• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

معطل پائلٹس کے کیسز کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم

شائع July 29, 2020
ان پائلٹس میں سے بڑی تعداد پی آئی اے سے وابستہ تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
ان پائلٹس میں سے بڑی تعداد پی آئی اے سے وابستہ تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

راولپنڈی: ایک جانب جہاں مشکوک لائسنسز رکھنے والے پائلٹس کی تصدیق کیا عمل جارہی ہے وہیں دوسری جانب ایوی ایشن ڈویژن نے 194 معطل پائلٹس کے کیسز کی تحقیقات کے لیے ایک 5 رکنی کمیٹی قائم کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 262 پائلٹس ایسے تھے جن کے لائسنسز کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ مشکوک ہیں، جس پر 28 پائلٹس کے لائسنسز منسوخ کیے گئے تھے جبکہ 194 کو معطل کیا گیا تھا جبکہ باقی 40 پائلٹس جس میں سے 3 انتقال کرچکے ہیں ان کے کیسز زیرغور ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس 5 رکنی کمیٹی کی سربراہی ڈائریکٹر ایئرورتھی نیس محمد زاہد بھٹی کریں گے جبکہ فلائٹ انسپکٹر پائلٹ، قائم مقام ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ، قائم مقام ایڈیشل ڈائریکٹر اور سینئر اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل معاونت کریں گے۔

اس کمیٹی نے جمعہ کو اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور یہ اپنی تحقیقات 7 روز میں ایوی ایشن ڈویژن کو جمع کروائے گی۔

یہ کمیٹی کمپیوٹر پر مبنی نظریاتی (تھیوری ٹیکل) امتحان کے انعقاد میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کا بھی پتا لگائے گی، ساتھ ہی یہ بورڈ آف انکوائری (بی او آئی) کی جانب سے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ریکارڈ اور دیگر کوئی دستاویزی ثبوت کے ساتھ فراہم کیے گئے متضاد ثبوت کی تصدیق کرے گی۔

مزید برآں کچھ پائلٹس امتحان میں دھوکا دہی میں ملوث نہیں تھے لیکن باقی وقت میں اڑان بھرتے رہے تھے انہیں جرمانے کا معطلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خیال رہے کہ بی او آئی کی جانب سے معطل کیے گیے 194 پائلٹس میں سے 52 سے زائد نے اب تک اتھارٹیز کے سامنے اپیلز دائر کی ہیں جو ان کی اپیلوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 5 رکنی کمیٹی نے 40 پائلٹس کے ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا جس میں سے 3 پہلے ہی انتقال کرچکے ہیں تاکہ ان کے کیسز کے جائزے کے بعد فیصلہ کیا جائے۔

اس کے علاوہ کمیٹی معطل پائلٹس کی ذاتی فائلز کو بھی دیکھے گی۔

یاد رہے کہ ان 262 پائلٹس میں سے 102 پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز سے منسلک تھے جبکہ ان کو پہلے ہی گراؤنڈ کردیا گیا اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا آغاز کردیا گیا۔

علاوہ ازیں ایوی ایشن ڈویژن نے ہوائی اڈوں کے اطراف پرندوں کی سرگرمیوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے ملک بھر کے تمام ایئرپورٹ منیجرز کو ہدایت کی کہ وہ طیاروں کو پرندوں کے حملے سے بچانے کے لیے تمام حفاظتی اقدامات اٹھائیں۔

پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسز کا معاملہ

خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

29 جون کو ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پر مقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔

اگلے روزیورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوا۔

اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔

جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔

اس کے بعد 3 جولائی کو ملائشیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر نے پاکستانی لائسنس رکھنے والے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا۔

جس کے بعد 4 جولائی کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد مزید 30 ’مشتبہ لائسنس' کے حامل پائلٹس کو اظہار وجوہ کے نوٹسز بھیجے جاچکے ہیں۔

7 جولائی کو یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے 32 رکن ممالک کو 'پاکستان میں جاری کردہ پائلٹ لائسنسز سے متعلق مبینہ فراڈ' کے حوالے سے خط لکھا اور ان پائلٹس کو فلائٹ آپریشن سے روکنے کی سفارش کی تھی۔

اسی روز سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 'مشکوک' لائسنسز سے متعلق انکوائریاں مکمل ہونے کے بعد پی آئی اے کے 34 پائلٹس کے کمرشل فلائنگ لائسنسز معطل کردیے تھے۔

بعدازاں 9 جولائی کو امریکا نے بھی پاکستانیوں کی واپسی کے لیے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی خصوصی پروازوں کے اجازت نامے کو منسوخ کردیا تھا۔

10 جولائی کو ایوی ایشن ڈویژن نے مختلف ممالک کی ایئرلائنز میں کام کرنے والے 95 فیصد پائلٹس کے لائسنز کلیئر کردیے تھے جبکہ باقی کی تصدیق کا عمل آئندہ ہفتے مکمل کرنے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

تاہم 16 جولائی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے کہا تھا کہ اس کے جاری کردہ تمام کمرشل/ایئرلائنز ٹرانسپورٹ پائلٹس لائسنسز درست اور حقیقی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024