کورونا وائرس: محدود عازمین کے ساتھ مناسک حج کا آغاز
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سعودی عرب میں حاجیوں کی محدود تعداد کے ساتھ مناسک حج کا آغاز ہوگیا ہے اور ایک ہزار کے قریب عازمین نے مکہ مکرمہ کے باہر وادی منیٰ کا رخ کرنا شروع کردیا۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق یومِ ترویہ کے ساتھ ہی مناسک حج کا آغاز ہوگیا اور حجاج کرام جمعرات (30 جولائی) کے طلوع آفتاب تک اپنا وقت عبادت میں صرف کریں گے۔
خیال رہے کہ منیٰ، مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے شمال مشرق سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور عام طور پر دنیا کی سب سے بڑی خیمہ بستی ہے جہاں 25 لاکھ حاجیوں کی رہائش کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب میں حج کی تیاریاں مکمل، مقامی عازمین مکہ مکرمہ پہنچ گئے
تاہم عالمی وبا کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے رواں برس حاجیوں کی تعداد کو محدود کیا گیا ہے اور صرف سعودی شہری یا سعودی عرب میں موجود تارکین وطن ہی شرکت کررہے ہیں۔
تقریباً ایک ہزار عازمینِ حج، آج (29 جولائی کو) حج کے آغاز کے لیے مکہ مکرمہ کے باہر واقع وادی منیٰ کا رخ کررہے ہیں۔
رواں برس حج کے لیے منتخب ہونے والے افراد کے مکہ مکرمہ پہنچنے پر درجہ حرارت چیک کیا گیا تھا اور مکہ مکرمہ میں آمد پر انہیں قرنطینہ کیا گیا تھا جبکہ ہیلتھ ورکرز نے ان کے سامان کو سینیٹائز کیا تھا۔
علاوہ ازیں صحت و تحفظ کے عملے نے مسجدالحرام میں مطاف کے حصے کو جراثیم سے پاک کیا جبکہ رواں برس حج حکام کی جانب سے کورونا وائرس کے خدشات کے باعث خانہ کعبہ کے گرد رکاوٹیں لگائیں گئی ہیں اور حاجیوں کو خانہ کعبہ کو چھونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
علاوہ ازیں حکام نے عازمینِ حج کی دیکھ بھال کے لیے طبی مراکز، موبائل کلینکس اور ایمبولینسز بھی قائم کی ہیں جبکہ حاجیوں کے لیے ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ اختیار کرنا لازم ہے۔
خیال رہے کہ مکہ مکرمہ میں آمد سے قبل تمام عازمین کے لیے کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا تھا اور فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد انہیں قرنطینہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: حج کے لیے مقامی عازمین کی آمد کا سلسلہ شروع
سعودی عرب کے ڈائریکٹر پبلک سیکیورٹی خالد بن قرار الحربی نے کہا کہ اس حج میں سیکیورٹی سے متعلق خدشات نہیں ہیں لیکن عازمینِ حج کی تعداد میں کمی انہیں عالمی وبا کے خطرے سے بچانے کے لیے ہیں۔
جمعرات کے روز حجاج کرام، خطبہ حج سننے کے لیے میدان عرفات کا رخ کریں گے، اس کے بعد وہ مزدلفہ جائیں گے اور جمرات کے لیے منیٰ واپسی سے قبل وہاں رات بھر قیام کریں گے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے ریاستی میڈیا نے ہیلتھ ورکرز کا سامان سینیٹائز کرتے ہوئے اور کچھ حاجیوں کو الیکٹرانک رسٹ بینڈز دیتے ہوئے دکھایا تاکہ حکام ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کرسکیں۔ ' علاوہ ازیں سعودی حکومت کی جانب سے مکہ مکرمہ تک رسائی سخت کیے جانے کے باعث رواں برس غیر ملکی پریس کو حج کی کوریج سے روک دیا گیا ہے۔
آب زمزم کے حصول کا طریقہ کار تبدیل
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق یوم ترویہ (پانی بھرنے کے دن) ماضی میں مشاعر میں مٹی کے برتنوں میں آب زمزم رکھا جاتا تھا اور حجاج کرام ترویہ کے روز اپنی پیاس وہاں سے بجھاتے تھے تاہم اب 8 ذی الحج کو یوم ترویہ کا طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔
سعودی حکومت کی جانب سے مناسک حج کے تمام مقامات پر زمزم فراہم کرنے کے لیے پانی کے کولر نصب کیے گئے ہیں مگر اس بار کورونا وائرس کے باعث ان کولرز کو ہٹا دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے وزارت صحت کے وضع کردہ ایس اوپیز پر عملدرآمد کرتے ہوئے حج کے دوران علیحدہ سے آب زمزم کولرز یا ٹینکیوں میں رکھنے کے بجائے حجاج کرام کو پیک کی گئی بوتلوں میں دیا جائے گا اور ایک فرد کے لیے ایک بوتل ہوگی جسے ایک وقت میں پیا جاسکتا ہے۔
'ناقابلِ بیان احساس'
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکام نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ملک میں موجود ایک ہزار حاجیوں کو حج کی اجازت دی جائے گی لیکن مقامی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا کہ 10 ہزار افراد کو فریضہ حج کی ادائیگی کی اجازت دی جائے گی۔
سعودی وزارت حج کی دستاویز کے مطابق عازمینِ حج کو سہولت کٹس بھی فراہم کی گئی ہیں جس میں جمرات کے لیے سینیٹائزڈ کنکریاں، ڈِس انفیکٹنٹس، ماسک، جائے نماز اور احرام شامل ہیں۔
علاوہ ازیں سعودی میڈیا کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں امارتی حاجی عبداللہ الکھتیری نے کہا کہ میں نے توقع نہیں کی تھی کہ لاکھوں مسلمانوں میں سے مجھے منظوری سے نوازا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل بیان احساس ہے خاص طور پر اس لیے کہ یہ میرا پہلا حج ہے۔
اس حوالے سے وزارت حج کا کہنا ہے کہ سعودی شہریوں کے علاوہ 160 ممالک کے شہریوں نے آن لائن سیلیکشن میں حصہ لیا تھا تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے افراد نے آن لائن درخواست دی تھی۔
دوسری جانب کچھ مایوس کن درخواست گزاروں نے شکایت کی ہے کہ حکومتی قرعہ اندازی کا واضح خاکہ نہیں تھا اور ان کی درخواست مسترد ہونے کی وجہ نہیں بتائی گئی۔
معاشی بحران
سعودی وزارت حج کو مسترد کیے گئے درخواست گزاروں کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شکایات کا سامنا ہے لیکن سعودی وزیر برائے حج و عمرہ امور محمد صالح بن طاہر بنتن نے اصرار کیا ہے کہ انتخاب کا عمل شفاف تھا۔
انہوں نے العربیہ ٹیلی ویژن کو بتایا کہ صحت کا تعین کرنے والے افراد نے حج کے لیے لوگوں کے انتخاب کی بنیاد تشکیل دی تھی۔
عالمی وبا کے باوجود کئی عازمین حج رواں برس ہجوم کے بڑے حج میں شرکت کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ عام طور پر حج کے دوران کچھ حاجی بیمار ہوجاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بننے کے خدشے کے باعث حج کو محدود کیا لیکن یہ اقدام سعودی عرب کے معاشی بحران کو بڑھادے گا۔
مختلف ممالک میں ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤنز کے باعث عالمی سطح پر طلب میں کمی سے تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کی وجہ سے سعودی عرب مشکلات کا شکار ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے مکہ میں حج سے متعلق کاروبار متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں افراد کی ملازمتوں پر بھی اثر پڑا ہے۔
خیال رہے کہ عمرہ اور حج کے باعث سعودی عرب کی آمدن میں سالانہ 12 ارب ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے۔
حجاج کرام کیلئے قواعد و ضوابط
خیال رہے کہ کورونا وائرس کے باعث سعودی عرب نے رواں برس حج کی ادائیگی کے لیے حجاج کرام کی تعداد کو محدود کردیا اور اس حوالے سے متعدد قواعد و ضوابط جاری کیے گئے جن کے مطابق نماز اور طواف کے دوران خانہ کعبہ کو چھونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
19 جولائی 2020 یعنی 28 ذیقعد 1441 ہجری سے لے کر 2 اگست، 2020 یعنی 12 ذی الحج تک منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں اجازت نامے کے بغیر داخلے کی ممانعت ہے۔
حج کے درمیان منتظمین کے لیے طواف کے دوران ہجوم میں کمی کے لیے عازمین حج کو تقسیم کرنا لازمی ہوگا جبکہ ہر شخص کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ ہوگا۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس: 'حج کے دوران خانہ کعبہ کو چھونے کی اجازت نہیں ہوگی'
مسجد الحرام کے منتظمین اس امر کو لازمی یقینی بنائیں گے کہ زائرین، سعی کی ہر منزل پر موجود ہوں اور اس دوران سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے ٹریک لائنز بنائی جائیں، علاوہ ازیں مطاف اور صفا و مروہ کی جگہ کو حج زائرین کے ہر کاررواں کے طواف اور سعی کے بعد سینیٹائز کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔
رواں برس خانہ کعبہ اور حجرِ اسود کو چھونا منع ہوگا اور ان مقامات تک پہنچنے سے روکنے کے لیے رکاوٹیں لگائی جائیں گی۔
ساتھ ہی مسجد الحرام سے قالین ہٹادیے گئے جبکہ وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات میں کمی کے لیے ہر حاجی کو اپنی جائے نماز استعمال کرنے کی ہدایت کی جائے گی، مسجد الحرام میں کھانے کی اشیا لانے پر پابندی ہوگی اور مسجد کے صحن میں بھی کھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
حجاج کرام کے داخلے اور باہر نکلنے کو آسان بنانے، ہجوم اور بھگدڑ سے بچاؤ کے لیے مخصوص داخلی اور خارجی مقامات مختص کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حج 2020: صرف سعودی عرب میں موجود افراد کو حج کی اجازت دینے کا فیصلہ
علاوہ ازیں مزدلفہ اور عرفات میں عازمین کو ہر وقت سماجی فاصلے پر لازمی عمل کرنا ہوگا، ماسکس پہننے ہوں گے اور منتظمین کے لیے 50 مربع گز کے خیمے میں 10 سے زائد عازمین حج موجود نہ ہوں اور ہر ایک کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ یقینی ہو۔
اس کے ساتھ ہی جن عازمین کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ہونے پر انہیں مکمل طبی معائنے کے بعد حج کی اجازت دی جائے گی اور انہیں مشتبہ کیسز کے مخصوص گروہوں میں شامل کیا جائے گا، ان کی حالت کو دیکھ کر متعلقہ رہائش گاہ اور الگ ٹریکس کی بسیں مختص کی جائیں گی۔
عازمین کی محدود تعداد کے ساتھ حج کی اجازت
خیال رہے کہ 24 جون کو سعودی عرب کی حکومت نے حج کی ادائیگی کی اجازت دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث حج 2020 کے لیے عازمین کی تعداد کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزارت کی جانب سے جاری تفصیلی بیان میں کہا گیا تھا کہ 'ہجوم اور لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہونے سے کورونا کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا ہے کہ رواں برس حج محدود عازمین کے ساتھ ہوگی'۔
مزید پڑھیں: عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسجدالحرام دو روز کیلئے بند رکھنے کا اعلان
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'سعودی عرب میں مقیم مختلف ممالک کے شہری حج کی ادائیگی کرپائیں گے اور یہ فیصلہ حج کو محفوظ طریقے سے ادا کرنے کے لیے کیا گیا ہے'۔
خیال رہے کہ حج کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان ہر سال سعودی عرب جاتے ہیں اور رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس تقریباً 25 لاکھ مسلمانوں نے حج ادا کیا تھا۔
تاہم رواں برس کورونا وائرس کے باعث سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک سے حج کے لیے کوئی نہیں آسکے گا۔