھی تعمیر ہوں گے۔ مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ دراصل اب جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں بنیں گی جہاں فوج کی فیملی کالونیاں بنیں گی اور کل یہ فیملی کالونی والے بھی اقامہ کے دعویٰ گزار ہوں گے۔
پاکستان اور کشمیر
5 اگست 2019ء جب ہوا تو کشمیری اس انتظار میں تھے کہ ان کا ’وکیل‘ خاموش نہیں بیٹھے گا اور وہ جوابی کارروائی کرے گا۔ یہ امیدوار انتظار بے وقت اور بے مطلب نہیں تھا لیکن انتظار ہے کہ کبھی ختم ہی نہ ہوا۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کچھ پل کے لیے زخموں پر مرہم کا کام کرگئی لیکن وہ زخم پھر ہرے ہوگئے جب عمل موقوف رہا۔ کچھ دیر کے لیے یکجہتی کا علامتی اظہار ہوا لیکن پھر خاموشی چھا گئی اور وہ خاموشی ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
زبانی جمع خرچ سے اس بار کشمیریوں کی دل بہلائی نہیں ہوسکتی کیونکہ وار شدید تھا لیکن افسوس کہ ’وکیل‘ کی وکالت بھی بے تکی رہی اور دفاع بھی نہ کرپایا حالانکہ جو اقدام اٹھایا گیا، اس سے مسئلہ کشمیر کی ہئیت یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی۔
پہلے متنازع علاقہ کو 2 مرکزی زیرِ انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کے بعد پشتینی باشندگی قوانین منسوخ کیے گئے۔ کشمیر کی بنیاد اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہیں اور ان قراردادوں میں واضح لکھا گیا ہے کہ منقسم کشمیر کے مقامی باشندے ہی رائے شماری میں حصہ لے کر اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے لیکن دہلی نے مقامی باشندگی کا تصور ہی ختم کردیا۔
اب اقامتی قانون ہے۔ آنے والے برسوں میں آبادیاتی تناسب یکسر تبدیل ہوجائے گا۔ پھر اگر خدانخواستہ کبھی اقوامِ متحدہ قراردادوں پر عملدرآمد کا وقت آیا بھی تو اس وقت کون یہ پہچان کرے گا کہ مقامی کون ہے اور غیر مقامی کون کیونکہ سب خلط ملط ہوچکا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری 5 اگست کی کارروائی کو پاکستان کی اسٹیٹ پالیسی پر بھی حملہ سمجھ رہے تھے لیکن پاکستان کی خاموشی کو اب ایک طرح سے مودی سرکار کی کارروائی کی قبولیت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
چین اور کشمیر
جب 5 اگست کا واقعہ ہوا تو چین نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ متنازع کشمیر کے ایک حصہ ’لداخ‘ کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں اور جب لداخ کو کشمیر سے الگ کرکے براہِ راست دہلی کی نگرانی میں لیا گیا تو یہ بیجنگ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بیجنگ نے سخت مؤقف اختیار کیا۔
اب لداخ میں چین اور بھارت آمنے سامنے آئے ہیں۔ بیشتر مبصرین لداخ میں چینی چڑھائی کو 5 اگست کے فیصلوں سے جوڑ رہے ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دہلی نے بیجنگ کو لداخ پر چڑھائی کے لیے جواز فراہم کیا۔ بلاشبہ یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے تاہم بھارت کو روکنا چین کی مجبوری بن چکی تھا کیونکہ بھارت نہ صرف سی پیک بلکہ آبنائے ملائکہ اور جنوبی بحیرہ چین کے لیے بھی بیجنگ کے لیے درد سربن چکا تھا۔
بیجنگ کو لگا کہ لداخ کے راستے دہلی کو روکنا کرنا مناسب رہے گا اور انہوں نے اپنے مفادات کے دفاع کے لیے یہی راستہ اختیار کیا جس سے اب کافی حد تک سی پیک محفوظ ہوچکا ہے بلکہ دہلی بھی اب چین کے لیے مسائل پیدا کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گی لیکن کشمیر کو کیا ملا؟
یہ سوال سننے میں تو آسان ہے لیکن جواب اتنا ہی تلخ۔ مقامی آبادی کہتی ہے کہ چینی چڑھائی سے کشمیر کو کچھ نہیں ملا اور نہ ہی کچھ مل پائے گا کیونکہ چین جیسی کم گو اور پُر اسرار طاقت کے لیے اپنے مفادات ہی مقدم ہیں اور چین کشمیر کے لیے دہلی سے سینگ لڑانے کی سوچ بھی نہیں سکتا ہے کیونکہ بالآخر بھارت چین کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہے اور بیجنگ زیادہ دیر تک اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چراسکتا۔
آگے کیا ہوگا؟
کشمیر سکتے میں ہے۔ حکومتی چابک کو دیکھتے ہوئے لبوں پر مہرِ خاموشی ہے۔ کشمیر سسک سسک کر مر رہا ہے لیکن اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے اور یہ لاوا کب آتش فشاں بن کر پھوٹ پڑے، کچھ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان، دونوں کشمیر کھوچکے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب کشمیر میں دلوں پر پاکستان کا راج ہوا کرتا تھا جب زمین پر بھارت کی حکمرانی تھی لیکن آج اگست 2019ء کے بعد یہ حالت ہے کہ کشمیری پاکستان سے نالاں اور دہلی سے پریشاں ہیں۔ آج دل نہ اسلام آباد کے لیے دھڑکتا ہے اور نہ دماغ پر دہلی کی حکمرانی ہے۔ ایک نے عریاں کیا تو دوسرے نے سہارا تک نہ دیا۔ یوں کشمیری نہ اب وکالت کا منتظر ہے اور نہ جبر سے خوفزدہ۔ ایک زندہ چلتی پھرتی لاش ہے جو اپنی آخری منزل کی تلاش میں ہے۔
5 اگست 2019ء کی کارروائی کا ڈراپ سین کیا ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن آثار وقرائن بتارہے ہیں کہ وقت کے بطن میں کچھ اچھا نہیں پل رہا ہے اور جب اس کا ظہور ہوگا تو بھارت اپنے آپ کو داخلی اور خارجی سطح پر ایک ایسے گرداب میں پائے گا جس سے خلاصی اگرچہ ناممکن نہیں لیکن انتہائی کٹھن ضرور ہوگی۔
ہیڈر خاکہ: ایاز احمد لغاری
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ریاض ملک کا تعلق کشمیر سے ہے اور وہ سری نگر میں بطور صحافی اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔