شادی ہال کی بندش اور بیروزگاری سے بننے والی دردناک کہانیاں
کراچی سمیت سندھ بھر میں کورونا کیسوں میں کمی آنے کے بعد امید افزاء ماحول پیدا ہورہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی بھی آرہی ہے لیکن پچھلے 4 ماہ کے دوران ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگایا جانا بے حد مشکل ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران جہاں دیگر صنعتیں متاثر ہوئیں وہیں کراچی کے شادی ہال سے وابستہ ہزاروں افراد ان دنوں تنگدستی کا شکار ہوئے۔ اب تو پانی سر سے اوپر گزر گیا ہے کہ فاقہ کشی کی نوبت آن پہنچی ہے۔
سندھ کے ضلع میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے محمد بشیر پچھلے سال روزگار کی تلاش میں کراچی آئے تھے۔ شہرِ قائد کے ایک شادی ہال میں بیراگیری کی ملازمت ملنے کے بعد خاندان سے دُور منظور کالونی میں مزدوروں کے ساتھ شیئرنگ پر چھوٹے سے کمرے میں رہنے لگے۔ لاک ڈاؤن کے بعد شادی ہال بند ہوئے تو بشیر کا واحد ذریعہ آمدن بھی متاثر ہوا۔ بیلچا اٹھائے مزدوری کی تلاش میں نکلا تو وہاں بھی ایک ماہ میں 2 مرتبہ ہی دیہاڑی ملی۔
صرف یہی نہیں بلکہ لاک ڈاؤن کے پہلے مہینے میں آدھے ماہ کا راشن میسر آیا۔ اس کے بعد کسی نے حال پوچھنا تک گوارا نہیں کیا۔ اگرچہ بشیر کو 2 اگست سے شادی ہال کھلنے کی خبر نے کچھ امید تو دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سفر اب بھی کٹھن ہے۔
محمد ایوب کراچی کے رہائشی ہیں۔ پچھلے 20 برسوں سے کندھے پر کیمرا لادے لوگوں کی زندگی کے یادگار لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ ویسے تو تیزی سے ترقی کرتی ٹیکنالوجی کے اثرات نے ان کے اس کام کو پہلے ہی نقصان پہنچادیا تھا مگر پھر بھی لاک ڈاؤن سے قبل شادی اور ولیمے کی عکس بندی کے عوض کچھ رقم مل جاتی تھی جس سے گھر کا گزارا ہوتا تھا۔ لیکن شادی ہال کی بندش نے تو جیسے ایوب کی کمر توڑ دی ہے۔ 4 ماہ سے ہر ماہ اگلے مہینے کے وعدے پر قرض لیتا آرہا ہے۔ نوبت فاقہ کشی تک پہنچ چکی ہے۔
قیصر کو شادی ہال میں پیانو بجانے کے عوض ایک ہزار روپے ملا کرتے تھے۔ 3 گھنٹوں کے دوران تقریب میں آنے والوں کے کانوں میں شادمان موسیقی سے رس گھولنے والا آج خود تشنہ لب ہے۔
ایسی سیکڑوں سچی کہانیاں شادی ہالز کی بندش کے گرد گھومتی ہیں۔ جہاں الیکٹریشنز، گل فروش، پکوانوں کے کاروبار سے وابستہ لوگ، گوشت بیچنے والے غرضیکہ ہر طبقہ نہ صرف تنگدستی کا شکار ہوا ہے بلکہ ہزاروں افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
حال ہی میں اختر کالونی سے گزر ہوا تو ایک گھر کے قریب کوسٹر سے کئی خواتین کو اترتے دیکھا۔ نادر و نایاب زیورات پہنے خواتین ہجوم کی صورت تحائف لیے گھر کے باہر کھڑی اندر جانے کا اشارہ ملنے کی منتظر تھیں۔ اس کے بعد بھی کئی ایسے واقعات دیکھنے اور سننے میں آئے جہاں لوگوں نے اپنے گھر کی چھتوں پر 60 سے 80 افراد کو مدعو کرکے شادیوں اور ولیموں کی تقاریب نمٹائیں۔
کئی افراد کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں شادی کرنے کا فیصلہ سب سے بہتر اقدام ثابت ہوا اور شاید خرچہ بچانے کی یہ روایت لاک ڈاؤن ختم ہونے اور شادی ہال کھل جانے کے بعد بھی جاری رہے۔ اسی وجہ سے کئی افراد دورانِ لاک ڈاؤن ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر اپنوں سے ہی نالاں دکھائی دیے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب عید الفطر میں بازاروں کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی، پبلک ٹرانسپورٹ بحال کردی گئی، لاک ڈاؤن میں نرمی تک کردی گئی تو شادی ہال مالکان کو ایس او پیز کے تحت ہالز کیوں نہیں کھولنے دیے گئے؟
کورونا وائرس کی وبا کے دوران مارکیٹوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد کرانا انتہائی مشکل اقدام تھا۔ جس کا نتیجہ ہم نے زینب مارکیٹ کے کھلنے اور دوبارہ بندش کے دوران دیکھا۔
شادی ہال اور کیٹررز ایسوسی ایشنز ان دنوں بھی اپنی پریس کانفرنسوں اور ڈیمو کے ذریعے حکومت کو یقین دلاتے رہے کہ وہ ایس او پیز پر بہتر انداز میں عمل درآمد کراسکتے ہیں لیکن ان کو پھر بھی کام شروع کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ دیکھا جائے تو ہزاروں افراد کے مقابلے ایک ہال میں محدود چند سو لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر عمل کراتے ہوئے تقریب کو جاری رکھنا آسان ہے۔
تاہم یہاں شادی ہال کھلنے یا نہ کھلنے سے زیادہ اس سے جڑے لوگوں کے معاشی حالات اہمیت رکھتے ہیں۔
یہاں ورک فرام ہوم کا آپشن بھی موجود نہیں ہے۔ چند ہال مالکان نے تو سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے ملازمین کو شادی ہال میں پناہ دی لیکن اکثر نے ان سے معذرت کرکے واپس بھیج دیا کیونکہ بغیر کمائے ان کو اجرت دینا انتہائی مشکل کام تھا۔
چھوٹے نجی اسکولوں میں بھی متعدد اساتذہ کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جہاں اداروں نے بروقت فیسوں کے حصول میں آنے والے خلل کی وجہ سے اساتذہ اور اسٹاف کو ملازمتوں سے فارغ کردیا ہے۔
لیکن اگر ہم چار مہینے پیچھے جائیں تو ہمیں یہ یاد آئے گا کہ کورونا وائرس کی وبا آئی تو پوری دنیا سمیت پاکستان اور پھر شہرِ قائد میں بھی لاک ڈاؤن کی ہوا چل پڑی۔ کاروباری سرگرمیاں ٹھپ، تعلیمی ادارے بند اور تفریحی مقامات کو بھی تالے لگ گئے تھے۔
اس دوران مختلف افراد کی مختلف آراء سامنے آئیں جن میں سب سے اہم رائے ایک مہینے کا مکمل لاک ڈاؤن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ایک ماہ بھرپور لاک ڈاؤن کردیا جاتا جاتا اور پھر ایس او پیز کو اپناتے ہوئے لاک ڈاؤن کو کھولا جاتا تو شاید حالات مختلف ہوتے۔
لیکن ہم مسلسل کشمکش کا شکار ہی رہے۔ کبھی سخت لاک ڈاؤن کی بات ہوئی تو کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اصظلاح کا استعمال ہوا، اور اسی غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے انسانی صحت اور معیشت پر بہت بُرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
کراچی میرج ہال لان بینکویٹ اونر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری خواجہ طارق کہتے ہیں کہ 'ہر شادی ہال سے کم و بیش 30 افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ بحیثیت ہال مالکان ہم بھی شدید پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ شادی ہال میں بکنگ کرانے والے افراد پیسوں کی واپسی کا تقاضا کررہے ہیں'۔
دھرنوں اور احتجاج کے بعد امید کی جارہی ہے کہ 2 اگست سے شادی ہال کھل جائیں گے اور ان کے پاس محرم سے قبل صرف ایک ماہ کا وقت ہوگا۔ اس دوران بھی ممکنہ طور پر انہی لوگوں کی شادیاں ہوسکیں گیں جو سال پہلے ان تاریخوں پر طے کی جاچکی ہیں۔
اس لیے آنے والے دن بہت اہم ہیں، اور صرف افراد یا خاندان کے لیے نہیں بلکہ پوری ریاست کے لیے، کیونکہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر بیروزگاری طول پکڑتی ہے تو حکومت کو کام کرنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے بہرحال حکومت کو آگے آنا ہوگا اور اپنی رعایا کو اس مشکل سے نکالنا ہوگا کیونکہ اگر رعایا خوش ہوگی تبھی حکومت بھی اچھے ماحول میں اپنا کام کرسکے گی۔