• KHI: Asr 5:06pm Maghrib 7:01pm
  • LHR: Asr 4:44pm Maghrib 6:41pm
  • ISB: Asr 4:52pm Maghrib 6:49pm
  • KHI: Asr 5:06pm Maghrib 7:01pm
  • LHR: Asr 4:44pm Maghrib 6:41pm
  • ISB: Asr 4:52pm Maghrib 6:49pm

جان کیری کو ڈرون حملوں کے بہت جلد خاتمے کی اُمید

شائع August 2, 2013

Kerry hopes Pakistan drone strikes to end very soon 670
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف سے مذاکرات کے بعد پی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ڈرون حملے بہت جلد بند ہوجائیں گے۔ —. فوٹو اے پی

اسلام آباد: امریکا کےوزیرِ خارجہ نے کل بروز جمعرات یکم اگست کو ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ امریکی فوج کی جانب سے پاکستانی علاقوں میں کیے جانے والے ڈرون حملے ”بہت ہی جلد“ بند ہوجائیں گے۔ ان حملوں سے فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے انتہائی اہم ملک میں امریکی مخالف جذبات کو فروغ مل رہا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف سے مذاکرات کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ پارٹنرشپ کی تشکیل ِنو کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ ڈرون حملوں اور خاص طور پر مئی 2001ء میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے کی جانے والی امریکی چھاپہ مار کارروائی کے حوالے سے جاری تلخیاں اور دیگر شکایات جلد ختم ہوجائیں گی۔

بعد میں پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن (پی ٹی وی )کو انٹرویو دیتے ہوئے جان کیری نے ڈرون حملوں کے بارے میں کہا ”میرا خیال ہے کہ ڈرون حملوں کا پروگرام ختم ہوجائے گا، اس لیے کہ ہم نے بہت سے خطرات کا خاتمہ کردیا ہے اور جو باقی رہ گئے ہیں، ہم انہیں ختم کررہے ہیں۔“

جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکا نے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کیے جانے والے ڈرون حملوں کے خاتمے کے لیے کوئی ٹائم ٹیبل تیار کررکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا ”میں سمجھتا ہوں کہ صدر اوبامہ نے اس سلسلے میں حقائق پر مبنی ایک ٹائم لائن تیار کرلی ہےاور مجھے امید ہے کہ یہ بہت ہی جلد ہونے جارہا ہے۔“

جان کیری کا یہ بیان امریکی صدر بارک اوبامہ سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہے، جنہوں نے 23 مئی کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ڈرون حملوں میں تخفیف کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ  2014ء کے اختتام تک امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہورہا ہے۔

لیکن اوبامہ نے اپنی تقریر میں ڈرون حملوں کے مکمل طور پر خاتمے کی بات نہیں کی تھی اور انہوں نے ان حملوں کا تفصیلی جواز پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ حملے اُن دہشت گردوں کے خلاف ہیں جن کی وجہ سے  امریکی عوام کو مسلسل خطرات لاحق ہیں، اور جب کوئی بھی حکومت ان کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کے قابل نہ ہو تو لامحالہ ہمیں یہ حملے جاری رکھنے پڑ رہے ہیں۔“

افغانستان کی سرحد کے قریبی علاقوں میں خاص طور پر شمالی وزیرستان کے علاقے جہاں طالبان اور القاعدہ سے منسلک بہت سے دہشت گرد گروہوں نے اپنا مضبوط گڑھ بنا رکھا ہے، امریکا کے ڈرون میزائل  2004ء سے انہیں نشانہ بنارہے ہیں۔

ڈرون حملوں سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کے رپورٹوں پر پاکستانی عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، اور وہ اس کو اپنی خودمختاری پر بھی حملہ سمجھتے ہیں۔

نیو امریکا فاؤنڈیشن کے پچھلے ڈھائی سالوں کے ریکارڈ شدہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کی تعداد، اس سال میں اب تک  17 رہی، 2012ء میں 48 اور   2011ء میں 73 تھی۔

نواز شریف اور کیری کے درمیان طوالت اختیار کرجانے والے دوطرفہ مذاکرات میں نواز شریف نے ڈرون حملوں کو روکنے کے حوالے سے پوچھا ”ہم چاہتے ہیں کہ اس کو روک دیا جائے۔“ تو اس وقت کچھ واضح نہیں تھا۔

جب وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے امریکا پر ڈرون حملوں میں تخفیف کرنے پر زور دیا ہے تو انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ”ہم نے محض اس کو کم کرنے کے بجائے اسے ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔“

امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کی وجوہات میں ان ڈرون حملوں اور 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ طالبان دہشت گرد جو افغانستان میں مغربی افواج سے جنگ میں مصروف ہیں، کے لیے  پاکستان کی حمایت اور نیٹو کا فضائی حملہ جس میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، شامل ہیں۔

جان کیری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی محض یہ وجہ نہیں ہے کہ ہمیں خطرات کا سامنا ہے، اور یہ تعلقات صرف دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لیے بھی نہیں ہیں، ان تعلقات کا مقصد پاکستانی عوام کی مدد کرنا ہے، خاص طور پر اس نازک صورتحال میں اس مدد کا مقصد پاکستان کی معیشت کی بحالی ہے۔

جس طرح پاکستان میں ایک نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، اسی طرح واشنگٹن میں بھی ایک نئے سیکریٹری خارجہ کی وجہ سے اس امید میں اضافہ ہوا ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کی شکایات کو دور کریں گے۔ امید ہے کہ دونوں کو کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوگا۔ پاکستان کی معیشت بدحالی سے دوچار ہے اور اس کو مدد کی ضرورت ہے، جبکہ افغانستان سے امریکی افواج کا بڑی تعداد میں انخلاء ہورہا ہے۔

جان کیری جب سینیٹر تھے تو انہوں نے قانون سازی کا ایک بل پیش کیا تھا کہ پاکستان کو پانچ سال کے دوران سات ارب ڈالر کی امداد فراہم کی جائے۔ امریکا پاکستان کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے۔ جان کیری نے نواز شریف کو اوبامہ سے مذاکرات کے لیے امریکا کے دورے کی دعوت دی۔

انہوں نے کہا کہ ”آج کیا اہم ہے، ہماری توجہ اسی پر مرکوز ہونی چاہئیے، تاکہ ان تعلقات کو آگے بڑھاتے ہوئے مکمل پارٹنر شپ تک پہنچایا جاسکے، اور یہی پہلے بھی ہونا چاہئے تھا، اور انفرادی اور تکلیف دہ مسائل کے حل کے لیے راستہ تلاش کرنا چاہئیے تھا۔“

اس خوشگواریت کے پس پردہ پرچھپی مصیبتیں

ایک امریکی تھنک ٹینک ووڈ رو ولسن انٹرنیشنل سینٹر کے ایک تجزیہ کار مائیکل کوگل مین، نے کہا کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ واشنگٹن 2014ء سے قبل جب وہ اس کے پڑوسی ملک افغانستان سے فوجیں نکالے گا،پاکستان میں ڈرون حملوں کے خاتمے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

مائیکل کوگل مین نے کہا کہ جب ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے پیدا ہونے والا تناؤ کچھ کم ہوا ہے، ڈرون حملے پر پیدا ہونے والا تنازعہ اور نوازشریف کی جانب سے طالبان کی پاکستانی شاخ سے مذاکرات کی تجویز سے کشیدگی میں اضافہ ہوجائے گا۔

کوگل مین نے کہا کہ القائدہ کے ساتھ منسلک دہشت گردوں سے اتحاد رکھنے والے پاکستانی طالبان جو پاکستانی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے لڑ رہے ہیں، کے ساتھ مذاکرات سے افغانستان میں امریکا کہ سیکیورٹی مفادات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس وقت جبکہ اوبامہ انتظامیہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے انتظامات میں مصروف ہے۔

کوگل مین نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ”اس خوشگواریت کے پس پردہ مصیبت چھپی ہوئی ہے۔ جان کیری کا دورۂ پاکستان یہ ظاہر کرتا ہے کہ خیرسگالی کے اس دور کو کچھ توسیع مل جائے گی، ہمیں تناؤ کے درمیان ملنے والی اس مہلت کا احترام کرنا چاہئے۔“

لیکن دونوں فریقین نے اپنی شکایات کو دور کرنے کے لیے نئے سرے سے بات شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

گزشتہ سال جب دونوں فریقین ایک معاہدے تک پہنچے کہ افغانستان میں مغربی افواج کے لیے سپلائی کے زمینی راستے دوبارہ کھول دیئے جائیں، اس کے بعد سے تعلقات میں جزوی طور پر بہتری آنا شروع ہوئی۔ یاد رہے کہ ان راستوں کو نومبر 2011ء میں ایک فضائی حملے کے بعد بند کردیا گیا تھا، جس میں پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

جان کیری نے اعلان کیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی حکمت عملی سے متعلق مذاکرات کا ازسرنو آغاز ہو رہا ہے۔ وسیع بنیادوں پر ان مذاکرات میں سیکیورٹی، معیشت اور ترقیاتی معاملات پر توجہ مرکوز کی جائے گی، یاد رہے کہ ان مذاکرات کا سلسلہ 2010 میں دونوں حکومتوں کے درمیان بگڑتی ہوئی کشیدگی کے باعث ٹوٹ گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 29 اپریل 2025
کارٹون : 28 اپریل 2025