اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کامیاب ہوئی اور دنیا نے اسکی تقلید کی، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہماری اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کامیاب ہوئی اور دنیا نے اس کی تقلید کی ہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک میں کورونا وائرس کے انفیکشن میں بتدریج کمی آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماہرین کے تجزیے تھے کہ حکومت کی کووڈ 19 مینجمنٹ سے لوگ مطمئن نظر نہیں آرہے تھے اور وہ حکومت سندھ کی حکمت عملی اور ان کے سخت لاک ڈاؤن کی نشاندہی کرتے تھے اور سوال کرتے تھے کہ پنجاب اور مرکزی حکومت ایسا کیوں نہیں کر رہی۔
مزید پڑھیں: ’آرڈیننس میں کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی‘
انہوں نے کہا کہ ماہرین کے تجزیے کے مطابق 30 جولائی تک پاکستان میں 12 لاکھ کورونا سے متاثرہ مریض اور 50 ہزار کے قریب اموات ہونی تھیں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے پاکستان کو محفوظ رکھا اور نہ 12 لاکھ مریض ہیں، نہ 50 ہزار اموات ہیں، جو ہوئی ہیں ان کا بھی ہمیں بہت دکھ ہے اور ہم متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرنا چاہتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسی وبا سے نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر کا انتقال ہوا، میری دعا ہے کہ اللہ انہیں اور اس وبا سے جاں بحق دیگر افراد کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہلخانہ کو صبر عطا فرمائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری اسمارٹ لاک ڈاؤن کی جو حکمت عملی تھی، وہ کارآمد ثابت ہوئی اور آج دنیا نے اس کی تقلید کی ہے اور عمران خان صاحب نے جو وژن دیا تھا، آج دنیا کے بہت سے ممالک اس کی پیروی کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غلط پالیسیوں کے باعث بھارت کا چاہ بہار منصوبے سے انخلا ہوا، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا انفیکشن ریٹ بتدریج کم ہو رہا ہے، اموات بتدریج کم ہو رہی ہیں، ہسپتالوں پر دباؤ اور وینٹی لیٹرز پر لوگ کم ہو رہے ہیں اور اللہ نے چاہا تو ہم اس بیماری کو ختم کرنے کے قریب ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی دو امتحان باقی ہیں، ہماری اپیل ہے کہ لوگ احتیاط جاری رکھیں، عید قرباں قریب ہے اور ہماری گزارش ہے کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے احتیاط کیجیے کیونکہ ذرا سی غفلت ایک نئے عروج کا سبب بن سکتی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں ماہ محرم میں اگلے چیلنج کا سامنا کرنا ہے، محرم میں عزاداری ہوتی ہے، ہمیں اس کا پورا احترام اور اس کی اہمیت کا احساس ہے لیکن علما و مشائخ سمیت دینی اکابرین سے درخواست ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل کروائیں اور اپنے طبقے کو محفوظ کرنے کے لیے تعاون فرمائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم سے غلفلت ہو گئی تو جو ہم آج اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم نے اس مرض پر بہتر طریقے سے قابو پایا ہے اور آہستہ آہستہ بند کیے گئے شعبوں کو کھول رہے ہیں تو کہیں اس میں خلل نہ پڑ جائے۔
مزید پڑھیں: 'کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت کے بارے میں دنیا کا رویہ بدلا ہے'
ان کا کہنا تھا کہ شادی ہالز اور ریسٹورنٹ والے منتظر ہیں کہ ان کی روزی اور کاروبار بحال ہوں، والدین خواہشمند ہیں کہ اسکول و کالج کھلیں اور ان کے بچوں کی جو تعلیم متاثر ہو رہی ہے، وہ دوبارہ بحال ہو۔
تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ ان تمام چیزوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ اگر ہم نے عید اور محرم خیریت سے گزار لیا تو کاروبار کھلنے کے امکان روشن ہیں اور اللہ نہ کرے اگر کوئی غفلت ہو گئی اور وبا کا عروج آ گیا تو پھر ہم لاچار ہو جائیں گے۔
’ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے 8 قانون ساز بل تیار کرلیے‘
انہوں نے کہا کہ بھارت کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ میں دھکیلے اور خدانخواستہ اگر پاکستان بلیک لسٹ میں آجاتا ہے تو اس کے ہماری معیشت پر جو بھیانک اثرات ہوں گے اس کا اندازہ آپ مجھ سے بہتر لگا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ ایسا نہ ہو، حکومت وقت نے ایسے ٹھوس انتظامی اور قانونی اقدامات اٹھائے ہیں جس سے ہماری خواہش ہے کہ ہمیں گزشتہ حکومت سے ملنے والی گرے لسٹ سے نکل پائیں اور ہم وائٹ لسٹ میں پاکستان کو دوبارہ لا کھڑا کریں اور اس کے لیے کچھ قانون سازی درکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے زمین پر دنگ کردینے والے اثر کا انکشاف
شاہ محمود نے کہا کہ آٹھ ایسے قوانین ہیں جس پر ہم نے وزارت قانون اور خزانہ سے مشاورت کی ہے اور ایف اے ٹی ایف کے معاملات دیکھنے والے افراد سے گفتگو کے بعد 8 قانون ساز بل تیار کر لیے ہیں اور ایک مشترکہ کمیٹی اس سلسلے میں معرض وجود میں آچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس 24 رکنی کمیٹی میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے اور اس میں حکومت کی حلیف جماعتوں کی بھی نمائندگی ہے جبکہ اس میں نیشنل اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے بھی اراکین ہیں۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ اگر ہم نے یہ قانون سازی بروقت نہ کی تو پاکستان جس ایشیا پیسیفک گروپ کا رکن ہے، ہمیں اس میں اپنے عملی اقدامات رکھنے ہیں اور انہوں نے اس کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ مرتب کرنی ہے اور اس رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا کہ ہم نے پاکستان کو جن چیزوں کا پابند کیا تھا، کیا پاکستان نے اسے پورا کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہمیں وقت کو ذہن میں رکھنا ہو گا کیونکہ اگر ہم نے چیزیں درست نہ کیں اور تاخیر کردی تو پھر چیز ہاتھ سے نکل جائے گی۔
’نیب قوانین میں ترمیم پر مشاورت کیلئے تیار ہیں‘
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابقا نیب کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم اس سلسلے میں اپنی تجاویز اپوزیشن جماعتوں کو دے رہے ہیں اور ہم خلوص نیت اور کھلے ذہن کے ساتھ اس پر کام کررہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ اپوزیشن نے نیب قوانین کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اس لیے حکومت ان کی جائز شکایات کو دور کرنے کے لیے تیار ہے کیوں کہ حکومت کا مقصد انتقامی کارروائیوں کے لیے نیب قوانین کا استعمال کرنا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کھلے دل سے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو 5، 5 سال حکومت کرنے کا وقت ملا لیکن وہ نیب میں کوئی تبدیلی نہ لاسکیں تاہم اب دونوں جماعتیں نیب قونین میں ترمیم کے لیے تیار ہیں جس کے لیے ہم کھلے دل سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ہم کرپشن فری پاکستان چاہتے ہیں۔