کراچی روشن کرنے والا
کراچی میونسپلٹی کے پہلے صدر (1911-1922) اور شہر میں پہلی بار بجلی لانے والے سیٹھ ہرچند رائے وشن داس کا سرکٹا مجسّمہ -- مہوٹہ پیلس، کراچی -- فوٹو -- اختر بلوچ'روشنیوں کے شہر' کی اصطلاح کراچی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ گذشتہ 30 سالوں سے ہر حکمراں جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ روشنیوں کے شہر کی رونقیں ضرور بحال کریں گے۔ مگر رونقیں ہیں کہ بحال ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔سیاسی جماعتیں جب پہلے یہ دعویٰ کرتی تھیں تو غالباً ان کی مراد امن وامان کی بحالی ہوتی تھی۔ لیکن گزشتہ 10 سال سے اس میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی شامل ہو گیا ہے۔تقسیم سے قبل کراچی کا شمار پس ماندہ شہروں میں ہوتا تھا۔ روشنیوں کے شہر میں روشنی کے لیے مٹی کے تیل کے لیمپ اور گیس بتیاں جلائی جاتیں تھیں۔ شہر حقیقتاً روشنی کا شہر اس وقت بنا جب ہرچند رائے وشن داس 1911 تا 1921 کے دوران کراچی میونسپلٹی کے صدر بنے۔اراکین بلدیات کراچی رسالے کی 1980 کی اشاعت میں ہرچند رائے وشنداس کے حوالے سے تحریر ہے کہ وہ 1911 میں کراچی میونسپلٹی کے پہلے مقامی صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے کراچی کی ترقی کے لیے بہت کام کیے۔ جن میں بجلی کمپنی کا قیام سب سے اہم تھا۔بجلی کی آمد نے کراچی کو جدید شہر بنا دیا۔ رسالے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کا تعلق بمبئی کے ایک ہندو خاندان سے تھا (جب کہ دیگر حوالوں سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے)۔ وہ سندھ کے مقامی باشندے تھے اور ان کا جنم کوٹری شہر کے قریب ایک گاؤں میں ہوا تھا۔ وہ نہ صرف ایک فعال سماجی رہنما تھے بلکہ ایک نظریاتی سیاسی کارکن بھی تھے۔ مہاتما گاندھی اور دیگر کے ساتھ ایک یادگار تصویر -- فوٹو -- خادم حسین سومرو --.پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب 'اُھی ڈینھن اُھی شینھن' (وہ دن وہ لوگ) میں لکھتے ہیں کہ سیٹھ ہر چند رائے اور ان کے دوست غلام محمد خان بھرگڑی وہ نامور سندھی شہری تھے جنھوں نے اس وقت کے گورے (انگریز افسران) اور نوکر شاہی کے سامنے یہ نعرہ بلند کیا کہ سندھ کی شہریت ایک شان دار چیز ہے نہ کہ رسوائی کا سبب۔علی محمد راشدی مزید لکھتے ہیں کہ؛"ان کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب وڈیرے 'صاحب لوگوں'‘ (انگریز افسران) کے پاس سلام (حاضری) کے لیے پیش ہوتے تھے تو صاحب کا پٹے والا ان کے جوتے اتروا کر انھیں ننگے پیر اندر لے جاتا تھا۔ کمشنر صاحب لیوکس، ان کی تذلیل کرنے کے لیے ان سے پوچھتے تھے؛تم بدمعاش ہو یا نہیں؟وڈیرے جواب میں کہتے تھے، "جی قبلہ! باپ دادا سے لے کر سرکار کے بدمعاش ہیں۔"اندیشہ یہ ہوتا تھا کہ انکار کرنے سے مبادا صاحب ناراض ہو جائے اور سچ مچ ان کے خلاف کاروائی نہ کر بیٹھے۔سیٹھ ہرچند رائے نے کراچی میونسپلٹی کے صدر کی حیثیت سے اپنے دور میں کراچی میں بے حد ترقیاتی کام کروائے۔ 1846 سے لے کر 1884 تک کراچی میونسپلٹی میں افسروں اور اہل کاروں کا زور رہتا تھا اور اراکین بھی ایسے نامزد ہو کر آتے تھے جن پر اہل کاروں کا زور چلتا تھا۔یہ اراکین ہمیشہ افسروں کے کہنے پر عمل کرتے تھے۔ 1885 سے کراچی میونسپلٹی میں نامزد اراکین کے علاوہ منتخب اراکین بھی آنے لگے۔ ہرچند رائے کی ان تھک کاوشوں سے کراچی میونسپلٹی ایک عوامی ادارہ بنا۔سندھ اور خصوصاً کراچی کی تاریخ کے حوالے سے مورخ گل حسن کلمتی اپنی سندھی کتاب "کراچی جا لافانی کردار" (کراچی کے لافانی کردار) میں لکھتے ہیں کہ ہرچند رائے نے شہر کراچی میں مختلف برادریوں کے زیر انتظام کام کرنے والے سماجی اداروں کی بھی دل کھول کر مدد کی۔ ان اداروں کو میونسپلٹی کی جانب سے مفت پلاٹ دیے گئے تاکہ وہ بہتر طریقے سے کام کر سکیں.ان اداروں میں سنت دھرم منڈل، کنیا شالا، ڈوسا کنیا پاٹ شالا، خواجہ اسماعیلی کاؤنسل، مشن گرلزاسکول لوھانا واڈیامنڈل، لوھانا انڈسٹریل و ٹیکنیکل انسٹیٹیو ٹ اور سندھ مدرسے کا ادارہ شامل تھا۔کراچی میں 1896 سے 1897 کے عرصے میں جب طاعون (Plague) کی وبا پھیلی تو اس وقت ہرچند راۓ میونسپلٹی میں کاؤنسلر تھے۔ وبا سے نپٹنے کیلئے انھوں نے ایک عارضی اسپتال قائم کیا جس کے انچارج ہرچند راۓ اور ان کے کزن تھے۔ہرچند رائے نے پوری ٹیم کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی۔ اس دوران خالی گھر وں میں کچھ افراد نے لوٹ مار کی تو فوج اور پولیس کے ساتھ مل کر ہر چند راۓ نے ان گھروں کی حفاظت کے لیے نوجوانوں کے جتھے مقرّر کئے۔کراچی شہر میں ہر چند رائے کے دور سے قبل سڑکیں کچی ہوتی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ شہر میں تارکول (ڈامبر) سے بنائی جانے والی سڑکیں بھی انھوں نے متعارف کروائیں اور پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ بھی۔سندھی ادب اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اصفر آزاد نے ہمیں بتایا کہ ہر چند رائے کی کراچی کے لیے خدمات کو ایک بلاگ میں تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے لیاری ندی کا رُخ تبدیل کر کے کراچی والوں کو ایک بڑی مصیبت سے چھٹکارا دلایا۔موتی رام سترام داس اس بارے میں اپنی کتاب 'رتن جوت' کے صفحہ نمبر 101 پر لکھتے ہیں کہ؛"لیاری ندی شہر کے درمیان میں بہتی تھی اور پانی کے تیز بہاؤ کے سبب شہریوں کے لیے مصیبت اور آزار کا سبب بنتی تھی۔ پانی اترنے کے بعد مچھروں کی بہتات ہو جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے ملیریا کا بخار پھیل جاتا تھا۔اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے سیٹھ ہر چند رائے نے انجنیئروں سے مشورے کے بعد ایک کارگر منصوبہ تیار کروایا۔ لیاری ندی گاندھی باغ (کراچی چڑیا گھر) کے قریب دھوبی گھاٹ پر بند باندھا گیا اور پانی کے بہاؤ کا رُخ تبدیل کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مزید زمین میسر ہوئی اور اور ایک اور کوارٹر وجود میں آیا۔لوگوں کی رائے تھی کہ اس کوارٹر کا نام ہر چند رائے کے نام سے منسوب کیا جائے لیکن سیٹھ صاحب کا واضح موقف تھا کہ جب تک میونسپلٹی کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہیں وہ اس قسم کا کوئی فائدہ نہیں لیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چند رائے اپنے اصولوں کی کس حد تک پاس داری کرتے تھے۔"ہر چند رائے ایک آزاد خیال اور مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کے دوران ہمیشہ اس بات کا ثبوت دیا کہ ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔محمد عثمان دموہی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے کے صفحہ نمبر 514 پر لکھتے ہیں کہ؛"جب سندھ کو بمبئی پزیڈینسی سے علیحدہ کرنے کی تحریک چلائی گئی تو کچھ ہندو اس تحریک کے سخت خلاف تھے۔ مگر آپ نے اپنی قوم کی مخالفت کے باوجود اس تحریک میں دل و جان سے حصہ لیاتھا۔"جب کراچی میں کٹر ہندؤوں نے شدھی تحریک چلائی تو آپ نے کھل کر اس گھناؤنی تحریک کی مخالفت کی اور اس کی سرکوبی کے لیے میدان میں اتر آئے (شدھی تحریک کے بارے میں بات پھر کبھی کریں گے)آپ سائمن کمشن کے بائیکاٹ میں بھی شریک رہے۔ غرض کہ آپ بے حد غیر متعصب اور بے لوث سماجی رہنما تھے۔سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیوں ہوا؟ اس بارے میں معروف مورخ اور محقق ڈاکٹر مبارک علی خان نے ہمیں بتایا کہ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ جس کے قائد جناح تھے نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔ لیکن ایک مسلم لیگ سر محمد شفیع کی قیادت میں پنجاب میں بھی تھی، انھوں نے سائمن کمیشن کو خوش آمدید کیا تھا۔بہرحال کانگریس اور جناح صاحب کا موقف یہ تھا کہ چوں کہ کمیشن میں کوئی بھی ہندوستانی شامل نہیں اس لیے یہ کمیشن ناقابل قبول ہے۔سائمن کمیشن کی آئینی منظوری کے لیے انڈین قانون ساز اسمبلی کے 1 فروری کو ہونے والے اجلاس میں وائسرائے نے تقریر کی۔ ہرچند رائے اس وقت خراب صحت کی بناء پر کراچی میں تھے۔ اسمبلی میں کمیشن کے حوالے سے ووٹنگ ہونی تھی۔ ہرچند رائے نے اپنی خراب صحت کے باوجود اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔موتی رام سترادم داس اپنی کتاب 'رتن جوت' میں لکھتے ہیں؛"14 فروری کو وہ بہ ذریعہ ٹرین لاہور میل کے ذریعے کراچی سے روانہ ہوئے۔ ٹرین جب سماسٹہ اسٹیشن پہنچی تو شدید سردی کے سبب ان کی حالت بگڑنے لگی۔ وہ خون کی اُلٹیاں کرنے لگے۔ انھیں علاج کے لیے کہا گیا۔ لیکن وہ دہلی جانے کے لیے بضد تھے۔16 فروری کی صبح وہ دہلی پہنچے ان کی حالت بہت خراب تھی۔ انھیں ٹرین سے کرسی پر بٹھا کر موٹر میں سوار کرایا گیا اور اسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ بضد تھے کہ اسمبلی جا کر ووٹ دیں گے۔ اسمبلی کی جانب آتے ہوئے ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ بلا آخر وہ اسمبلی کے گیٹ پر جان کی بازی ہار گئے۔ یہ تھی ان کی نظریاتی وابستگی اور سیاسی خلوص کی انتہا۔ ان کی آخری رسوم شان و شوکت سے ادا کی گئیں۔آخری رسومات میں پنڈت مدن موھن مالویہ، پنڈت موتی لال نہرو، وٹھل بائی پٹیل سمیت بے شمار نامور شخصیات شریک ہوئیں۔ ان کا اگنی سنسکار جمنا ندی کے کنارے پر کیا گیا"۔ہرچند رائے نام و نمود کے سخت خلاف تھے۔ ان کے دیہانت کے بعد ان کی یاد میں 28فروری 1928 کو خالق دینا ہال میں ایک عوامی جلسہ منقد کیا گیا۔ موتی رام سترام داس کے مطابق جلسے میں فیصلہ کیا گیا کہ مرحوم کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی جائے۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی ترتیب دی گئی۔6 سال بعد 16 فروری 1934 کو کراچی میونسپلٹی کمپاؤنڈمیں ان کے مجسمے کی تقریب رونمائی کی گئی۔ مجسمہ بنانے پر 16 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ یہ رقم کراچی کے شہریوں سے حاصل کی گئی تھی۔ یہ مجسمہ مسٹر ٹام نے بنایا تھا۔اراکینِ بلدیات کراچی رسالے کے مدیر مناظر صدیقی اداریئے میں لکھتے ہیں؛"آنجہانی ہرچند رائے وشن داس کے کراچی پر بڑے احسانات ہیں۔ ان کے کردار اور خدمات کے اعتراف میں کراچی میں ان کا ایک مجسمہ نصب تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد ہٹا دیا گیا".مجسمہ ہٹانے تک تو خیر لیکن ان کے نام سے موسوم سڑک کا نام تبدیل کر کے اسے ایک دوسرے سربراہِ بلدیہ سے موسوم کر دینے کا جواز سمجھ میں نہیں آیا.اگر صرف جناب صدیق وہاب کی خدمت کا اعتراف کرنا مقصود تھا تو ان کے نام سے اسی طرح کسی نئی سڑک کو موسوم کیا جا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جناب صدیق وہاب اور آنجہانی ہرچند رائے وشن داس دونوں ہی بلدیہ کراچی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ محسن کراچی سیٹھ ہرچند راۓ کا یادگاری مجسّمہ (کل اور آج) -- فوٹو بشکریہ -- اختر بلوچ اور خادم حسین سومروہمیں پتہ چلا کہ ہرچند رائے کا یہ مجسمہ میونسپلٹی کے گوداموں میں موجود ہے۔ ہم نے تمام گودام کھنگال ڈالے مگر اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ بعد میں ہر چند رائے پر لکھی گئی کتاب کے مصنف جناب خادم حسین سومرو نے ہمیں بتایا کہ یہ مجسمہ مہوٹہ پیلس میں موجود ہے۔ جب وہاں پہنچ کر مجسمہ دیکھا تو وہ سر سے محروم تھا۔ یقیناً یہ سر کسی 'بت شکن' نے قلم کیا ہوگا۔ اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
تبصرے (19) بند ہیں